ایبسولیوٹزم کی واپسی
اگرچہ مشہور سینٹر لمٹ تھیوری کے ساتھ ہی ایبسولیوٹزم کی کسی حد تک واپسی کے آثار نظر آنے لگ گئے تھے کیونکہ سینٹر لمٹ تھیوری اپنی تمام تر لاجک کے ساتھ ''تقریباً ایبسولیوٹ'' (Approximately absolute) ویلیو نکالنے کی مہارت حاصل کرچکی ہے۔ لیکن اس سے بالکل ہٹ کر تازہ ترین فزکس بالخصوص لارج ہائیڈران کولائیڈر کے لوگ جس تیزیکےساتھسٹرنگ تھیوری کے حق میں ''جہان ِ واحد'' (Universe) کے نظریہ سے منحرف ہوتے جارہے ہیں ، معلوم ہوتاہے بہت جلد ایک بار پھر مطلق کائنات کا تصور سائنس کی دنیا پر غلبہ پالے گا۔ کیونکہ سٹرنگ تھیوری کے مطابق ڈائمینشنز بہت سی ہیں اور جب سٹرنگ تھیوری مزید ایڈوانس ہوتی ہے تو ''برین تھیوری ''میں تبدیل ہوکر بے شمار کائناتوں (Multiverse) کے نظریہ کو اختیار کرلیتی ہے۔
ایسی صورت میں ایک اکیلا بگ بینگ یہ ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہوجاتا ہے کہ کائنات حادث ہے اور وقت کے کسی خاص لمحے میں وجود میں آئی تھی۔اس کے برعکس وہی پرانا عقیدہ کہ کائنات قدیم ہے ، یہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی قوت پکڑتادکھائی دیتاہے۔
کائنات کے بارے میں اب تک جانا گیا علم ،حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کی تصدیق کرتاہوا اب باہمی اتحادواتصال کے آخری مراحل میں سے گزرتا ہوا نظرآرہاہے۔ ہزاروں سال تک مادہ اور انرجی کو الگ الگ اجزائے کائنات سمجھا جاتاتھا۔ اب مادہ اور انرجی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات اور انرجی کے چھوٹے سے چھوٹےذرات ایک دوسرے میں نہایت آرام سے بدل جاتے ہیں۔ مادہ توانائی اور توانائی مادہ بن جاتی ہے۔
فلہذا مادے کی نئی تعریف یہ ہے ہی نہیں کہ ''وہ جسم جو جگہ گھیرے''۔۔۔۔۔کیونکہ توانائی کوئی جگہ نہیں گھیرتی اور مادہ بھی توانائی کی ہی ایک شکل ہے اس لیے اب مادہ اپنی ماہیت میں محض ایک مقدار کا نام ہے۔
بقول کارل ساگان۔۔۔۔۔۔۔ ''مادہ کیا ہے؟ محض رفتاروں کا تناسب''۔ نہ صرف مادہ اور توانائی نے عہد ِ حاضر میں وصل پایا ہے بلکہ توانائی کی مختلف لہریں جنہیں نوع کے اعتبار سے الگ الگ سمجھا جاتا تھا تقریبا سب کی سب ہی اب ایک ہی دھاگے سے بندھ چکی ہیں۔ اسی لیے ایم تھیوری کو ''تھیوری آف ایوری تھنگ ''کہا جاتاہے۔
اگرچہ کائنات کی جادونگری میں ہوتا عموماً یوں ہے کہ جب منزل پرجاپہنچتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ وہ تو اصل راستے کی کھڑکی تھی۔ ماضی میں جب انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ زمین گول ہے اور وہ اسے چپٹی سمجھتا تھا تو وہ زمین کو آسمان کے نیچے لامتناہی طور پر پھیلاہوا بھی محسوس کرتاتھا۔کیونکہ اساطیر سے معلوم ہوتاہے کہ انسان خشکی کے اختتام پر سمندر اور سمندر کی حدود کو لامتناہی تصور کرتاتھا۔ اس زمانے میں جب سمندری سفرکے دوران کوئی نیا جزیرہ ملتا تو انسان کو عجب خوشی محسوس ہوتی۔ پھر جب براعظم ہی نئے ملنے لگے تو لوگ وہاں سے آنے والوں سے پوچھا کرتے تھے کہ وہاں جو انسان بستے ہیں کیا اُن کی شکلیں بھی ہمارے جیسی ہیں؟
بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے ''تاریخ ِ عالم'' میں لکھاہے،
شمال سے آنے والے بعض سوداگروں سے میں نے سنا ہے کہ شمال میں بہت اوپر جاکر۔۔۔۔سیتھیا سے اُس طرف۔۔۔۔۔۔ ایک آنکھ والے انسان آباد ہیں۔
ایک جگہ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے،
'' تیز ہوائیں جب سورج کو پرے دھکیل دیتی ہیں تو نیل کے اُتار چڑھاؤ میں فرق آنے لگتاہے''۔
اُس زمانے میں اگر کوئی کسی کو بتاتا کہ زمین گول ہے تو لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے، اگرچہ ڈیماکریٹس جیسے لوگ اس زمانے میں بھی زمین کے گول ہونے کا خاطرخواہ ادراک رکھتے تھے۔ لیکن اُس وقت ان کے تصورات جنّاتی اور مبہم سمجھے جاتے تھے، جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ پھر ایک وقت آیا جب انسان کو پتہ چلا کہ زمین گول ہے اور یہ ایک سیارہ ہے۔کسی ایک انسان کو نہیں۔ سیارۂ زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو پتہ چل گیا کہ زمین گول ہے۔ تو اُن کا منطقی فہم بھی اس نئے تصور کو
قبول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب انسان صرف اپنے سورج اور اس کے سیاروں کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔ پھر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اُسے پتہ چلا ۔۔۔۔۔۔ سورج تو خود ایک معمولی ستارہ ہے۔ اس جیسے کتنے ہی ستارے اور ہیں۔ اصل کائنات تو ملکی وے ہے۔ انیس سو بیس (1920) تک انسانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ملکی وے کے علاوہ بھی اس کائنات میں کہکشائیں ہیں ۔
جب یہ پتہ چلا کہ کائنات بہت بڑی ہے اور اس میں ملکی وے جیسی بلکہ اسے کئی کئی گناہ بڑی لاکھوں کروڑوں کہکشائیں اور بھی ہیں تو وہ اس یقین کے ساتھ جینے لگا کہ چلو! کائنات کا اس حد تک تو پتہ چلا کہ اس کی حدود وہاں تک ہیں جہاں تک تقریباً چودہ بلین سال میں مادہ پہنچا ہوگا۔ اور انسان پھر ایک مرتبہ ایک محدود سفیئر (کُرے) میں رہنے لگا۔ بالکل ویسے جیسے بہت پہلے رہتا تھا۔ جس طرح سمندر میں مچھلی کا رہنا جبر ہے بالکل اسی طرح انسان ایک گنبد کی تاریکی میں رہنے پر مجبور کیوں ہے؟ کیا فکر کا وہی سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اب تک رہا؟ خشکی کے ایک ٹکڑے سے دوسرے ٹکڑے تک کا سفر ہو یا ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک کا۔۔۔۔۔۔ ایک کہکشاں سےدوسری کہکشاں کا یا کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ سے دوسرے جھرمٹ کا۔۔۔۔۔ قانون تو یہی رہا ہے کہ وہ گنبد، وہ محدود سفئیر جس میں ہم رہتے ہیں پہلے سے بڑی ، کھلی اور وسیع ہوتی چلی گئی ہے تو اب کیوں نہیں؟
کائنات کے موجودہ معلوم سٹرکچر پر بات ختم نہیں ہوجاتی۔ لگتاہے ہم نے ابھی صرف پہلی کائنات دریافت کرلی ہے۔ اور اب کائناتیں دریافت ہونے کا وقت ہے۔کوانٹم، سٹرنگ تھیوری، برین تھیوری، مینی ورلڈ تھیوری، ملٹی ورس تھیوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِن سب کا مسلسل اصرار ہے کہ بات بگ بینگ سے شروع نہیں ہوتی۔ کہانی بہت لمبی ہے۔اگر بِگ
بینگ اپنی نوع میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک سلاسل ِ بگ بینگ کا وجود ہے تو پھر آغاز اور اختتام کا نظریہ یقیناً ایک بار پھر ایبسولیوٹزم کا شکار ہوجائیگا۔
گزشتہ صدی میں سب سے پہلے فزکس میں ایبسولیوٹزم کے خاتمے کے بعد ہی دیگر شعبہ ہائے حیات سے اِس کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اب دوبارہ سب سے پہلے فزکس ہی کائنات کے مطلق ہونے کی طرف واپس جانا چاہتی ہے، ہرچند کہ یہ واپسی مختلف ہے اور اب خلائے مطلق پہلے سے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ہے جس میں ایک نہیں لامتناہی کائناتیں سما سکتی ہیں لیکن رہے گی وہ پھر بھی خلا ہی۔ یہاں میں نے وقتی طورپر مکان کی جگہ ''خلا(Void)'' کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے۔ یعنی وہ مکان (Space) نہ سہی جسے ہماری کائنات کے مادے نے تخلیق کیا بلکہ وہ ''خلا''سہی جو کسی تصورِ محض کی طرح لامتناہی وجود رکھتی ہے۔جس طرح مولانا محمد حسین آزاد نے ''انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا'' میں لکھا ہے کہ ''میدان، میدان ِ خیال سے بھی بڑا میدان''۔۔۔۔۔ ایسا ہی میدان ِ عالمین جہاں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہزاروں نئے بگ بینگ ہوتے ہیں اور لاکھوں نئی کائناتیں وجود میں آتی ہیں۔ایسی ''خلائے مطلق ''کا آغاز کہاں سے ہوگا اور انجام کہاں تک تصور میں لایا جاسکتاہے؟
ملٹی ورس کبھی ثابت ہوگئی تو جو دیومالائیت علم ِ انسانی کا حصہ بننے والی ہے اس کا خواب کبھی مذہب نے بھی نہ دیکھاہوگا۔ تمام تر اساطیر اور مذاہب کے تمام تر قصے اُس طلسم ہوشربا کے سامنے ہیچ نظر آئینگے جس کی پٹاری کا نام لارج ہائیڈران کولائیڈ (LHC)ہے۔
سٹرنگ تھیوری ایک نہیں ہے۔ پانچ مختلف ٹیموں نے ، دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بیٹھ کر پانچ مختلف تھیوریز کئی سال تک ڈیولپ کیں اور پھر جاکر 97ء کی ایک کانفرنس میں وہ پانچ تھیوریز آپس میں ملائی گئیں تو سب لوگ مختلف رنگ میں ایک ہی قسم کے نتائج پر پہنچے تھے۔اور یوں ایک مشترکہ سٹرنگ تھیوری جسے ''ایم تھیوری'' کے نام سے پکارا جاتاہے ہے سامنے آئی۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاضی کی حد تک ثابت ہونے والی تھیوریز پر کیونکر حقیقت ہونے کا گمان کیا جائے؟ لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمیشہ ریاضی سب تھیوریز کے آگے آگے چلتی ہے۔
مثلاً آئن سٹائن کی ریاضی پر جب آئن سٹائن کے بعد کام شرو ع ہوا تو نہ صرف کوانٹم نے بے شمار انوکھی تھیوریز پیش کردیں بلکہ ، اینٹی میٹر،بلیک ہولز، ڈارک انرجی اور بے شمار دیگر ریاضیاتی مساواتیں سامنے آئیں جو بہت کم وقفے میں ریاضی سے فزکس میں تبدیل ہوکر تجربات سے ثابت بھی ہوگئیں۔چنانچہ آج اگر اسی سلسلے کی ایک بہت خوفناک کڑی کے طور پر سٹرنگ تھیوری اورزیادہ بڑے نام کی شکل میں ''ایم تھیوری ''یا زیادہ جدید نام کی شکل میں ''برین تھیوری'' ریاضی کی مساواتوں میں ثابت ہورہی ہے تو کل کو اس کے فزکس بن جانے اور تجربے کی بھٹی سے گزر جانے کے امکانات بھی کم نہیں ہیں۔
اگر خدا نخواستہ برین تھیوری درست ثابت ہوجاتی ہے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ یہ طے ہے کہ جتنا کچھ ہم جانتے ہیں یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل جائےگا۔ انسان خود اس قابل ہوجائے گا کہ اس کائنات جیسی کئی کائناتیں تخلیق کرسکے۔''کائنات، حیات سے چھلک رہی ہے''
یہ بات کہ اور سیّاروں پر بھی زندگی ہوسکتی ہے اتنی ہی قرین ِ قیاس ہے جتنی آج سے پانچ سو سال پہلے تک یہ بات قرین ِ قیاس تھی کہ اور بر ہائے اعظم پر بھی زندگی ہوسکتی ہے۔ جس طرح دوسرے براعظموں پر زندگی آہستہ آہستہ دریافت ہوئی اسی طرح اور سیّاروں پر بھی زندگی آہستہ آہستہ ہی دریافت ہوگی۔ البتہ وہ دن جب پہلی بار پتہ چلے گا کہ کسی اور سیّارے پر بھی حیات موجود ہے ہم اہل ِ زمین کے لیے بڑا پُرتجسس دن ہوگا۔ شاید ایک نئی تقویم (سَن) کا بھی آغاز ہو۔
صرف یہی نہیں کہ وہاں محض زندگی ہوسکتی ہے جو ہماری ہی کوئی کالونی بنے گی بلکہ یہ کہنا کہ کائنات میں اور انسان بھی ہوسکتے ہیں قطعاً بعید از قیاس نہیں۔ اگرچہ سائنس دانوں نے ہر طرح کی حیات کے امکانات پر غور کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ کارل ساگان ایک سیّارے پر نائٹروجن میں سانس لینے والے زندہ غبارے جو بڑی بڑی جیلی فش نما جاندار ہیں تصور کرتاہے۔ یہ جیلی فش نما جاندار دور سیارے کی سطح سے بہت اُوپر بادلوں میں اُڑتے پھرتے ہیں کیونکہ اُس سیارے کی سطح ٹھوس نہیں ہے۔لیکن اس طرح کی حیات کے ساتھ ساتھ بعینہ ایسی زندگی جیسی ہماری زمین پر پروان چڑھی ۔۔۔۔۔۔ کے پائے جانے کے بھی قوی امکانات ہیں۔
فرض کریں کسی اور سیّارے پر انسان ہیں۔ بالکل ایسے انسان جیسے ہم ہیں۔ فرض کریں وہ سیّارہ ہماری کہکشاں میں بہت دور یا کسی اور کہکشاں میں واقع ہے اور فرض کریں کہ وہ انسان ہم سے تاریخ میں بہت آگے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ہم سے دس ہزار سال ایڈوانس ہیں، تو یقیناً ان کی ٹیکنالوجیز ہماری ٹیکنالوجیز سے بالکل مختلف ہونگی۔ ہوسکتاہے وہ مشینی زندگی کی بجائے کسی اور میٹریل سے کام لیتے ہوں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے سیارے کا سارا نظام بائیو میکینکل بنالیا ہو۔ جینٹک انجنئرنگ کی ترقی کی موجودہ رفتار دیکھ کر لگتاہے کہ فقط ایک صدی بعد انسان ہرطرح کے جانور تخلیق کرنے پر قادر ہونگے۔ پودے، پرندے اور جراثیم تو تخلیق کربھی رہے ہیں۔ کسی خبر میں پڑھا تھا کہ امریکہ میں ایک ایسا بیکٹیریا پیدا کیا گیا ہے جس کا فضلہ اعلیٰ قسم کا پلاسٹک ہے۔
ابتدائی تجربات کی کامیابی کے بعد ان بیکٹیریاز کی فیکٹری لگانے کا منصوبہ زیر ِ غور ہے۔ چنانچہ اگر کسی اور سیّارے پر زندگی ہوئی اور وہ لوگ سچ مچ ہم سے بہت زیادہ ایڈوائنس ہوئے تو ہوسکتاہے انہوں نے ڈارک میٹر دریافت کرلیا ہو یا اُن کے پاس اینٹی میٹر کی کافی ساری مقدار موجود ہو اور یوں توانائی کا مسئلہ ان کے ہاں وجود ہی نہ رکھتاہو یا وجود رکھتا ہو تو اس سے بھی زیادہ توانائی ان کا مقصود ہو۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ انہوں نے اِس جسمانی ہییت میں جان بوجھ کر تبدیلیاں کردی ہوں اور جسم کے اِس بھاری تھیلے کو کم سے کم کرکے خود کو ہلکا پھلکا بنا لیا ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتاہے کہ وہ خود کو ڈی میٹریلائز کرسکتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم سے اس قدر آگے ہونے کی وجہ سے انہوں نے دیگر سیّاروں پر موجود زندگی یا انسانوں کے ہونے کا کھوج پالیا ہو۔ یا سرے سے اُس زندگی یا انسانیت کے بیج ہی بعض سیّاروں پر خود پھینکے ہوں۔
امکانات سے انکار ہی اصل کفر ہے۔ امکانات ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ دور حاضر کی سائنس تو اسے امکان کہتی ہی نہیں بلکہ ''پیرالل رئیلٹی'' کہتی ہے اور موجودہ کائنات کو یونیورس نہیں بلکہ آبزرویبل یونیورس (قابل ِ مشاہدہ کائنات) کا نام دیتی ہے۔ اور بقول کارل ساگان،
''یہ کائنات، حیات سے چھلک رہی ہے''
اگر ایسا ہے تو ایک نہ ایک دن ہمیں ضرور معلوم ہوجائیگا۔ جس طرح ایک دن ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اگر زمین کو گول مان لیا جائے تو یورپ سے ایشیا تک کا سمندری سفر کرنے سے راستے میں ایک اجنبی اور بالکل نیا براعظم آتاہے، جہاں ہمارے جیسے انسان ہیں۔ کئی صدیوں تک انسان کی حیرت یہ سوچ سوچ کر فزوں ہوتی رہی کہ وہاں انسان کیسے پہنچے ہونگے؟ اور گزشتہ صدی میں کھوج لگایا گیا کہ پچیس ہزار سال پہلے سائبیریا اور الاسکا کے درمیان جمی ہوئی برف تھی۔۔۔۔۔۔۔ تھرتھراتا ہوا پانی نہیں تھا۔ اور ایشیا کے لوگ وہاں سے پیدل براعظم امریکہ پہنچے۔ یہ ایشیأ کے آراواک قبائل تھے۔ قدیم امریکی جنہیں ہم ریڈ انڈینز کہتے ہیں وہ نسلاً ہم ایشیایوں کے بھائی ہیں۔
بالکل اسی طرح کبھی یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم کسی اور سیارے کے بچھڑے ہوئے بچے نکلیں۔ کسی بڑے مرکز کا ٹکڑا ۔ کسی بہت بڑی تقسیم کا حصہ۔ کسی کاسموپولیٹن سوسائٹی کا محض ایک تجربہ۔
زمین تک پہنچنے والے متعدد قسم کے معلوم و نامعلوم پارٹیکلز کوئی مسیجز ہیں یا فقط لہریں؟ فزکس کے لوگ کہتے ہیں کہ اگلے زمانے کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا انٹینا سے رابطہ کٹ جانے کے بعد سکرین پر جو مکھیاں سی آجایا کرتی تھیں اور شور ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ سگنلز ہیں جو کائنات سے آرہے ہوتے ہیں۔ یہ تو ہم سب مانتے ہیں کہ کائنات میں بڑی مِسٹری ہے۔ رازوں سے لبریز یہ تاریک خلا بہت مہیب ہے۔ بے پناہ اسرار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ہیں کہ اس کے ایک ذرّے پر آباد ہیں۔
فرض کریں ہمیں پہلے سے موجود زندگی نہیں ملتی پھر بھی یہ تو یقینی ہے کہ اگر انسان نے خود کو اِن فضول اور بے مقصد لڑائیوں میں ختم نہ کرلیا تو مستقبل کا انسان دیگر سیارے آباد کرنے کا اہل ہوگا۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ایک کاسموپولیٹن سوسائیٹی کے وجود میں آنے کے امکانات کو کوئی نہیں روک سکتا۔ فرض کریں یہ سب آج سے پانچ ہزار سال بعد ہوجائیگا تو پھر ایسا سوچنا کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے ایسا ہوا بھی ہوگا کہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم اسی کے پارچہ جات ہیں جو کبھی نہ کبھی جان جائینگے کہ ہم کیسے، کب اور کہاں بچھڑے تھے۔ تو ایسا سوچنے میں حرج ہی کیا ہے؟۔
ادریس آزاد
اگرچہ مشہور سینٹر لمٹ تھیوری کے ساتھ ہی ایبسولیوٹزم کی کسی حد تک واپسی کے آثار نظر آنے لگ گئے تھے کیونکہ سینٹر لمٹ تھیوری اپنی تمام تر لاجک کے ساتھ ''تقریباً ایبسولیوٹ'' (Approximately absolute) ویلیو نکالنے کی مہارت حاصل کرچکی ہے۔ لیکن اس سے بالکل ہٹ کر تازہ ترین فزکس بالخصوص لارج ہائیڈران کولائیڈر کے لوگ جس تیزیکےساتھسٹرنگ تھیوری کے حق میں ''جہان ِ واحد'' (Universe) کے نظریہ سے منحرف ہوتے جارہے ہیں ، معلوم ہوتاہے بہت جلد ایک بار پھر مطلق کائنات کا تصور سائنس کی دنیا پر غلبہ پالے گا۔ کیونکہ سٹرنگ تھیوری کے مطابق ڈائمینشنز بہت سی ہیں اور جب سٹرنگ تھیوری مزید ایڈوانس ہوتی ہے تو ''برین تھیوری ''میں تبدیل ہوکر بے شمار کائناتوں (Multiverse) کے نظریہ کو اختیار کرلیتی ہے۔
ایسی صورت میں ایک اکیلا بگ بینگ یہ ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہوجاتا ہے کہ کائنات حادث ہے اور وقت کے کسی خاص لمحے میں وجود میں آئی تھی۔اس کے برعکس وہی پرانا عقیدہ کہ کائنات قدیم ہے ، یہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی قوت پکڑتادکھائی دیتاہے۔
کائنات کے بارے میں اب تک جانا گیا علم ،حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کی تصدیق کرتاہوا اب باہمی اتحادواتصال کے آخری مراحل میں سے گزرتا ہوا نظرآرہاہے۔ ہزاروں سال تک مادہ اور انرجی کو الگ الگ اجزائے کائنات سمجھا جاتاتھا۔ اب مادہ اور انرجی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات اور انرجی کے چھوٹے سے چھوٹےذرات ایک دوسرے میں نہایت آرام سے بدل جاتے ہیں۔ مادہ توانائی اور توانائی مادہ بن جاتی ہے۔
فلہذا مادے کی نئی تعریف یہ ہے ہی نہیں کہ ''وہ جسم جو جگہ گھیرے''۔۔۔۔۔کیونکہ توانائی کوئی جگہ نہیں گھیرتی اور مادہ بھی توانائی کی ہی ایک شکل ہے اس لیے اب مادہ اپنی ماہیت میں محض ایک مقدار کا نام ہے۔
بقول کارل ساگان۔۔۔۔۔۔۔ ''مادہ کیا ہے؟ محض رفتاروں کا تناسب''۔ نہ صرف مادہ اور توانائی نے عہد ِ حاضر میں وصل پایا ہے بلکہ توانائی کی مختلف لہریں جنہیں نوع کے اعتبار سے الگ الگ سمجھا جاتا تھا تقریبا سب کی سب ہی اب ایک ہی دھاگے سے بندھ چکی ہیں۔ اسی لیے ایم تھیوری کو ''تھیوری آف ایوری تھنگ ''کہا جاتاہے۔
اگرچہ کائنات کی جادونگری میں ہوتا عموماً یوں ہے کہ جب منزل پرجاپہنچتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ وہ تو اصل راستے کی کھڑکی تھی۔ ماضی میں جب انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ زمین گول ہے اور وہ اسے چپٹی سمجھتا تھا تو وہ زمین کو آسمان کے نیچے لامتناہی طور پر پھیلاہوا بھی محسوس کرتاتھا۔کیونکہ اساطیر سے معلوم ہوتاہے کہ انسان خشکی کے اختتام پر سمندر اور سمندر کی حدود کو لامتناہی تصور کرتاتھا۔ اس زمانے میں جب سمندری سفرکے دوران کوئی نیا جزیرہ ملتا تو انسان کو عجب خوشی محسوس ہوتی۔ پھر جب براعظم ہی نئے ملنے لگے تو لوگ وہاں سے آنے والوں سے پوچھا کرتے تھے کہ وہاں جو انسان بستے ہیں کیا اُن کی شکلیں بھی ہمارے جیسی ہیں؟
بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے ''تاریخ ِ عالم'' میں لکھاہے،
شمال سے آنے والے بعض سوداگروں سے میں نے سنا ہے کہ شمال میں بہت اوپر جاکر۔۔۔۔سیتھیا سے اُس طرف۔۔۔۔۔۔ ایک آنکھ والے انسان آباد ہیں۔
ایک جگہ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے،
'' تیز ہوائیں جب سورج کو پرے دھکیل دیتی ہیں تو نیل کے اُتار چڑھاؤ میں فرق آنے لگتاہے''۔
اُس زمانے میں اگر کوئی کسی کو بتاتا کہ زمین گول ہے تو لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے، اگرچہ ڈیماکریٹس جیسے لوگ اس زمانے میں بھی زمین کے گول ہونے کا خاطرخواہ ادراک رکھتے تھے۔ لیکن اُس وقت ان کے تصورات جنّاتی اور مبہم سمجھے جاتے تھے، جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ پھر ایک وقت آیا جب انسان کو پتہ چلا کہ زمین گول ہے اور یہ ایک سیارہ ہے۔کسی ایک انسان کو نہیں۔ سیارۂ زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو پتہ چل گیا کہ زمین گول ہے۔ تو اُن کا منطقی فہم بھی اس نئے تصور کو
قبول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب انسان صرف اپنے سورج اور اس کے سیاروں کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔ پھر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اُسے پتہ چلا ۔۔۔۔۔۔ سورج تو خود ایک معمولی ستارہ ہے۔ اس جیسے کتنے ہی ستارے اور ہیں۔ اصل کائنات تو ملکی وے ہے۔ انیس سو بیس (1920) تک انسانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ملکی وے کے علاوہ بھی اس کائنات میں کہکشائیں ہیں ۔
جب یہ پتہ چلا کہ کائنات بہت بڑی ہے اور اس میں ملکی وے جیسی بلکہ اسے کئی کئی گناہ بڑی لاکھوں کروڑوں کہکشائیں اور بھی ہیں تو وہ اس یقین کے ساتھ جینے لگا کہ چلو! کائنات کا اس حد تک تو پتہ چلا کہ اس کی حدود وہاں تک ہیں جہاں تک تقریباً چودہ بلین سال میں مادہ پہنچا ہوگا۔ اور انسان پھر ایک مرتبہ ایک محدود سفیئر (کُرے) میں رہنے لگا۔ بالکل ویسے جیسے بہت پہلے رہتا تھا۔ جس طرح سمندر میں مچھلی کا رہنا جبر ہے بالکل اسی طرح انسان ایک گنبد کی تاریکی میں رہنے پر مجبور کیوں ہے؟ کیا فکر کا وہی سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اب تک رہا؟ خشکی کے ایک ٹکڑے سے دوسرے ٹکڑے تک کا سفر ہو یا ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک کا۔۔۔۔۔۔ ایک کہکشاں سےدوسری کہکشاں کا یا کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ سے دوسرے جھرمٹ کا۔۔۔۔۔ قانون تو یہی رہا ہے کہ وہ گنبد، وہ محدود سفئیر جس میں ہم رہتے ہیں پہلے سے بڑی ، کھلی اور وسیع ہوتی چلی گئی ہے تو اب کیوں نہیں؟
کائنات کے موجودہ معلوم سٹرکچر پر بات ختم نہیں ہوجاتی۔ لگتاہے ہم نے ابھی صرف پہلی کائنات دریافت کرلی ہے۔ اور اب کائناتیں دریافت ہونے کا وقت ہے۔کوانٹم، سٹرنگ تھیوری، برین تھیوری، مینی ورلڈ تھیوری، ملٹی ورس تھیوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِن سب کا مسلسل اصرار ہے کہ بات بگ بینگ سے شروع نہیں ہوتی۔ کہانی بہت لمبی ہے۔اگر بِگ
بینگ اپنی نوع میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک سلاسل ِ بگ بینگ کا وجود ہے تو پھر آغاز اور اختتام کا نظریہ یقیناً ایک بار پھر ایبسولیوٹزم کا شکار ہوجائیگا۔
گزشتہ صدی میں سب سے پہلے فزکس میں ایبسولیوٹزم کے خاتمے کے بعد ہی دیگر شعبہ ہائے حیات سے اِس کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اب دوبارہ سب سے پہلے فزکس ہی کائنات کے مطلق ہونے کی طرف واپس جانا چاہتی ہے، ہرچند کہ یہ واپسی مختلف ہے اور اب خلائے مطلق پہلے سے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ہے جس میں ایک نہیں لامتناہی کائناتیں سما سکتی ہیں لیکن رہے گی وہ پھر بھی خلا ہی۔ یہاں میں نے وقتی طورپر مکان کی جگہ ''خلا(Void)'' کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے۔ یعنی وہ مکان (Space) نہ سہی جسے ہماری کائنات کے مادے نے تخلیق کیا بلکہ وہ ''خلا''سہی جو کسی تصورِ محض کی طرح لامتناہی وجود رکھتی ہے۔جس طرح مولانا محمد حسین آزاد نے ''انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا'' میں لکھا ہے کہ ''میدان، میدان ِ خیال سے بھی بڑا میدان''۔۔۔۔۔ ایسا ہی میدان ِ عالمین جہاں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہزاروں نئے بگ بینگ ہوتے ہیں اور لاکھوں نئی کائناتیں وجود میں آتی ہیں۔ایسی ''خلائے مطلق ''کا آغاز کہاں سے ہوگا اور انجام کہاں تک تصور میں لایا جاسکتاہے؟
ملٹی ورس کبھی ثابت ہوگئی تو جو دیومالائیت علم ِ انسانی کا حصہ بننے والی ہے اس کا خواب کبھی مذہب نے بھی نہ دیکھاہوگا۔ تمام تر اساطیر اور مذاہب کے تمام تر قصے اُس طلسم ہوشربا کے سامنے ہیچ نظر آئینگے جس کی پٹاری کا نام لارج ہائیڈران کولائیڈ (LHC)ہے۔
سٹرنگ تھیوری ایک نہیں ہے۔ پانچ مختلف ٹیموں نے ، دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بیٹھ کر پانچ مختلف تھیوریز کئی سال تک ڈیولپ کیں اور پھر جاکر 97ء کی ایک کانفرنس میں وہ پانچ تھیوریز آپس میں ملائی گئیں تو سب لوگ مختلف رنگ میں ایک ہی قسم کے نتائج پر پہنچے تھے۔اور یوں ایک مشترکہ سٹرنگ تھیوری جسے ''ایم تھیوری'' کے نام سے پکارا جاتاہے ہے سامنے آئی۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاضی کی حد تک ثابت ہونے والی تھیوریز پر کیونکر حقیقت ہونے کا گمان کیا جائے؟ لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمیشہ ریاضی سب تھیوریز کے آگے آگے چلتی ہے۔
مثلاً آئن سٹائن کی ریاضی پر جب آئن سٹائن کے بعد کام شرو ع ہوا تو نہ صرف کوانٹم نے بے شمار انوکھی تھیوریز پیش کردیں بلکہ ، اینٹی میٹر،بلیک ہولز، ڈارک انرجی اور بے شمار دیگر ریاضیاتی مساواتیں سامنے آئیں جو بہت کم وقفے میں ریاضی سے فزکس میں تبدیل ہوکر تجربات سے ثابت بھی ہوگئیں۔چنانچہ آج اگر اسی سلسلے کی ایک بہت خوفناک کڑی کے طور پر سٹرنگ تھیوری اورزیادہ بڑے نام کی شکل میں ''ایم تھیوری ''یا زیادہ جدید نام کی شکل میں ''برین تھیوری'' ریاضی کی مساواتوں میں ثابت ہورہی ہے تو کل کو اس کے فزکس بن جانے اور تجربے کی بھٹی سے گزر جانے کے امکانات بھی کم نہیں ہیں۔
اگر خدا نخواستہ برین تھیوری درست ثابت ہوجاتی ہے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ یہ طے ہے کہ جتنا کچھ ہم جانتے ہیں یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل جائےگا۔ انسان خود اس قابل ہوجائے گا کہ اس کائنات جیسی کئی کائناتیں تخلیق کرسکے۔''کائنات، حیات سے چھلک رہی ہے''
یہ بات کہ اور سیّاروں پر بھی زندگی ہوسکتی ہے اتنی ہی قرین ِ قیاس ہے جتنی آج سے پانچ سو سال پہلے تک یہ بات قرین ِ قیاس تھی کہ اور بر ہائے اعظم پر بھی زندگی ہوسکتی ہے۔ جس طرح دوسرے براعظموں پر زندگی آہستہ آہستہ دریافت ہوئی اسی طرح اور سیّاروں پر بھی زندگی آہستہ آہستہ ہی دریافت ہوگی۔ البتہ وہ دن جب پہلی بار پتہ چلے گا کہ کسی اور سیّارے پر بھی حیات موجود ہے ہم اہل ِ زمین کے لیے بڑا پُرتجسس دن ہوگا۔ شاید ایک نئی تقویم (سَن) کا بھی آغاز ہو۔
صرف یہی نہیں کہ وہاں محض زندگی ہوسکتی ہے جو ہماری ہی کوئی کالونی بنے گی بلکہ یہ کہنا کہ کائنات میں اور انسان بھی ہوسکتے ہیں قطعاً بعید از قیاس نہیں۔ اگرچہ سائنس دانوں نے ہر طرح کی حیات کے امکانات پر غور کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ کارل ساگان ایک سیّارے پر نائٹروجن میں سانس لینے والے زندہ غبارے جو بڑی بڑی جیلی فش نما جاندار ہیں تصور کرتاہے۔ یہ جیلی فش نما جاندار دور سیارے کی سطح سے بہت اُوپر بادلوں میں اُڑتے پھرتے ہیں کیونکہ اُس سیارے کی سطح ٹھوس نہیں ہے۔لیکن اس طرح کی حیات کے ساتھ ساتھ بعینہ ایسی زندگی جیسی ہماری زمین پر پروان چڑھی ۔۔۔۔۔۔ کے پائے جانے کے بھی قوی امکانات ہیں۔
فرض کریں کسی اور سیّارے پر انسان ہیں۔ بالکل ایسے انسان جیسے ہم ہیں۔ فرض کریں وہ سیّارہ ہماری کہکشاں میں بہت دور یا کسی اور کہکشاں میں واقع ہے اور فرض کریں کہ وہ انسان ہم سے تاریخ میں بہت آگے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ہم سے دس ہزار سال ایڈوانس ہیں، تو یقیناً ان کی ٹیکنالوجیز ہماری ٹیکنالوجیز سے بالکل مختلف ہونگی۔ ہوسکتاہے وہ مشینی زندگی کی بجائے کسی اور میٹریل سے کام لیتے ہوں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے سیارے کا سارا نظام بائیو میکینکل بنالیا ہو۔ جینٹک انجنئرنگ کی ترقی کی موجودہ رفتار دیکھ کر لگتاہے کہ فقط ایک صدی بعد انسان ہرطرح کے جانور تخلیق کرنے پر قادر ہونگے۔ پودے، پرندے اور جراثیم تو تخلیق کربھی رہے ہیں۔ کسی خبر میں پڑھا تھا کہ امریکہ میں ایک ایسا بیکٹیریا پیدا کیا گیا ہے جس کا فضلہ اعلیٰ قسم کا پلاسٹک ہے۔
ابتدائی تجربات کی کامیابی کے بعد ان بیکٹیریاز کی فیکٹری لگانے کا منصوبہ زیر ِ غور ہے۔ چنانچہ اگر کسی اور سیّارے پر زندگی ہوئی اور وہ لوگ سچ مچ ہم سے بہت زیادہ ایڈوائنس ہوئے تو ہوسکتاہے انہوں نے ڈارک میٹر دریافت کرلیا ہو یا اُن کے پاس اینٹی میٹر کی کافی ساری مقدار موجود ہو اور یوں توانائی کا مسئلہ ان کے ہاں وجود ہی نہ رکھتاہو یا وجود رکھتا ہو تو اس سے بھی زیادہ توانائی ان کا مقصود ہو۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ انہوں نے اِس جسمانی ہییت میں جان بوجھ کر تبدیلیاں کردی ہوں اور جسم کے اِس بھاری تھیلے کو کم سے کم کرکے خود کو ہلکا پھلکا بنا لیا ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتاہے کہ وہ خود کو ڈی میٹریلائز کرسکتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم سے اس قدر آگے ہونے کی وجہ سے انہوں نے دیگر سیّاروں پر موجود زندگی یا انسانوں کے ہونے کا کھوج پالیا ہو۔ یا سرے سے اُس زندگی یا انسانیت کے بیج ہی بعض سیّاروں پر خود پھینکے ہوں۔
امکانات سے انکار ہی اصل کفر ہے۔ امکانات ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ دور حاضر کی سائنس تو اسے امکان کہتی ہی نہیں بلکہ ''پیرالل رئیلٹی'' کہتی ہے اور موجودہ کائنات کو یونیورس نہیں بلکہ آبزرویبل یونیورس (قابل ِ مشاہدہ کائنات) کا نام دیتی ہے۔ اور بقول کارل ساگان،
''یہ کائنات، حیات سے چھلک رہی ہے''
اگر ایسا ہے تو ایک نہ ایک دن ہمیں ضرور معلوم ہوجائیگا۔ جس طرح ایک دن ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اگر زمین کو گول مان لیا جائے تو یورپ سے ایشیا تک کا سمندری سفر کرنے سے راستے میں ایک اجنبی اور بالکل نیا براعظم آتاہے، جہاں ہمارے جیسے انسان ہیں۔ کئی صدیوں تک انسان کی حیرت یہ سوچ سوچ کر فزوں ہوتی رہی کہ وہاں انسان کیسے پہنچے ہونگے؟ اور گزشتہ صدی میں کھوج لگایا گیا کہ پچیس ہزار سال پہلے سائبیریا اور الاسکا کے درمیان جمی ہوئی برف تھی۔۔۔۔۔۔۔ تھرتھراتا ہوا پانی نہیں تھا۔ اور ایشیا کے لوگ وہاں سے پیدل براعظم امریکہ پہنچے۔ یہ ایشیأ کے آراواک قبائل تھے۔ قدیم امریکی جنہیں ہم ریڈ انڈینز کہتے ہیں وہ نسلاً ہم ایشیایوں کے بھائی ہیں۔
بالکل اسی طرح کبھی یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم کسی اور سیارے کے بچھڑے ہوئے بچے نکلیں۔ کسی بڑے مرکز کا ٹکڑا ۔ کسی بہت بڑی تقسیم کا حصہ۔ کسی کاسموپولیٹن سوسائٹی کا محض ایک تجربہ۔
زمین تک پہنچنے والے متعدد قسم کے معلوم و نامعلوم پارٹیکلز کوئی مسیجز ہیں یا فقط لہریں؟ فزکس کے لوگ کہتے ہیں کہ اگلے زمانے کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا انٹینا سے رابطہ کٹ جانے کے بعد سکرین پر جو مکھیاں سی آجایا کرتی تھیں اور شور ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ سگنلز ہیں جو کائنات سے آرہے ہوتے ہیں۔ یہ تو ہم سب مانتے ہیں کہ کائنات میں بڑی مِسٹری ہے۔ رازوں سے لبریز یہ تاریک خلا بہت مہیب ہے۔ بے پناہ اسرار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ہیں کہ اس کے ایک ذرّے پر آباد ہیں۔
فرض کریں ہمیں پہلے سے موجود زندگی نہیں ملتی پھر بھی یہ تو یقینی ہے کہ اگر انسان نے خود کو اِن فضول اور بے مقصد لڑائیوں میں ختم نہ کرلیا تو مستقبل کا انسان دیگر سیارے آباد کرنے کا اہل ہوگا۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ایک کاسموپولیٹن سوسائیٹی کے وجود میں آنے کے امکانات کو کوئی نہیں روک سکتا۔ فرض کریں یہ سب آج سے پانچ ہزار سال بعد ہوجائیگا تو پھر ایسا سوچنا کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے ایسا ہوا بھی ہوگا کہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم اسی کے پارچہ جات ہیں جو کبھی نہ کبھی جان جائینگے کہ ہم کیسے، کب اور کہاں بچھڑے تھے۔ تو ایسا سوچنے میں حرج ہی کیا ہے؟۔
ادریس آزاد
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔