ہفتہ، 21 اکتوبر، 2017


ایچ جی ویلز کا ١٨٩٧ء کا کلاسک ناول، غیر مرئی آدمی ، ایک عجیب کہانی سے شروع ہوتا ہے۔ ایک سرد خنک دن میں، ایک اجنبی تاریکی میں سے عجیب لباس پہنے نکلتا ہے۔ اس کا چہرہ مکمل طور پر ڈھکا ہوا ہوتا ہے، وہ گہرے نیلے رنگ کا چشمہ لگایا ہوا ہوتا ہے اور اس کے پورے چہرے پر سفید پٹیاں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔
شروع میں دیہاتی اس پر رحم کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شاید وہ کسی خوفناک حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔ لیکن گاؤں میں کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ ایک دن اس کی مالکن جب اپنے خالی کمرے میں داخل ہوتی ہے تو وہ دیکھتی ہے کہ کپڑے کمرے میں خود سے حرکت کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر اس کی چیخ نکل جاتی ہے۔ ٹوپیاں کمرے میں چکر کھا رہی تھیں ، چادریں ایک دوسرے پر چڑھی جا رہی تھیں، کرسیاں حرکت کر رہی تھیں، اور فرنیچر پاگل ہو گیا تھا ، وہ خوف سے بیان کرتی ہے۔
جلد ہی تمام گاؤں میں کچھ غیر معمولی واقعات کی افواہوں کی بازگشت سنائی دینے لگتی ہے۔ بالآخر دیہاتیوں کا ایک گروہ جمع ہوتا ہے اور اس اجنبی سے ان عجیب و غریب واقعات کا ذکر کرتا ہے۔ وہ حیرت سے اس وقت گنگ ہو جاتے ہیں جب وہ آہستگی کے ساتھ اپنی پٹیاں اتارتا ہے۔ مجمع دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔ پٹی کے بغیر اجنبی کا چہرہ مکمل طور پر غائب ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر لوگ چیختے اور چلاتے ہیں اور اس وقت افراتفری پھیل جاتی ہے۔ دیہاتی غیر مرئی آدمی کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کو آسانی کے ساتھ شکست دے دیتا ہے۔
کچھ چھوٹے جرائم کرنے کے بعد، غیر مرئی آدمی اپنے ایک پرانے شناسا سے ملتا ہے اور اپنی غیر معمولی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس کا اصل نام گریفن ہوتا ہے جو یونیورسٹی کا طالبعلم ہوتا ہے۔ اگرچہ تعلیم کی شروعات وہ طب کی تعلیم سے کرتا ہے تاہم اتفاق سے اس کا سامنا ایک ایسے انقلابی طرز عمل سے ہوتا ہے جو انسانی جسم کی منعطف اور منعکس کرنے کے خواص کو بدل سکتا ہے۔ اس کا راز ایک چوتھی جہت تھی۔ وہ خوشی کی حالت میں ڈاکٹر کیمپ کے پاس پہنچتا ہے اور اس سے کہتا ہے، "میں نے ایک عمومی اصول دریافت کر لیا ہے۔۔۔ ایک ایسا کلیہ، ایک ایسی جیومیٹریکل ترکیب جس میں چوتھی جہت ملوث ہے۔"
تاہم صد افسوس کہ بجائے اس عظیم دریافت کا استعمال انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کرتا وہ اسے ذاتی فوائد اور مالی منفعت کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس کام میں وہ اپنے دوست کو شریک کرتا ہے۔ اس کے دعوے کے مطابق وہ دونوں مل کر دنیا کو لوٹ سکتے ہیں۔ لیکن اس کا دوست خوف زدہ ہو جاتا ہے اور گریفن کی موجودگی کی اطلاع پولیس کو دے دیتا ہے۔ نتیجتاً ایک آخری معرکہ میں غیر مرئی آدمی جان لیوا حد تک زخمی ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ ہر بہترین سائنسی ناول کے ساتھ ہوتا ہے اس ناول میں بھی ایچ جی ویلز کے دوسرے ناولوں کی طرح سائنس کا تڑکا لگا ہوا تھا۔ جو کوئی چوتھی مکانی جہت کو انضباط کرنے کے قابل ہوگا ( یا آج جس کو ہم پانچویں جہت کے نام سے جانتے ہیں) اصل میں وہ غیر مرئی بن جائے گا اور اس کے پاس وہ طاقت آ جائے گی جسے ہم دیوتاؤں اور جنات سے منسوب کرتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ دیومالائی ہستیوں کی دوڑ میز کے اوپری حصّے کو دو جہتوں میں آباد کر دیتی ہے، جیسا کہ ایڈون ایبٹ کے ١٨٨٤ء کے ناول "چپٹی زمین" میں ہوا تھا۔ وہ اپنی جہاں میں اس بات سے بے خبر مگن تھے کہ ان کے گرد ایک تیسری جہت میں پوری کائنات موجود ہے۔
لیکن اگر چپٹی زمین کے سائنس دان کسی تجربے میں ان کو میز سے ایک انچ اوپر اٹھا دیتے تو وہ غیر مرئی ہو جاتے کیونکہ روشنی ان کے نیچے سے اس طرح سے گزر جاتی جیسا کہ ان کا وجود ہی نہیں ہے۔ چپٹی زمین سے اوپر اٹھ کر وہ میز کی سطح پر کئی چیزوں کو دیکھ سکتے تھے۔ اضافی خلاء میں معلق رہنے کا زبردست فائدہ ہوتا ہے ، جو کوئی بھی اضافی خلاء سے نیچے دیکھے گا اس کے پاس دیوتاؤں والی قوّت ہوگی۔
مکمل پوسٹ یہاں ملاحظہ کیجئے:
http://www.jahanescience.com/…/Parallel.Worlds.Chapter.7.1.…
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #میچیو_کاکو #متوازی_دنیائیں #متوازی_کائناتیں #طبیعیات #فلکیات
#jahanescience

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔