ارتقاء کیا ہے:
کسی بھی شے کی اصل کا تبدیل ہو جانا ارتقاء کہلاتا ہے۔ہمارے کچھ حضرات ان اغلاط میں ہیں کہ تغیر محض سطحی طرح کا ہی ممکن ہے اور اصل سے تبدیل ہونا ارتقاء ہے نہ کہ اصل کا تبدیل ہونا لحاظہ ارتقاء والا سائنسی معاملہ غلط ثابت ہوا۔ بظاہر ایسا نہیں ہے۔ ڈی این اے بھی تغیر پذیر ہوتا ہے جسکی بہترین مثالیں بیکٹیریا میں دیکھی جا سکتی ہیں کہ جب اس پر ماحولیاتی تبد یلی کا اثر برداشت نہیں ہوتا تو اسکی اصل یعنی ڈی این اے میں بدلاؤ ہونے لگتا ہے اور وہ موزوں دفائی ترکیب جسم میں بنا لیتا ہے جسکو ہم سائنس میں جینیاتی ری کمبینیشن کہتے ہیں۔ کچھ مر بھی جاتے ہیں مگر جو بچتے ہیں وہ اسی اصل میں بدلاؤ کے تحت بچتے ہیں اور یہ بدلاؤ چھوٹے لیول پر جینیاتی ہوتا ہے نہ کہ محض خون کی کمی کی وجہ سے تلی کا بڑھ جانا اور کمی کے پورا ہونا پر دوبارہ گھٹ جانا جیسا۔
مرنے والے چھوٹے جاندار اس ارتقائی مقابلے میں کمزور کنٹسٹنٹ ہونے کی بنا پر معدوم ہوجاتے ہیں، یا پھر بہت کم عرصے تک آگے بڑھ پاتے ہیں بہ نسبت بدلاؤ والوں کے۔ اسکی ایک مثال انسانی افزائش نسل کے عمل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب ایک رینڈم سپرم ایک ایگ سے ملتا ہے تو ایگ میں سے ایک روشنی نکلتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ سپرم ایگ کا ملاپ کس قدرفعال ہوا ہے اور آیا کہ پیدا ہونے والا کس قدر تندرست ہوگا جینے کے معاملے میں اور کم روشنی والے ملاپ وہ ہیں جس سے لاغر پیدا ہوتے ہیں اور جلد مر جاتے ہیں۔
یہ بہت گہری وضاحت تو نہیں ہے مگر اسکو ایک اور مثال سے تقویت دی جا سکتی ہے۔ مثلا یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ ایک لوہار کے گھر میں پیدہ ہونے والا بچہ جسمانی طور پر دوسرے بچوں سے محنت کرنے کے معاملہ میں زیادہ بہتر ہوتا ہے، ہاتھ مضبوط جیسے باپ سے جینیاتی تسلسل میں ملے اور باقی جسمانی ہیئت بھی بہتر۔ وہ بغیر سیکھائے لوہے کو بہتر استعمال کر سکتا ہے بہ نسبت کسی دوسرے بچے سے جو لوہار کا نہیں۔ اگر اسی تبدیلی کو کچھ ہزاروں یا لاکھوں سالوں تک دہرایا جایا تو اسکو اصل میں تبدیلی کی صورت میں بھی دیکھا جا سکے گا۔
اب اس بات کی تقویت کے لئے ایک اور مثال دیتا ہوں تا کہ کمی نہ رہ جائے اسکو سمجھنے میں۔ جاپان کے ساحل پر کیکڑے انگلش میں کریب کی ایک قسم سمورائی کیکڑا پائی جاتی ہے۔ جس کی تصویر نیچے ملاحظہ کریں۔ اسکی سطح پر ایک سمورائی سپائی کی شکل بنی ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں جاپانی مچھیرے اپنے ہائیک سپاہیوں کے احترام میں سمندری کیکڑوں پر انکی شکل تراش کر واپس سمندر میں پھینک دیا کرتے تھے اور یہ عمل کافی عرصہ تک دہرایا جاتا رہا کسی دور میں۔ نتیجہ یہ رہا کہ انکی اصل نے یہ تبدیلی جذب کر لی اور وہاں ساحل پر پیدہ ہونے والا ہر کیکڑا اسی شکل میں بننا شروع ہو گیا۔
آپ اگر انکی ایک ٹانگ کاٹ کر یہ عمل دہرائیں تو بہت امکان ہے کہ یہ ایک ٹانگ کے بغیر اپنے افزائیش شروع کر دیں۔ لیکن اس عمل میں ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اگر ایک عمل کسی قدرتی یا مصنوئی طریقہ سے بار بار دہرایا جائے تو وہ اپنی اصل میں بدلاو کر لیتا ہے اور اس چیز میں اور نکھار بھر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک اندھے کی سننے کی حس ایک دیکھنے والے سے کہیں زیادہ بہتر ہوتی ہے کیونکہ ایک آرگن کی کمی دوسرے میں زیادتی کر دیتی ہے۔ ارتقاء کے اس عمل کی کچھ مثالیں انسانی جسم میں اظہر من الشمس موجود ہیں۔
بدلاو خدا کا قانون ہے، جاندار کا بدلاو، سورج زمین سیاروں وغیرہ کے ارتقاء جیسا نہیں ہے مگر وجود ممکن ہی اسی اصل میں اور اصل کے بدلاؤ کے تحت ہے۔
کسی بھی شے کی اصل کا تبدیل ہو جانا ارتقاء کہلاتا ہے۔ہمارے کچھ حضرات ان اغلاط میں ہیں کہ تغیر محض سطحی طرح کا ہی ممکن ہے اور اصل سے تبدیل ہونا ارتقاء ہے نہ کہ اصل کا تبدیل ہونا لحاظہ ارتقاء والا سائنسی معاملہ غلط ثابت ہوا۔ بظاہر ایسا نہیں ہے۔ ڈی این اے بھی تغیر پذیر ہوتا ہے جسکی بہترین مثالیں بیکٹیریا میں دیکھی جا سکتی ہیں کہ جب اس پر ماحولیاتی تبد یلی کا اثر برداشت نہیں ہوتا تو اسکی اصل یعنی ڈی این اے میں بدلاؤ ہونے لگتا ہے اور وہ موزوں دفائی ترکیب جسم میں بنا لیتا ہے جسکو ہم سائنس میں جینیاتی ری کمبینیشن کہتے ہیں۔ کچھ مر بھی جاتے ہیں مگر جو بچتے ہیں وہ اسی اصل میں بدلاؤ کے تحت بچتے ہیں اور یہ بدلاؤ چھوٹے لیول پر جینیاتی ہوتا ہے نہ کہ محض خون کی کمی کی وجہ سے تلی کا بڑھ جانا اور کمی کے پورا ہونا پر دوبارہ گھٹ جانا جیسا۔
مرنے والے چھوٹے جاندار اس ارتقائی مقابلے میں کمزور کنٹسٹنٹ ہونے کی بنا پر معدوم ہوجاتے ہیں، یا پھر بہت کم عرصے تک آگے بڑھ پاتے ہیں بہ نسبت بدلاؤ والوں کے۔ اسکی ایک مثال انسانی افزائش نسل کے عمل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب ایک رینڈم سپرم ایک ایگ سے ملتا ہے تو ایگ میں سے ایک روشنی نکلتی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ سپرم ایگ کا ملاپ کس قدرفعال ہوا ہے اور آیا کہ پیدا ہونے والا کس قدر تندرست ہوگا جینے کے معاملے میں اور کم روشنی والے ملاپ وہ ہیں جس سے لاغر پیدا ہوتے ہیں اور جلد مر جاتے ہیں۔
یہ بہت گہری وضاحت تو نہیں ہے مگر اسکو ایک اور مثال سے تقویت دی جا سکتی ہے۔ مثلا یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ ایک لوہار کے گھر میں پیدہ ہونے والا بچہ جسمانی طور پر دوسرے بچوں سے محنت کرنے کے معاملہ میں زیادہ بہتر ہوتا ہے، ہاتھ مضبوط جیسے باپ سے جینیاتی تسلسل میں ملے اور باقی جسمانی ہیئت بھی بہتر۔ وہ بغیر سیکھائے لوہے کو بہتر استعمال کر سکتا ہے بہ نسبت کسی دوسرے بچے سے جو لوہار کا نہیں۔ اگر اسی تبدیلی کو کچھ ہزاروں یا لاکھوں سالوں تک دہرایا جایا تو اسکو اصل میں تبدیلی کی صورت میں بھی دیکھا جا سکے گا۔
اب اس بات کی تقویت کے لئے ایک اور مثال دیتا ہوں تا کہ کمی نہ رہ جائے اسکو سمجھنے میں۔ جاپان کے ساحل پر کیکڑے انگلش میں کریب کی ایک قسم سمورائی کیکڑا پائی جاتی ہے۔ جس کی تصویر نیچے ملاحظہ کریں۔ اسکی سطح پر ایک سمورائی سپائی کی شکل بنی ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں جاپانی مچھیرے اپنے ہائیک سپاہیوں کے احترام میں سمندری کیکڑوں پر انکی شکل تراش کر واپس سمندر میں پھینک دیا کرتے تھے اور یہ عمل کافی عرصہ تک دہرایا جاتا رہا کسی دور میں۔ نتیجہ یہ رہا کہ انکی اصل نے یہ تبدیلی جذب کر لی اور وہاں ساحل پر پیدہ ہونے والا ہر کیکڑا اسی شکل میں بننا شروع ہو گیا۔
آپ اگر انکی ایک ٹانگ کاٹ کر یہ عمل دہرائیں تو بہت امکان ہے کہ یہ ایک ٹانگ کے بغیر اپنے افزائیش شروع کر دیں۔ لیکن اس عمل میں ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اگر ایک عمل کسی قدرتی یا مصنوئی طریقہ سے بار بار دہرایا جائے تو وہ اپنی اصل میں بدلاو کر لیتا ہے اور اس چیز میں اور نکھار بھر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک اندھے کی سننے کی حس ایک دیکھنے والے سے کہیں زیادہ بہتر ہوتی ہے کیونکہ ایک آرگن کی کمی دوسرے میں زیادتی کر دیتی ہے۔ ارتقاء کے اس عمل کی کچھ مثالیں انسانی جسم میں اظہر من الشمس موجود ہیں۔
بدلاو خدا کا قانون ہے، جاندار کا بدلاو، سورج زمین سیاروں وغیرہ کے ارتقاء جیسا نہیں ہے مگر وجود ممکن ہی اسی اصل میں اور اصل کے بدلاؤ کے تحت ہے۔

0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔