ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

سٹرنگ تھیوری کو سمجھنے کی کوشش (چوتھا حصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوانٹم فزکس کی آمد نے فزکس کو دو بڑے اور باہم متخالف دھڑوں میں تقسیم کردیا تھا۔ یہ فزکس میں ’’فرقہ پرستی‘‘ کے عروج کا دور ہے۔یہ خلیج وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جارہی تھی۔ ڈنمارک میں نیلز بوہر (Niels Bohr) جیسا عظیم سائنسدان ایٹم کے بنیادی ذرّات کے کردار سے ایسے ایسے نتائج اخذ کررہا تھا جو نہ صرف آئن سٹائن بلکہ سائنس کی ہرشاخ کے لیے بے پناہ مایوس کُن تھے۔’’کوپن ہیگن تشریحات‘‘ کو غیر معمولی شہرت مل رہی تھی۔
ایٹم کے مزید چھوٹے ذرات کو ’’غیریقنیت‘‘ کے تحت، فزکس کے قوانین سے ماورا قراردیاجاچکاتھا۔ ایٹم کے اندرمادی ذرات نامی کوئی چیز نہیں۔ ایٹم کے اندر کیا ہے؟ کوئی نہیں بتاسکتا؟ اگر فرض کرلیا جائے کہ ایٹم کے اندر مزید باریک چھوٹے ذرات ہیں، مثلاً الیکٹران، پروٹان، نیوٹران یا کچھ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا کبھی کوئی ہمیں یہ ذرّات دکھاسکتاہے؟ وہ کیسے دکھائے گا؟ ذرّہ تو مادی ذرّے کی طرح کی چیز ہونی چاہیے۔ کوئی کہہ سکے،
’’یہ دیکھو! یہ ذرّہ ہے۔ اسے ذرّہ کہتے ہیں‘‘
یہ اعتراض محض آلات کی کمزوری کی وجہ سے وارد نہیں ہوا تھا۔ یہ اعتراض انٹینگلمنٹ کی وجہ سے وارد ہوا تھا۔ ’’ویو فنکشن‘‘ کی دریافت ہوچکی تھی۔ کوئی نہیں بتاسکتا تھا کہ الیکٹران کہاں واقع ہے؟ الیکٹران ویو فنکشن تھا۔ ایک موج تھا۔ ایک ایسی موج جس کا مشاہدہ کرنے لگو توصرف ہمارے لیے اور صرف اور صرف ہمارے لیے، مشہود ہوجائے۔ یعنی کوئی دیکھنے والا، یا کوئی ناظرآلہ، یا کوئی پیمائشی آلہ، یا کوئی بھی جو اُس ویو فنکشن کو چھیڑ دے۔ اس کے لیے وہ موج ، فوری طور پر موج کی بجائے ایک ذرّہ بن کر کسی ایک مقام پر ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر کوئی دیکھنے والا نہ دیکھے تو ہرجگہ ہے، ہرکہیں ہے، ہر وقت ہے۔
کوانٹم نے اس عجیب و غریب سائنسی حقیقت کو ’’سپر پوزیشن ‘‘ کا لقب دیا۔ یہی وہ دور ہے جب ہائزن برگ کا ’’غیریقینیت‘‘ کا قانون آیا۔ جب شروڈنگر کا بلی والا تھاٹ ایکسپری منٹ آیا جس کے مطابق دنیائیں ایک سے زیادہ ہیں۔ ایک دنیا جس میں بلی مرگئی اور ایک دنیا جس میں بلی زندہ ہے۔ ہم جس دنیا میں ہونگے ہمیں وہی بلی نظرآئے گی۔ دوسری دنیا ہماری نظروں کے سامنے سے غائب ہوجائے گی۔کیونکہ ہم نے ’’شاہد‘‘ بن کر امواج کی سپرپوزیشن کو (فزکس کی زبان میں) کولیپس کردیا۔ اور وہ حقیقت جو ہرکہیں، ہرجگہ، ہروقت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہمارے دیکھنے کی وجہ سے صرف ایک جگہ، ایک وقت میں اپنے آپ کو صرف ہمارے لیے ظاہر کرنے لگی۔گویا نامینا کی نیچر مذہب کے کسی ’’خدا‘‘ جیسی بنتی جارہی تھی۔ گویا،
’’اسے کوئی دیکھنا چاہے تو وہ نظر آئے اور خود کو ظاہر کردے اور کوئی نہ دیکھنا چاہے تو وہ ہرجگہ، ہرکہیں ہروقت موجود رہے‘‘
آئن سٹائن اور بوہر کے درمیان مناظرے کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ میں اگرچہ ’’آئن سٹائن اور بوہر‘‘ کے درمیان پیدا ہوجانے والی کنٹروورسی پر پہلے ایک تفصیلی مضمون لکھ چکاہوں، جو آپ میں سے بعض قارئین پڑھ بھی چکے ہیں۔ لیکن یہاں میں اس کے بعض حصے دہرانے لگاہوں۔ اِس کنٹروورسی کو موضوع ِ حاضر میں دہرانے کی وجہ یہ ہے کہ میں’’ کاسمک سکیل فزکس اور ایٹامک سکیل فزکس‘‘ کے درمیان پیدا ہوجانے والی اس فضا سے آپ کو متعارف کروانا چاہتاہوں جس نے فزکس کے دو دھڑوں میں ایسی مخالفت پیدا کردی تھی جو ’’شئے کی حقیقت‘‘ کے موضوع پرتھی اور اِس بار دونوں طرف فلسفہ کے لوگ نہیں تھے بلکہ ایکسپیری منٹل سائنس کے لوگ تھے۔آئن سٹائن اور نیلز بوہر کی کنٹروورسی پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں فزکس پر گزرنے والے اُس تکلیف دہ دور کا اندازہ ہوسکے جو فی الواقعہ فزکس کی موت پر منتج ہوتانظر آرہا تھا۔
جدید فزکس اور جدید فلسفہ کے طلبہ کے لیے آئن سٹائن اور بوہر کے درمیان برپا ہونے والے معرکہ سے زیادہ کوئی شئے دلچسپ نہیں رہی۔ علمی لوگوں کے اختلاف بھی علمی ہوتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بالکل برعکس سوچ رہے تھے۔ لیکن دونوں ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتے تھے۔ کیونکہ بظاہر اگر بوھر کی "اِنٹینگلمنٹ" درست تھی تو آئن سٹائن کی اضافیت غلط تھی اور اگر آئن سٹائن کی اضافیت درست تھی تو بوھر کی اِنٹینگلمنٹ غلط تھی۔ اضافیت کی بنیاد اِس اُصول پر ہے کہ،
"کوئی بھی شئے روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر نہیں کرسکتی"
بوھر کی اِنٹینگلمنٹ کے مطابق "سفر" اور "رفتار" کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ آئن سٹائن کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ بوھر کے ماڈلز اور کوانٹم فزکس کی عجیب و غریب باتوں کا رد کرسکے۔ اس نے پہلے ایک تھاٹ ایکسپیری منٹ تجویز کیا اور بعد میں دوسرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک کے بعد ایک توجیہہ پیش کرتا رہا لیکن کوانٹم فزکس تھی کہ اپنے اِس خیال پر بضد تھی کہ،
’’انٹینگلمنٹ کے تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات کے کسی ایک نقطے پر پیش آنا والا کوئی واقعہ۔۔۔۔۔۔ دُور بہت دُور یہاں تک کہ لاکھوں نوری سال کے فاصلے تک دُور۔۔۔۔۔۔۔۔کائنات کے کسی اور نقطے پر پیش آنے والے واقعہ کو ایک ہی وقت میں متاثر کرسکتاہے‘‘۔
آئن سٹائن نے اِس عجیب و غریب خیال پر "سپُوکی ایکشن" کی پھبتی کسی۔ بالفاظ ِ دگر یہ کہ،
"اِنٹینگلمنٹ کی حیثیت ایسی ہے جیسی گدھے کے سر پر سینگ "
اس نے کہا
"یہ بے معنی بات ہے اور اس کا مطلب یہ ماننا ہے کہ روشنی کی رفتار سے بھی کہیں زیادہ تیز مواصلاتی رابطہ ممکن ہے۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے سراسر خلاف تھی۔ آئن سٹائن کا تھاٹ ایکسپیری منٹ بعد میں تھاٹ ایکسپیری منٹ نہ رہا بلکہ لیبارٹری میں منعقد کیے جاسکنے والے تجربے کی صورت اختیار کرگیا۔ اور فی زمانہ اس تجربہ کو بآسانی دہرایا جاسکتاہے۔ بار بار کے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ،
"کوانٹم انٹینگلمنٹ فی الحقیقت وجود رکھتی ہے" البتہ اِس بات کی دیگر توجیہات (سٹرنگ تھیوری) میسر آگئیں کہ اضافیت کے قوانین کو کوانٹم سے جو فوری خطرہ محسوس ہورہا تھا وہ بجا نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کوانٹم نے فزکس اور کائنات کی ساری کہانی کا رُخ نہایت انوکھے جہانوں کی طرف موڑ دیا۔
آئن سٹائن نے کہا تھا،
’’ حقیقت خارج میں ہم سے الگ وجود رکھتی ہے‘‘۔
بوھرنے کہا،
’’حقیقت صرف ایک لفظ ہے اور ہمیں سیکھنا ہوگا کہ اِس لفظ کو استعمال کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟‘‘
حقیقت کے بارے میں بوھر نے ایک بالکل ہی مختلف نظریہ اختیار کرلیاتھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ
’’حقیقت نامعلوم (نامینا) بھی ہے اور ناقابل ِ معلوم بھی۔ یہاں تک حقیقت میں حقیقت کے بطور حقیقت کوئی معانی ہی نہیں ہیں۔ بوھر نے کانٹ کے مسئلہ "تھنگ اِن اِٹ سیلف"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( یعنی شئے کی حقیقت جو کچھ دکھائی دیتی ہے یہ فقط انسانی نقطۂ نظر ہے، نہ کہ اصل حقیقت)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو فزکس کے تجربات کی مدد سے سچا تسلیم کرلیا تھا‘‘۔
کانٹ کی طرح بوھر بھی بے پناہ مشتاق تھا کہ کاش کوئی کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔ "شئے" کے بارے میں کچھ بھی ایسی رائے دے سکے جسے حتمی، قابل ِ فہم یا قابل ِ گرفت کہا جاسکے۔ ایک مرتبہ اس نے کہا،
"فزکس اور سائنس اصل میں نیچر کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرتیں اور نہ ہی کرسکتی ہیں بلکہ فزکس اور سائنس ہمیں صرف یہ بتاتی ہیں کہ نیچر نے ہمارے مشاہدے کے سامنے اپنے آپ کو کس قدر، کس حد تک اور کس شکل میں ظاہر کیا"۔
سابقہ حصوں میں مَیں اجمالاً اس بات کی طرف اشارہ کرآیاہوں۔ ہم عموماً دیکھتے ہیں کہ جب مذہب اور سائنس کے درمیان مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے تو سائنس کے ماننے والے اُن لوگوں کے درمیان جو کسی خدا یا مذہب کے قائل نہیں ہیں بڑی بےچینی نظر آتی ہے۔ انہیں مذہب کی طرف سے سائنسی حقائق پر بات کرنے والے لوگ سخت ناپسند ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ متکلمین کو خالص سائنسی فکر کی جانب سے بہت بُرا سمجھا جاتاہے۔اہل ِسائنس کے اُس مخصوص طبقہ کی طرف سے ہمیشہ ایک ہی اعتراض بار بار دہرایاجاتاہے اور وہ یہ ہے کہ ،
’’مذہب کا عویٰ ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ مذہبی عقائد بھی ہمیشہ کے لیے ہیں۔مذہبی مفروضے بھی ہمیشہ کے لیے ہیں۔ مذہب، لٹریچر کی زبان میں ایک ’مہابیانیہ‘ ہے۔ اس اَبتری، اضافیت، فریمز آف ریفرنسز اور سائنسی ’کے اوس‘ (Chaos) کے دور میں مہابیانیے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب کوئی ایسی بات نہیں کرسکتا جو ہمیشہ کے لیے ہو۔ خدا کاعقیدہ، جنت جہنم کا عقیدہ، حیات بعدالموت کا عقیدہ، فرشتے، جنّات، عذاب، حساب کتاب، انعام، معجزات، وحی (قران) یہ سب باتیں مذہب کے مہابیانیے ہیں۔
اگر مذہب ایسے ہی پختہ اور کبھی نہ بدلنے والے عقائد کے نظام کا نام ہے تو پھر سائنس کے ساتھ اس کا کیا موازنہ؟ سائنس تو ہرآن بدلتی رہتی ہے۔ ایک سائنسی نظریہ جو آج درست ہے، وہ کل غلط ہوجاتاہے۔ ایسے کتنے ہی سائنسی نظریات ہیں جو پہلے کچھ اور تھے، لیکن بعد میں کچھ اور بن گئے اور اُس کے بعد بالکل ہی کچھ او ربن گئے۔ اگر متکلمین اِسی طرح کرتے رہے کہ اپنے مذہب عقائد کو ثابت کرنے کے لیے ہر نئی سائنسی دریافت کا سہرا اپنے مذہب کے سر باندھنے کی ناکام کوشش کرتے رہے تو وہ اور ان کے مذہبی عقائد بری طرح پِٹ جائینگے، جیسا کہ فی زمانہ پِٹ رہے ہیں۔
آج جو لوگ آئن سٹائن کے نظریات سے معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ثابت کرنے لگ جاتے ہیں وہ کل کیا کرینگے؟ کل کو اگر آئن سٹائن کی تمام تھیوریز بھی غلط ثابت ہوگئیں تو کیا معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مذہبی لوگوں کا خیال بھی بدل جائے گا؟ کیا کل کو وہ لوگ یہ سوچ سوچ کر شرمندہ نہ ہونگے کہ انہوں نے تو آئن سٹائن کے نظریات سے معراج کو ثابت کربھی لیا تھاجبکہ آئن سٹائن تو خود غلط ثابت ہوگیا؟
سائنس تو روز بدل جاتی ہے، کیا مذہب بھی خود کو روز روز بدلنے کے لیے تیار ہے؟‘‘
یہ سوال جو میں نے قدرے وضاحت کے ساتھ ابھی پیش کیا ہے۔ متکلمین کے مخالفین کی طرف سے بڑے زور وشور کے ساتھ پیش کیا جاتاہے۔ اور ہمیشہ سے پیش کیا جاتارہاہے۔ اپنے اِسی مضمون کے پہلے حصے میں، میں نے جب گیلیلیو کے عدسے سے لے کر سٹرنگ تھیوری تک سائنس کے ہرپل ارتقأ پذیر نظریات کا ذکر کیا تو یہی ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ فینامینا (مظاہر فطرت) وہ ہے جو ہم نے اب تک دریافت کیا۔ ہم نے جو اب تک دریافت کیا وہ کائنات میں تو پہلے سے موجود تھا۔ لیکن پہلے ہم اُن حقائق کو دیکھ سکنے کے اہل ہی نہیں تھے۔ ہمارا فہم و ادراک ابھی فینامینا (مظاہر فطرت) کے نئے مناظر کو سہہ سکنے کی صلاحیت کا حامل نہیں تھا۔
سائنس نے کیا کیا؟ کیا سائنس نے فینامینا کے حقائق کو بدل دیا؟ کیا پہلے موجود فینامینا کو سائنس نے تبدیل کردیا؟
کتنی سادہ سی بات ہے کہ سائنس ایسا کچھ نہ کرسکتی ہے اور نہ کرسکی ہے۔سائنس کا کام ہے فینامینا میں اضافہ کرنا۔ ہمیں کائنات کے بارے میں جو جو معلوم ہے اس میں اضافہ کرتے رہنا جسے عام زبان میں علم میں اضافہ کرنا کہاجاتاہے۔کانٹ نے حتمی طور پر جب عقل کی حدود کا تعین کردیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایک ہوتاہے فینامینا اور ایک ہوتاہے ’’نامینا‘‘۔فینامینا وہ ہے جو ہمیں معلوم ہوچکا۔ نامینا وہ ہے جو ابھی ہمیں معلوم نہیں۔ اس کے بعد کانٹ جو کہتاہے وہ بہت ہی حیران کن ہے۔ کانٹ کہتاہے،
’’اور یہ ہم نہیں ہیں جو فینامینا میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہ نامینا ہے جو خود کو ہم پرگاہے بگاہے عیاں کرتارہتاہے‘‘
اس کے بعد اب ذرا نیلز بوھر کا یہ جملہ ایک بار پھر سے دیکھیے!
"فزکس اور سائنس اصل میں نیچر کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرتیں اور نہ ہی کرسکتی ہیں بلکہ فزکس اور سائنس ہمیں صرف یہ بتاتی ہیں کہ نیچر نے ہمارے مشاہدے کے سامنے اپنے آپ کو کس قدر، کس حد تک اور کس شکل میں ظاہر کیا"۔
میں نے اِسی مضمون (سٹرنگ تھیوری) کے سابقہ حصوں میں لکھا کہ،
’’اب اگر کوئی کہے کہ سائنس تو بدلتی رہتی ہے۔ آج ایک نظریہ درست ہے تو کل وہ غلط ثابت ہوجاتاہے ۔ تو یہ کس قدر جاہلانہ بات ہوگی؟ ماضی کے تجربات اور جیسا کہ ہم نے اب تک دیکھا، بڑھتے ہوئے علم سے صاف نظر آرہاہے کہ یہ انسانی منطقی فہم ہے جو زیادہ بڑی حقیقت کو ہضم کرنے کا اہل نہیں ہوتا اور اس لیے اسے کوئی چیز پہلے پہل چھوٹی اور ناقابل ِ فہم اور بعد میں بڑی اور قابل فہم ہوکر نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بقول کانٹ یہ مینٹل فیکلٹیز ہیں۔ جب ہم خود پہلے ہی سے کسی باریک بات کو سمجھنے کے اہل نہیں ہوتے تو اس میں سائنس کا کیا قصور؟۔میرا موقف ہے کہ،
’’ سائنس نے ہمیشہ ایک ہی ڈائریکشن میں سفر کیا ہے اور وہ ہے پہلے سے بڑھ کر حقیقت کی تصویر کشی کرنا‘‘۔
پچھلے کمزور منطقی فہم سےبڑھ کر انسان کے لیے نئے طاقتور منطقی فہم کا حصول سائنس کا لٹرلی عمل رہا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوتاہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اِن سے بڑے حقائق آج بھی موجود ہیں۔ جو موجودہ انسانی فہم سے بڑے منطقی فہم کے منتظر ہیں۔ منتظر ہیں کہ کب کوئی آئے اور کب کوئی ان کے چہرے سے پردے ہٹادے۔ سائنس کبھی غلط نہیں ہوتی کیونکہ یہ فطرت کا فعل ہے، اور نہ ہی خود کو بدلتی ہے۔ یہ ہم ہیں جو پہلے غلط ہوتے ہیں۔ یہ ہم ہیں جو خود کو بدلتے ہیں۔ ہمارے آلات بدلتے ہیں تو ہمارے خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔ جوں جوں آلات اور حواس کو استعمال کرنے کی صلاحیت بڑھتی جائے گی ہمارا فہم و ادراک زیادہ باریک اور زیادہ ناقابل ِ فہم اشیأ کو سمجھنا بھی شروع کردیگا۔ مجھے ہروہ شخص تنگ نظر لگتاہے جو ’’غیب‘‘ کی بعض شکلوں کے بارے میں کسی مذہبی شدت پسند کی طرح سخت ہے اور ان کے وجود سے انکار کرتاہے۔
نیلز بوہر کا یہ خیال کہ ،
"فزکس اور سائنس اصل میں نیچر کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کرتیں اور نہ ہی کرسکتی ہیں بلکہ فزکس اور سائنس ہمیں صرف یہ بتاتی ہیں کہ نیچر نے ہمارے مشاہدے کے سامنے اپنے آپ کو کس قدر، کس حد تک اور کس شکل میں ظاہر کیا"۔
نہایت کانٹئن خیال ہے۔ خیر!
آئن سٹائن نے بوھر کا نظریہ رد کردیا کہ
"حقیقت کے بارے میں ہمارا علم یعنی ہمارا مطالعۂ فزکس ایسے مظاہر پر مشتمل ہے جو نتیجہ ہے پیمائش کرنے والے آلات کے آپس میں انٹرایکشن کا۔ آئن سٹائن حقیقت کے علم کو ہمارے مشاہدے سے آزاد دیکھنا چاہتاتھا۔ کوانٹم فزکس کے یہ نتائج اسے ہضم ہی نہ ہورہے تھے کہ حقیقت ہمارے مشاہدے کے اعتبار سے ہم پر منکشف ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ آئن سٹائن نے کہہ دیا کہ،
"God does not play dice"
"خدا چوسر (چھکا) نہیں کھیلتا"
بوھر نے جواب میں کہا کہ،
"آئن سٹائن کو چاہیے کہ خدا کو یہ بتانا چھوڑ دے کہ کیا کرناہے اور کیا نہیں کرنا"
آئن سٹائن نے اضافیت پر اپنی زندگی کے آخری سیمینار میں کوانٹم کے بارے میں اپنی فکر مندی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ،
"مجھے "انتخاب" کے خیال سے بےچینی ہوجاتی ہے۔ یہ آئیڈیا کہ شاہد یا مشاہدہ کرنے والے آلے کا مادے کی حقیقت پر کوئی اثر پڑتاہے میرے لیے ناقابل ِ قبول ہے" اس نے کہا اِس طرح سوچیں کہ،
"ایک فرد مثلاً چوہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا چوہا بھی کائنات کو دیکھے تو کائنات کی حالت میں تبدیلی واقع ہوجائے گی؟"
۱۹۳۰ ء میں آئن سٹائن نے بوھر کو آخری چیلنج کیا۔ یہ ایک تھاٹ ایکسپیری منٹ تھا۔ جسے بہت بعد میں ایک فرانسیسی ماہر ِ طبیعات نے لیبارٹری کے تجربہ میں بدل دیا۔ آئن سٹائن کا خیال تھا کہ فزیکل ریئلٹی کے کم ازکم کچھ حصہ کو پیمائش کرنے والے آلہ سے متاثر کیے بغیر بھی ماپا جاسکتاہے۔ آئن سٹائن نے اپنے تھاٹ ایکسپیری منٹ میں یہ دکھایا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو ایسے پارٹیکل جو ایک ہی ساعت میں پیدا ہوئے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے سے بہت دور لے جاکر ان میں سے ایک کا اس طرح مشاہدہ کیا جاسکتاہے کہ دوسرا پارٹیکل اپنے جڑواں بھائی کے مشاہدہ سے کسی صورت آگاہ نہ ہوسکے تو کوانٹم فزکس کی ساری قلعی کھل جائیگی۔کیونکہ کوانٹم فزکس کا یہ کہنا تھا کہ فاصلہ جتنا بھی زیادہ ہو جڑواں بھائی کا مشاہدہ دوسرے پارٹیکل کی حالت کو خود بخود بوجہ انٹینگلمنٹ بدل دیتاہے۔
کوانٹم کی اِس بات کو سمجھنے کے لیے آپ چشم ِ تصور میں دو فرضی گیندیں دیکھیں۔ جو دونوں بالکل ایک جیسی ہیں۔ اب ان میں سے ایک گیند کو دُور بہت دُور ہزاروں کہکشاؤں کے پار بھیج دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسری گیند کو اپنے پاس اِسی کمرے میں رکھیں۔ اب یہ تصور کریں کہ آپ نے اپنے پاس رکھی گیند کو گھمایا تو دُور ہزاروں کہکشاؤں سے پار رکھی ہوئی دوسری گیند بھی بالکل اُسی انداز میں اُس سے الٹے رُخ پر گھوم گئی۔ اِس مثال میں اور کوانٹم میں یہ فرق ہے کہ کوانٹم میں پارٹکل کو ہم نہیں گھماتے بلکہ محض اُن کی پیمائش کا عمل ہی ان کی سپِن (Spin) کو تبدیل کردیتاہے۔ یعنی محض مشاہدہ سے پارٹکل میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے جو ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر موجود اس کے جڑواں بھائی کو بھی بالکل اسی انداز میں تبدیل کردیتی ہے۔
چنانچہ آئن سٹائن کے تھاٹ ایکسپیری منٹ کا یہ مقصد تھا کہ کوانٹم کے اِس خیال کو غلط ثابت کیا جاسکے۔اس نے دو جڑواں پارٹیکلز کو ایک دوسرے سے دور بھیج کر ان میں سے ایک کا مشاہدہ کرنے کے لیے ایک فرضی مشین ڈیزائن کرڈالی۔ جسے بعد میں سچ مچ بنایا گیا اور ایک بار نہیں کئی بار تجربہ کرکے یہ دیکھا گیا کہ آئن سٹائن کا خیال درست نہیں تھا۔ جبکہ بوھر کا یہ خیال کہ جڑواں پارٹیکلز چاہے ایک دوسرے سے لاکھوں سال کے فاصلے پر بھی بھیج دیے جائیں کسی ایک کا مشاہدہ نہ صرف اس کی پراپرٹیز کو تبدیل کردیتاہے بلکہ وہی تبدیلی دور موجود دوسرے پارٹیکل میں بھی واقع ہوجاتی ہے۔
یوں بوھر کی ایٹمی فزکس نے ایک طویل ترین پیراڈاکس کو جنم دیا جو دنیا کے بارے میں آئن سٹائن کے تصویر سے بالکل مختلف تھا۔ آئن سٹائن کی تھیوریز کے مطابق تو کائنات کے مختلف حصے آپس میں محض معلولات (ایفیکٹس) اور سگنلز کی وجہ سے جُڑے ہوئے تھے اور وہ ایفیکٹس یا سگنلز روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار میں ہرگز سفر نہیں کرسکتے۔ اور ہمیشہ واقعات کے مرکز اور منبع تک پہنچا جاسکتاہے جو ان ایفیکٹس (معلولات) کی کازز (علل) ہوتے ہیں۔ آئن سٹائن کا دعویٰ تھا کہ ہر واقعہ کی "لوکل کاز" ہوتی ہے۔
لوکل کازیلٹی کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ یہاں پیش آتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہاں ہم موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی قسم کا کوئی فوری ایکشن کائنات کے کسی اور حصہ میں پیدا کرنے کا باعث نہیں بن سکتا۔ یہ آئن سٹائن کی اضافیت کا ایک اہم اُصول ہے۔اور اسی اصول کو کوانٹم مکینکس تسلیم ہی نہیں کرتی۔ کیونکہ کوانٹم مختلف علاقوں کے الگ الگ سپیس ٹائم کے تصور سے واقف نہیں۔ کوانٹم میں ہر شئے کو ایک "کُل" کی حیثیت سے دیکھا جاتاہے۔
خود آئن سٹائن کا تجویز کردہ تجربہ دونوں دوستوں اور حریفوں کی وفات کے بعد عملی طور پر کئی بار دہرایا گیا تو آئن سٹائن کا خیال غلط نکلا۔ اب لگ بھگ ایک صدی ہونے کو آئی ہے اور یہ بات اچھی طرح ثابت کرلی گئی ہے کہ نیل بوھر کا نظریہ درست تھا۔ نیل بوھر نے باالآخر ثابت کردیا کہ،
"دو پارٹیکلز کی پراپرٹیز اس وقت تک متعین نہیں ہیں جب تک اس کی پیمائش نہ کر لی جائے۔ چاہے ان کے درمیان فاصلہ ہزارون نوری سال کا ہی کیوں نہ ہو۔ جونہی ان میں سے ایک پارٹیکل کی پیمائش کی جائے گی ، دوسرا خود کو اُسی کے مطابق تبدیل کرلیگا چاہے کائنات کے جس کونے میں ہو"۔
یوں گویا یہ ماننا لازم آگیا کہ انفارمیشن کے سفر کا تعلق سپیس اور ٹائم کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ نہایت نامعقول نتیجہ تھا جس نے کوانٹم کو بالآخر تاریخ ِ فزکس کا سب سے زیادہ حیران کردینے والا عجوبہ بنا دیا۔ ثابت ہوگیا کہ لوکل کازیلٹی نامی کوئی چیز نہیں۔ اور اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے"ڈیوڈ بوم" نے یہ کہا،
"معلوم ہوتاہے کہ کائنات الگ الگ اجزأ پر مشتمل نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک واحد ناقابل ِ تقسیم کُل ہے"
تاہم اضافیت اور اِنٹینگلمنٹ دونوں کے نتائج کو ملا کر یہ کہا جاسکتاکے کہ دنیا ٹکڑوں میں بٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل اور متواتر بہتی ہوئی حرکت کا نام ہے۔ چیزیں ایک دوسرے سے دور نہیں ہیں بلکہ سب کچھ ایک کُل کی شکل میں آپس میں جڑا ہوا ہے۔
سٹرنگ تھیوری نے آکر بالاخر ’’کاسمک سطح کی فزکس اور کوانٹم سطح کی فزکس‘‘ کا مجادلہ ختم کردیا۔ سٹرنگ تھیوری کے لیے ایسا مہیب اور اندوہ ناک خلیج پاٹنا کیونکر ممکن ہوا؟ سچ تو یہ ہےکہ اگر بے چارے تھیوڈور کلُوزا کی بات کو اس وقت مان لیا گیا ہوتا تو جھگڑا اسی وقت ختم ہوگیا ہوتا کہ سپیس کی ڈائمنشنز صرف تین ہی نہیں بلکہ تین سے زیادہ ہیں اور فطرت کے بعض مظاہر جو ہماری نظروں سے ابھی پوشیدہ ہیں چونکہ اُن ایکسٹراڈائمینشنز میں پیش آتے ہیں اِس لیے ہم اپنے موجودہ منطقی فہم کے ذریعے ابھی ان مظاہر کی حقیقت کو گرفت میں لینے کے اہل نہیں ہیں۔ البتہ اگر ہم نے ایکسٹرا ڈائمنشنز کو تصور میں لانے کی صلاحیت کبھی حاصل کرلی تو یقیناً کوانٹم سطح کی فزکس اور کاسمک سطح کی فزکس کے درمیان نظر آنے والا ظاہری مجادلہ اور جھگڑا ختم ہوجائیگا۔
سٹرنگ تھیوری نے ریاضی کی مساواتوں کی حدتک بہت خوبی کے ساتھ ثابت کردیا کہ آئن سٹائن اور کوانٹم فزکس دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریات بھی درست ہیں۔ واقعی بگ بینگ ہوا تھا۔ واقعی کائنات پھیل رہی ہے۔ واقعی کائنات ایک دن ختم ہوجائے گی۔ واقعی بلیک ہولز ہوتے ہیں۔ واقعی گریوٹیشنل ویوز ہوتی ہیں۔ واقعی کوئی انفارمیشن روشنی کی رفتار سے زیادہ پر سفر نہیں کرسکتی۔ وغیرہ وغیرہ
ساتھ ہی سٹرنگ تھیوری نے یہ بھی ثابت کردیا کہ کوانٹم فزکس بھی سچ کہتی ہے۔ مثلاً بگ بینگ تو ہوا تھا لیکن بگ بینگ جب ہوا تو سب سے پہلا پہلا کام کیا ہوا؟ سٹرنگ تھیوری کے ایک بہت ہی بڑے نام ،’’ ایلن گُوتھ‘‘ نے انفلیشن کی پیش گوئی کی جو بعد میں تجرباتی طور پر ثابت کرلی گئی۔ ایلن گُوتھ کے پہلے خیال کے مطابق،
’’ آفرینش میں گریوٹی الٹ کام کررہی تھی۔ اسے ہم ریپلسِو (Repulsive) گریوٹی کہہ سکتے ہیں۔یہ فورس ایک مالیکیول جتنے باریک ذرّے کو سیکنڈ کے اربویں حصے میں اتنی شدت سے پھاڑ سکتی تھی کہ وہ آن واحد میں ہماری کہکشاں یعنی ملکی جتنا بڑا بھی ہوسکتاہے‘‘۔
تب گُوتھ نے انفلیشن تھیوری ڈیولپ کی اور پھر حتمی نتائج اخذ کیے کہ،
’’ بگ بینگ کے صرف دس کی طاقت مائنس چھتیس سیکنڈز بعد اور لگ بھگ دس کی طاقت مائنس تینتیس اور دس کی طاقت مائنس بتیس سیکنڈ کے درمیان ہی کہیں ساری کائنات کا ابتدائی مادہ اور سپیس پیدا ہوگئی تھی‘‘
خدا کی پناہ!
یہ اتنا کم وقت ہے کہ اگر ہم پوری تیزی کے ساتھ بھی لفظ ِ ’’کُن‘‘ ادا کریں تو ، لفظِ ’’کُن ‘‘ ادا کرتے ہوئے ہمیں اس سے ہزارہا گنا زیادہ وقت لگ جائیگا۔ اتنے قلیل وقت میں ، ایٹم سے ہزارہا گنا چھوٹے کسی ذرے کا پھٹنا اور پھر پھٹ کر اتنا پھیلنا کہ موجودہ کائنات کی زیادہ تر سپیس اُسی وقت پیدا ہوگئی ہو اور موجودہ کائنات کا سارا مادہ بھی اسی وقت پیدا ہوگیا ہو، کیا اِس سے بڑھ کر عجیب و غریب خیال بھی آج تک کسی کو مذہب کے علاوہ کہیں سے سننے کے لیے ملا ہوگا؟ خاص طور پر فزکس جیسے سخت گیر مضمون سے؟
کہاں گئی ساری کی ساری فزکس جو روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر کا وجود تسلیم ہی نہ کرتی تھی؟ انفلیشن تھیوری کے مطابق ابتدائی مادہ نے روشنی کی رفتار سے سینکڑوں گنا زیادہ تیزی کے ساتھ سفر کیا۔ اور یہ انفلیشن ایک سیکنڈ کے دس کی طاقت مائنس چھتیسویں حصے میں ممکن ہوئی۔ لیکن پھر سٹرنگ تھیوری نے ہی بتایا کہ انفلیشن کے بعد کائنات میں استقرار آگیا تھا۔
ایلن گُوتھ آج سٹرنگ تھیوری کا ایک زور دار حمایتی ہے۔ ایلن گُوتھ کی انفلیشن کی تفصیلات سے میں اپنے اگلی قسط کا آغاز کرونگا۔ اور اب میں محسوس کررہاہوں کہ سٹرنگ تھیوری پر میرا یہ مضمون آہستہ آہستہ اُس طرف کو بڑھ رہا ہے جس سے ہم سٹرنگز کو کسی حد تک سمجھنے کے اہل ہوجائینگے۔لیکن اگلی قسط کے لیے میرے قارئین کو تھوڑا سا انتظارکرناہوگا کیونکہ میں ’’گریوٹی ویو ‘‘ پر عنقریب منعقد ہونے والی اپنی کانفرنس کے انتظامات میں لگ گیاہوں۔ تاریخ ، وقت اور مقام فائنل ہوگیاہے اور تیاری کے لیے وقت بہت کم ہے۔ پورے ملک سے کانفرنس میں شرکت کے لیے دوست تشریف لارہے ہیں فلہذا انتظامات کا معاملہ خاصا نازک ہے۔ انشاللہ چھ اپریل کو کانفرنس کے انعقاد اور کامیابی کے بعد، میں اگلی قسطوں پر کام شروع کرونگا۔ مجھے بھرپور اُمید ہے کہ جو احباب ان تمام حصوں کو سمجھ کر پڑھتے آرہے ہونگے وہ سٹرنگز(بلکہ ممبرینز) کو سمجھنے کے ضرور اہل ہونگے۔ رہ گئیں ڈائمینشنز تو وہ ابھی میں خود بھی اپنے فہم ِ منطقی کی گرفت میں لینے کی کوشش کررہاہوں، سو کوشش کرونگا کہ آپ کو بھی ساتھ لے کر چل سکوں۔
انتظار کے لیے معذرت اور مضمون پر فیڈ بک دیتے رہنے کے لیے تمام قارئین کا بہت بہت شکریہ
ادریس آزاد

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔