مصنوعی ذہانت
5. انسانی دماغ اور کمپیوٹر کا جوڑ
آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے ایک ایسا الیکٹرانک
سیل ایجاد کرلیا ہے جو انسانی یاداشت کے پراسیس کی ہُو بہُو نقل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیکرونینو ریسرچ فیسلٹی (ایم این آر ایف) کے ریسرچرز نے دنیا کا پہلا الیکٹرانک سیل ایجاد کرلیا ہے جو ملٹی سٹیٹ میموری سیل ہے اور جو انسانی دماغ کے پراسیس کو ایک عکس کی طرح سے ساتھ کے ساتھ نہ صرف نقل کرسکتاہے بلکہ معلومات کو محفوظ اور استمعال بھی کرسکتاہے۔
یہ ایجاد، سائنسدانوں کا انسانی دماغ کی ہُو بہُو الیکٹرانک نقل بنانے کی صلاحیت کی طرف پہلا ٹھوس قدم ہے۔ اور یوں یہ بائیونِک برین کی ایجاد کی طرف ایک زبردست پیش رفت ہے۔
یہ تحقیق حال ہی میں ایک سائنسی جریدے ''ایڈوانسڈ فنکشنل میٹریلز'' میں شائع ہوئی۔ پراجیکٹ لیڈر ڈاکٹر ''شرتھ شرمن'' نے پریس کو بتایا،
''اب ہم لانگ ٹرم انسانی یاداشت کی طرز پر اپنے مصنوعی برین سیل سے کام لے سکتے ہیں۔ یہ انسانی دماغ جیسا سسٹم بنانے کی قریب ترین اور کامیاب ترین کوشش ہے۔ یہ سسٹم سیکھنے کا عمل بھی ویسے ہی کرتاہے جیسا کہ انسانی برین۔ یہ یاداشت کو محفوظ کرنے اور بوقت ضرورت استعمال کرنے میں بھی اتنا ہی فعّال ہے جتنا کہ انسانی دماغ''
انسانی دماغ بہت پیچیدہ ہے اور آج تک انسانی دماغ کی نقل بنانا ایک ایسا سوال رہا ہے جس کا جواب ناممکن کے قریب تھا کیونکہ انسانی دماغ کا ارتقأ اپنے سابقہ تجربات اور ذخیرہ شدہ معلومات کی بنا پر ہوا ہے اور ہوتاہے۔ ڈاکٹر شرتھ شرمن نے کہا کہ ہماری یہ کوشش عظیم انسانی دماغ کو ''ری پرڈیوس'' کرنے کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔
یہ تحقیق ''آر ایم آئی ٹی'' کی سابقہ تحقیقات جن میں 'الٹرا فاسٹ نینو سکیل میموری' شامل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے سامنے آئی ہے۔الٹرا فاسٹ نینو سکیل میموری سیل بنانے کے لیے فنکشنل آکسائیڈ میٹریل استعمال کیا گیا ہے جو ایک انسانی بال سے دس ہزار گنا باریک فلم کی شکل میں ہے۔
ایک اور ڈائریکٹر ڈاکٹر حسین نِلی نے کہا ہے کہ یہ نئی دریافت بہت اہم ہے کیونکہ یہ ملٹی سٹیٹس سیلز کے ذریعے یاداشتوں کو جمع کرنے کا عمل بالکل اسی طرح سے کرتی ہے جس طرح سے انسانی دماغ کرتاہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا،
''آپ ایک قدیم کیمرے کو ذہن میں لائیں۔ وہ کیمرہ جو صرف دو رنگوں کی تصویر بناتا تھا۔ بلیک اینڈ وائٹ۔ قبل ازیں ہونے والی ایجادات میں ہم اُسی قدیم کیمرے کی طرح تھے لیکن اب ہم یاداشتوں کو محفوظ کرنے کے لیے رنگین کیمرے کی طرح کام کرسکتے ہیں۔ اب ہم یاداشتوں کو شیڈز ، رنگ، روشنی اور سایوں سمیت محفوظ کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر شرمن نے کہا،
''اس تحقیق میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس الیکٹرانک سیل کے ذریعے گزری ہوئی یادوں کی بنا پر آئندہ کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا جیسا کہ انسانی دماغ خودکار طریقے سے کرتاہے، ممکن ہوگیاہے۔ نینوسکیل میموری سیلز دراصل پراسیسرز ہیں جو پیچیدہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشیل انٹیلیجنس) کے اجزأ کو محفوظ رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں کیونکہ آخرالامر ایک مکمل بائیونک برین بنانا مقصود ہے''۔
ڈاکٹر حسین نے کہا،
''اس تحقیق نے بے شمار پریکٹکل ایپلیکینشز کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اب سائنسدانوں کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ مکمل انسانی دماغ بنالیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسا مکمل انسانی دماغ انسانی جسم سے باہر ہوگا۔ آؤٹ آف ہیومین باڈی۔''
ڈاکٹر حسین نِلی نے کہا کہ انسانی جسم سے باہر انسانی دماغ کے بعد وہ اخلاقی مسائل کم ہوجائینگے جو انسانی دماغ پر تحقیق کے راستے میں اب تک رکاوٹ بنے رہے۔
اس تحقیق میں آسٹریلین کونسل کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سانتا باربارا(University of California Santa Barbara) نے بھی حصہ لیا.
ادریس آزاد
5. انسانی دماغ اور کمپیوٹر کا جوڑ
آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے ایک ایسا الیکٹرانک
سیل ایجاد کرلیا ہے جو انسانی یاداشت کے پراسیس کی ہُو بہُو نقل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیکرونینو ریسرچ فیسلٹی (ایم این آر ایف) کے ریسرچرز نے دنیا کا پہلا الیکٹرانک سیل ایجاد کرلیا ہے جو ملٹی سٹیٹ میموری سیل ہے اور جو انسانی دماغ کے پراسیس کو ایک عکس کی طرح سے ساتھ کے ساتھ نہ صرف نقل کرسکتاہے بلکہ معلومات کو محفوظ اور استمعال بھی کرسکتاہے۔
یہ ایجاد، سائنسدانوں کا انسانی دماغ کی ہُو بہُو الیکٹرانک نقل بنانے کی صلاحیت کی طرف پہلا ٹھوس قدم ہے۔ اور یوں یہ بائیونِک برین کی ایجاد کی طرف ایک زبردست پیش رفت ہے۔
یہ تحقیق حال ہی میں ایک سائنسی جریدے ''ایڈوانسڈ فنکشنل میٹریلز'' میں شائع ہوئی۔ پراجیکٹ لیڈر ڈاکٹر ''شرتھ شرمن'' نے پریس کو بتایا،
''اب ہم لانگ ٹرم انسانی یاداشت کی طرز پر اپنے مصنوعی برین سیل سے کام لے سکتے ہیں۔ یہ انسانی دماغ جیسا سسٹم بنانے کی قریب ترین اور کامیاب ترین کوشش ہے۔ یہ سسٹم سیکھنے کا عمل بھی ویسے ہی کرتاہے جیسا کہ انسانی برین۔ یہ یاداشت کو محفوظ کرنے اور بوقت ضرورت استعمال کرنے میں بھی اتنا ہی فعّال ہے جتنا کہ انسانی دماغ''
انسانی دماغ بہت پیچیدہ ہے اور آج تک انسانی دماغ کی نقل بنانا ایک ایسا سوال رہا ہے جس کا جواب ناممکن کے قریب تھا کیونکہ انسانی دماغ کا ارتقأ اپنے سابقہ تجربات اور ذخیرہ شدہ معلومات کی بنا پر ہوا ہے اور ہوتاہے۔ ڈاکٹر شرتھ شرمن نے کہا کہ ہماری یہ کوشش عظیم انسانی دماغ کو ''ری پرڈیوس'' کرنے کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔
یہ تحقیق ''آر ایم آئی ٹی'' کی سابقہ تحقیقات جن میں 'الٹرا فاسٹ نینو سکیل میموری' شامل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے سامنے آئی ہے۔الٹرا فاسٹ نینو سکیل میموری سیل بنانے کے لیے فنکشنل آکسائیڈ میٹریل استعمال کیا گیا ہے جو ایک انسانی بال سے دس ہزار گنا باریک فلم کی شکل میں ہے۔
ایک اور ڈائریکٹر ڈاکٹر حسین نِلی نے کہا ہے کہ یہ نئی دریافت بہت اہم ہے کیونکہ یہ ملٹی سٹیٹس سیلز کے ذریعے یاداشتوں کو جمع کرنے کا عمل بالکل اسی طرح سے کرتی ہے جس طرح سے انسانی دماغ کرتاہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا،
''آپ ایک قدیم کیمرے کو ذہن میں لائیں۔ وہ کیمرہ جو صرف دو رنگوں کی تصویر بناتا تھا۔ بلیک اینڈ وائٹ۔ قبل ازیں ہونے والی ایجادات میں ہم اُسی قدیم کیمرے کی طرح تھے لیکن اب ہم یاداشتوں کو محفوظ کرنے کے لیے رنگین کیمرے کی طرح کام کرسکتے ہیں۔ اب ہم یاداشتوں کو شیڈز ، رنگ، روشنی اور سایوں سمیت محفوظ کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر شرمن نے کہا،
''اس تحقیق میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس الیکٹرانک سیل کے ذریعے گزری ہوئی یادوں کی بنا پر آئندہ کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا جیسا کہ انسانی دماغ خودکار طریقے سے کرتاہے، ممکن ہوگیاہے۔ نینوسکیل میموری سیلز دراصل پراسیسرز ہیں جو پیچیدہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشیل انٹیلیجنس) کے اجزأ کو محفوظ رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں کیونکہ آخرالامر ایک مکمل بائیونک برین بنانا مقصود ہے''۔
ڈاکٹر حسین نے کہا،
''اس تحقیق نے بے شمار پریکٹکل ایپلیکینشز کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اب سائنسدانوں کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ مکمل انسانی دماغ بنالیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسا مکمل انسانی دماغ انسانی جسم سے باہر ہوگا۔ آؤٹ آف ہیومین باڈی۔''
ڈاکٹر حسین نِلی نے کہا کہ انسانی جسم سے باہر انسانی دماغ کے بعد وہ اخلاقی مسائل کم ہوجائینگے جو انسانی دماغ پر تحقیق کے راستے میں اب تک رکاوٹ بنے رہے۔
اس تحقیق میں آسٹریلین کونسل کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سانتا باربارا(University of California Santa Barbara) نے بھی حصہ لیا.
ادریس آزاد
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔