بدھ، 17 جنوری، 2018

10:14 PM


کوانٹم کمپیوٹر
ترجمہ: قدیر قریشی
جنوری 11، 2018

انسانی تاریخ کے بیشتر حصے میں ہماری ٹیکنالوجی ہمارے دماغ، آگ اور نوکدار چھڑیوں یا نیزوں پر ہی مشتمل رہی ہے – آگ اور نوکدار چھڑیاں ترقی کرتے کرتے آج کے پاور پلانٹ اور ایٹمی ہتھیار بن چکی ہیں لیکن سب سے زیادہ ترقی انسانی دماغ کے نعم البدل میں ہوئی ہے – 1960 سے کمپیوٹرز کی ٹیکنالوجی میں انتہائی تیز رفتاری سے ترقی ہو رہی ہے جس وجہ سے کمپیوٹرز کی جسامت تو کم سے کم ہوتی جا رہی ہے لیکن ان کی قوت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے – یہ عمل ہمیشہ کے لیے جاری نہیں ہر سکتا اور اپنی طبعی حدود تک پہنچنے والا ہے جس کے بعد کمپیوٹر چپس (chips) کی جسامت میں مزید کمی ممکن نہیں ہو گی – کمپیوٹر چپس کے ٹرانزسٹرز کی جسامت اب ایٹم کے سائز کے برابر پہنچنے والی ہے جس کے بعد ٹرانزسٹرس کو مزید چھوٹا کرنا ناممکن ہو جائے گا

ٹرانزسٹر کی یہ جسامت ایک مسئلہ کیوں بنتی جا رہی ہے یہ سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ بنیادی تصورات کو سمجھنا ہو گا – کمپیوٹرز کے بنیادی پرزے انتہائی سادہ ہوتے ہیں جو بہت سیدھے سادے کام کرتے ہیں – ان کاموں میں ڈیٹا کو ڈیجیٹل فارم میں رکھنا، اسے پراسیس کرنا اور اس پراسیسنگ کو کںٹرول کرنا شامل ہے – کمپیوٹر چپس میں چھوٹے چھوٹے سسٹم ہوتے ہیں جو ٹرانزسٹر سے بنے ہوئے لاجک گیٹس پر مشتمل ہوتے ہیں – ٹرانزسٹر کو ایک سادہ ترین ڈیٹا پروسیسر سمجھ لیجیے – بنیادی طور پر ٹرانزسٹر ایک سوئچ ہے جو انفارمیش کو یا تو روک لیتا ہے یا گذرنے دیتا ہے – یہ انفارمیشن bits پر مشتمل ہوتی ہے یہ بٹس یا صفر ہوتے ہیں یا ایک – ایک سے زیادہ بٹس کو ملا کر ذرا پیچیدہ انفارمیشن کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے – اسی طرح بہت سے بٹس کو ملا کر انتہائی پیچیدہ انفارمیشن کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے –

بہت سے ٹرانزسٹرز کو ملا کر لوجک گیٹس (logic gates) بنائے جا سکتے ہیں جو اگرچہ ایک ٹرانزسٹر سے زیادہ پیچیدہ ہیں لیکن پھر بھی یہ سیدھے سادے کام ہی کر سکتے ہیں – مثال کے طور پر ایک AND گیٹ کی آوٹ پٹ ایک ہوتی ہے اگر اس کی تمام ان پٹس بھی ایک ہوں – اگر ان پٹ میں ایک بھی صفر ہو تو اس کی آوٹ پٹ صفر ہوتی ہے – لاجک گیٹس کو آپس میں ملا کر مزید پیچیدہ ماڈیولز بنا سکتے ہیں جو مثال کے طور پر دو نمبرز کو جمع کر سکیں – اگر آپ لاجک گیٹس سے جمع کرنے کا سرکٹ بنا سکتے ہیں تو اسی طرح آپ نمبرز کو ضرب بھی دے سکتے ہیں – اور اگر آپ ضرب دے سکتے ہیں تو آپ ہر قسم کی کیلکولیشنز کر سکتے ہیں کیونکہ کمپیوٹر کے اندر تمام بنیادی آپریشنز پہلی جماعت کی ریاضی سے زیادہ آسان ہوتے ہیں – آپ اسے اس طرح سے بھی تصور کر سکتے ہیں کہ کمپیوٹر میں بہت سے سات سال کے بچے ریاضی کے بنیادی سوالات حل کر رہے ہیں – ایسے بہت سے بچے مل کر ایسٹرو فزکس کے بہت پیچیدہ سوالات بھی حل کر سکتے ہیں –

لیکن جیسے جیسے کمپیوٹر کے پرزے چھوٹے سے چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے کوانٹم ایفیکٹس کی وجہ سے یہ پرزے بنانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے –

مختصراً ٹرانزسٹر صرف ایک الیکٹرک سوئچ ہے – بجلی الیکٹرانز کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے – چنانچہ ٹرانزسٹر سے بنا ہوا سوئچ الیکٹرانز کو بہنے سے روک سکتا ہے یا انہیں بہنے دیتا ہے – آج کل ٹرانزسٹرز کا سائز 14 نینومیٹر ہے جو کہ HIV وائرس کے قطر سے آٹھ گنا کم ہے اور خون کے سرخ خلیے کے قطر سے 500 گنا کم ہے – ٹرانزسٹر کو موجودہ جسامت سے بھی کم کرنے کی کوشش میں ٹرانزسٹرز محض چند ایٹمز پر ہی مشتمل رہ جائیں گے – ایسی صورت میں الیکٹرانز کوانٹم ایفیکٹس کی وجہ سے بند سوئچ کو بھی آسانی سے پار کرنے لگیں گے – اس مظہر کو quantum tunneling کہا جاتا ہے – یاد رہے کوانٹم لیول پر فزکس کے اصول عام زندگی میں مشاہدہ کیے جانے والے اصولوں سے مختلف ہوتے ہیں – چنانچہ اتنے چھوٹے ٹرانزسٹرز سے بنے کمپیوٹرز کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں – گویا ہم ٹیکنالوجی کی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تک پہنچنے والے ہیں –

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سائنس دان کوانٹم ایفیکٹس کو رکاوٹ بنانے کے بجائے ان کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں استعمال کر کے کوانٹم کمپیوٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں – عام کمپیوٹرز میں bits انفارمیشن کا کم سے کم یونٹ ہوتے ہیں جبکہ کوانٹم کمپیوٹرز میں کیوبٹس (Qubits) استعمال ہوتے ہیں جو عام بٹس کی طرح ایک یا صفر ہو سکتے ہیں – کوئی بھی کوانٹم سسٹم جس کے دو لیول ہوں کیوبٹ کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے – مثال کے طور پر بنیادی ذرات کی سپن، ان کا مقناطیسی فیلڈ یا فوٹان کی افقی یا عمودی پولارائزیشن کو صفر یا ایک ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے – کوانٹم سسٹم میں ضروری نہیں کہ کوانٹم بٹ کی سٹیٹ ایک یا صفر ہی ہو – یہ ایک مجموعی سٹیٹ میں ہو سکتا ہے جو صفر اور ایک کی سٹیٹ کا مجموعہ ہو جس میں ایک اور صفر کسی خاص تناسب سے موجود ہوں – اس مظہر کو سپرپوزیشن کہا جاتا ہے – لیکن جونہی آپ اس فوٹان کی پوزیشن جانچنے کے لیے اسے کسی فلٹر سے گذاریں تو فوٹان کو صرف ایک ہی پولارائزیشن باقی رہ جاتی ہے – چنانچہ جب تک اس فوٹان کا مشاہدہ نہ کیا جائے یہ ایک اور صفر کی سٹیٹ کی سپرپوزیشن میں رہتا ہے اور آپ اس کی حتمی سٹیٹ کی پیش گوئی نہیں کر سکتے – لیکن جونہی آپ اس کی سٹیٹ کی پیمائش کریں تو اس کی سپرپوزیشن منہدم ہو جاتی ہے اور یہ دونوں میں سے ایک حتمی سٹیٹ اختیار کر لیتا ہے – سپرپوزیشن کا یہ مظہر کوانٹم کمپیوٹرز میں بہت مہارت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے – اگر ہم عام کمپیوٹرز کے چار بٹس کو اکٹھا دیکھیں تو ان کی کل ممکنہ سٹیٹس 2^4 یعنی 2X2X2X2 یا 16 ہوں گی – یہ چار بٹ ایک وقت میں ان 16 ممکنہ مجموعی سٹیٹس میں سے صرف ایک سٹیٹ ہی رکھ سکتے ہیں – اس کے برعکس چار کیوبٹس کے مجموعے میں یہ 16 کی 16 سٹیٹس بیک وقت سپرپوزیشن میں ہو سکتی ہیں – ہر اضافی کیوبٹ سے ممکنہ سٹیٹس کی سپرپوزیشن دگنا ہو جاتی ہے – چنانچہ بیس کیوبٹس کا مجوعہ دس لاکھ سٹیٹس کو بیک وقت سپرپوزیشن کی صورت میں رکھ سکتا ہے –

کیوبٹس کی ایک اور حیرت انگیز خصوصیت اینٹینگلمنٹ کا مظہر ہے – اس مظہر میں دو کیوبٹس ایک مجموعی سٹیٹ کے حامل ہوتے ہیں خواہ وہ ایک دوسرے سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہوں – اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دو اینٹینگلڈ کیوبٹس میں سے صرف ایک کی پیمائش کر کے بغیر دوسرے کیوبٹ کا مشاہدہ کیے اس دوسرے کی خصوصیات بھی معلوم کر سکتے ہیں خواہ دوسرا کیوبٹ آپ سے کتنا ہی دور ہو – اسی طرح کیوبٹ کا کنٹرول بھی کوانٹم فزکس کا ایک حیرت انگیز مظہر ہے – ایک عام لوجک گیٹ اپنی inputs کے حساب سے آؤٹ پٹ کا تعین کرتا ہے – اس کے برعکس ایک کوانٹم گیٹ کی ان پٹ کیوبٹس کی سپر پوزیشن کی صورت میں ہوتی ہے اور یہ گیٹ ان سٹیٹس کی probability کو تبدیل کر دیتا ہے – چنانچہ اس کی آؤٹ پٹ ایک نئی سپرپوزیشن ہوتی ہے – گویا ایک کوانٹم کمپیوٹر کچھ کیوبٹس کو تشکیل دیتا ہے، انہیں اینٹینگل کرنے کے لیے کوانٹم گیٹس استعمال کرتا ہے اور یوں آؤٹ پٹ کی سٹیٹس کی probabilities کو تبدیل کر دیتا ہے – اس کے بعد ان کی آؤٹ پٹ کی پیمائش کرتا ہے جس کی وجہ سے آؤٹ پٹ کی سپرپوزیشن ختم ہو جاتی ہے اور جواب ایک یا صفر کے ایک متواتر سلسلے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے – اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے سیٹ اپ میں تمام کی تمام ممکنہ کیلکولیشنز بیک وقت چل رہی ہوتی ہیں – ان تمام نتائج میں سے آپ ایک وقت میں صرف ایک نتیجے کی ہی پیمائش کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ کا سیٹ اپ درست ہے تو آپ کو غالباً وہی نتیجہ ملے گا جس نتیجے کی آپ کو تلاش تھی – آپ چاہیں تو یہ کیلکولیشن بار بار دہرا سکتے ہیں تاکہ آپ کو یہ اعتماد ہو کہ آپ درست جواب ہی حاصل کر رہے ہیں –

سپرپوزیشن اور اینٹینگلمنٹ کے مظاہر کے ماہرانہ استعمال سے ہم کوانٹم کمپیوٹرز کو عام کمپیوٹرز سے کئی گنا زیادہ تیز کیلکولیشنز کے لیے استعمال کر سکتے ہیں – اگرچہ کوانٹم کمپیوٹرز عام پرسنل کمپیوٹرز کا نعم البدل نہیں ہوں گے لیکن کچھ پرابلمز کو حل کرنے کے لیے کوانٹم کمپیوٹرز عام کمپیوٹرز کی نسبت کہیں زیادہ بہتر ہیں – ان میں سے ایک پرابلم ڈیٹابیس میں سرچ کرنا ہے – ایک عام کمپیوٹر کو ایک بڑے ڈیٹابیس میں سرچ کرنے کے لیے اس میں درج شدہ تمام معلومات کو انفرادی طور پر پرکھنا پڑتا ہے – کوانٹم کمپیوٹرز یہی کام بہت کم وقت میں کر سکتے ہیں – یہ فرق بہت بڑے ڈیٹا بیسز میں سرچ کرنے کے لیے زمین اسماں کے فرق کے برابر ہو جاتا ہے – لیکن کوانٹم کمپیوٹرز کا سب سے زیادہ استعمال آئی ٹی سیکیوریٹی میں ہوتا ہے – آج کل آپ کے براؤزر، ای میل اور بینک کا ڈیٹا اینکریپشن کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے جس میں آپ ہر ایک کو ایک پبلک کی (public key) دیتے ہیں جس سے وہ اپنے پیغامات کو اینکوڈ کرتے ہیں لیکن ان کو ڈی کوڈ صرف آپ اپنی پرائیویٹ کی کو استعمال کر کے ہی کر سکتے ہیں – مسئلہ یہ ہے کہ اصولاً اس 'پبلک کی' سے آپ کی 'پرائیویٹ کی' بھی کیلکولیٹ کی جا سکتی ہے – اگرچہ ایسا کرنا ناممکن نہیں لیکن بے انتہا مشکل ضرور ہے – ایک عام کمپیوٹر پر آپ کی پرائیویٹ کی کو کیلکولیٹ کرنے کے لیے سالوں کی کیلکولیشنز درکار ہوں گی – لیکن کوانٹم کمپیوٹرز یہ کام منٹوں میں کر سکتے ہیں – اس کے ساتھ ساتھ کوانٹم کمپیوٹرز اینٹینگلمنٹ کی وجہ سے ایسی اینکرپشن کر سکتے ہیں جسے توڑنا ناممکن ہے

کوانٹم کمپیوٹرز کا ایک اور استعمال سیمولیشن میں ہے – کوانٹم مظاہر کی کیلکولیشنز بے انتہا مشکل ہیں اور عام کمپیوٹر پر انہیں حل کرنا بہت صبر طلب کام ہے – اگر بڑے سٹرکچرز مثلاً پیچیدہ مالیکیولز کے لیے یہ کیلکولیشنز کرنا ہوں تو درست یعنی accurate جواب ملنا مشکل ہوتا ہے – اس کا ایک علاج یہ ہے کہ کوانٹم مظاہر کو کوانٹم کمپیوٹرز پر ہی سیمولیٹ کیا جائے – اس طرح کی سیمولیشنز ہمیں پروٹینز کی فولڈنگ کے بارے میں نئی معلومات فراہم کر سکتی ہیں جس سے نئی دواؤں کو ڈیزائن کرنے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی – فی الحال ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ کوانٹم کمپیوٹرز صرف چند مخصوص پرابلمز کے لیے استعمال ہوں گے یا یہ تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک انقلابی قدم ثابت ہوں گے – ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی کیا حدود یعنی limitations ہیں - البتہ یہ دریافت کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہم یہ کمپیوٹرز زیادہ سے زیادہ استعمال کریں

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔