انسان کو آخر پیار کیوں ہوتا ھے؟
جانئے سائنس کی اس رپوٹ میں۔۔۔۔
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) 'محبت میں گرفتار ہونا' انسانی زندگی کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہے جس کی وجہ آج تک کوئی نہ جان سکا تھا تاہم اب سائنسدانوں نے جدید تحقیق میں اس کا انتہائی حیران کن جواب دے دیا ہے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ "انسانوں کو پیار ہونے کی بنیادی وجہ ان کے ارتقاءمیں پوشیدہ ہے۔ انسان میں محبت کے جذبات ارتقائی عمل سے گزر کر پیدا ہوئے اور اس کی وجہ اولاد اور خاندان کی خواہش تھی۔ جب انسان میں یہ جذبات پیدا ہوئے تو اس نے اپنے بچوں کو قتل کرنا ترک کر دیا۔ چنانچہ محبت کی بنیادی وجہ 'تولیدی کامیابی' کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
پولینڈ کی یونیورسٹی آف راک لا کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں تنزانیہ کے ہیڈزا(Hadza)نسل کے لوگوں پر تجربات کیے جو آج کی جدید مانع حمل ادویات استعمال نہیں کرتے۔ ان کا ازدواجی تعلق بہت پرجوش ہوتا ہے اور وہ بہت کثیرالاولاد ہوتے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے رکن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر روبن ڈونبر کا کہنا تھا کہ "جانوروں کی ان انواع میں بچوں کے محفوظ رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جن میں نر اور مادہ کا باہمی تعلق مضبوط ہو۔ اس جذبے کے نتیجے میں انسان یک زوجیت کی طرف مائل ہوا تاکہ اس کے بچے محفوظ رہیں۔ اس سے انسان کے دماغ میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جس نے نر اور مادہ کو باہمی تعلق یا رشتہ مضبوط کرنے پر اکسایا اور ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہونے پر مجبور کیا۔انسان نے ارتقائی عمل میں اپنے اندر یہ تبدیلی اپنی ابتدائی شکل میں ہی پیدا کر لی تھی۔"
جانئے سائنس کی اس رپوٹ میں۔۔۔۔
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) 'محبت میں گرفتار ہونا' انسانی زندگی کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہے جس کی وجہ آج تک کوئی نہ جان سکا تھا تاہم اب سائنسدانوں نے جدید تحقیق میں اس کا انتہائی حیران کن جواب دے دیا ہے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ "انسانوں کو پیار ہونے کی بنیادی وجہ ان کے ارتقاءمیں پوشیدہ ہے۔ انسان میں محبت کے جذبات ارتقائی عمل سے گزر کر پیدا ہوئے اور اس کی وجہ اولاد اور خاندان کی خواہش تھی۔ جب انسان میں یہ جذبات پیدا ہوئے تو اس نے اپنے بچوں کو قتل کرنا ترک کر دیا۔ چنانچہ محبت کی بنیادی وجہ 'تولیدی کامیابی' کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
پولینڈ کی یونیورسٹی آف راک لا کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں تنزانیہ کے ہیڈزا(Hadza)نسل کے لوگوں پر تجربات کیے جو آج کی جدید مانع حمل ادویات استعمال نہیں کرتے۔ ان کا ازدواجی تعلق بہت پرجوش ہوتا ہے اور وہ بہت کثیرالاولاد ہوتے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے رکن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر روبن ڈونبر کا کہنا تھا کہ "جانوروں کی ان انواع میں بچوں کے محفوظ رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جن میں نر اور مادہ کا باہمی تعلق مضبوط ہو۔ اس جذبے کے نتیجے میں انسان یک زوجیت کی طرف مائل ہوا تاکہ اس کے بچے محفوظ رہیں۔ اس سے انسان کے دماغ میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جس نے نر اور مادہ کو باہمی تعلق یا رشتہ مضبوط کرنے پر اکسایا اور ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہونے پر مجبور کیا۔انسان نے ارتقائی عمل میں اپنے اندر یہ تبدیلی اپنی ابتدائی شکل میں ہی پیدا کر لی تھی۔"
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔