’’سٹرنگ تھیوری‘‘
کو سمجھنے کی کوشش (تیسرا حصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 1968 کی
بات ہے۔ میری پیدائش سے صرف ایک سال پہلے کی۔ اٹلی کے ایک نوجوان ماہر ِ طبیعات
’’گیبریئل وینزیانو‘‘ (Gabriel Veneziano) جو سٹرنگ تھیوری کے حوالے
سے خاصی شہرت رکھتے ہیں، اِس تھیوری کے ریوائیول (Revival) کا حادثاتی
طور پر موجب بنے۔
ریوائیول کا مطلب
ہوتاہے ، ’’حیاتِ نو‘‘ ۔ تو کیا سٹرنگ تھیوری کو ’’حیاتِ اوّل‘‘ بھی کبھی ملی تھی؟
جی ہاں! سٹرنگ تھیوری آج تک نظرانداز کیے جانے والے نظریات میں سب سے زیادہ مظلوم
تھیوری ہے۔
سٹرنگ
تھیوری کو لگ بھگ ایک صدی ہوگئی ہے لیکن اب آکر اِس پر پہلی بار اتنی سنجیدگی سے
کام شروع ہوا ہے۔ سٹرنگ تھیوری کا بابا آدم بجا طور پر ، ’’تھیوڈور کلُوزا‘‘(Theodor Kaluza) کو کہا جاسکتاہے۔اِسی لیے ’’گیبریئل وینزیانو‘‘ کو ہم بابا آدم ثانی
کا نام دینگے۔کلُوزا 1885 میں پیدا ہوا اور 1954 میں وفات پائی۔
آئن سٹائن کی’’
جنرل تھیوری آف ریلیوٹوٹی‘‘ میں سپیس ٹائم کو ایک لچکدار فیبرک کہا گیا تھا۔ ایک
ایسی فیبرک جو ربڑ سے بھی زیادہ لچکدار ہے۔ اس میں مادے کی حرکت سے ایسی موجیں
پیدا ہوتی جیسی سمندر کے پانی میں پیدا ہوتی ہیں۔حال ہی میں ہم نے ایسی ہی ایک موج
کو زمین پر ڈیٹکٹ کیا ہے جسے سردرست سائنس کی سب سے بڑی دریافت قراردیا جارہاہے۔
آئن سٹائن کی
فیبرک کو دیکھ کر تھیوڈور کلُوزا کو خیال آیا کہ روشنی کی شعاعیں بھی تو فقط
موجیں ہیں ، سو اُصولاً انہیں بھی لچکدار ہونا چاہیے، کسی ربربینڈ کی طرح۔ اسی طرح
ان کی بھی فیبرک ہونی چاہیے۔بالکل ایسی فیبرک جیسی سپیس ٹائم کی فیبرک ہے کیونکہ
روشنی بھی سپیس ٹائم کی طرح ہرجگہ یکساں موجود ہے اور سب سے بڑی بات کہ روشنی
اورگریوٹی (سپیس ٹائم فیبرک) کی موج کی رینج بھی ایک دوسرے کے برابر ہے۔
روشنی چونکہ
الیکٹرومیگانٹک فورس ہے اس لیے کلوزا نے سوچا کہ سپیس ٹائم کی طرح الیکٹرمیگانٹک
فورس کی بھی اپنی فیبرک ہوسکتی ہے۔لیکن الیکٹرومیگانٹک فورس کے لیے اُس کے پاس جگہ
نہیں تھی۔ سپیس اور ٹائم کی ساری جگہ تو آئن سٹائن نے جنرل تھیوری کے ذریعے اپنی
مقبوضہ بنالی تھی۔روشنی کے لیے سپیس اور ٹائم کے کوئی معنی نہیں تھے۔ کیونکہ سپیشل
تھیوری آف ریلیٹوٹی کی وجہ سے روشنی کی رفتار پر وقت زیرو ہوجاتا تھا۔ کلوزا کو
سپیس ٹائم کی ڈائمینشز سے نکل کر سوچنا تھا۔
آئن سٹائن کو
تھیوڈور کلُوزا کے پیپر سے اتنی دلچسپی تھی کہ وہ دوسال بے چینی سے کلُوزا کی
ریسرچ کے شائع ہونے کا انتظارکرتارہا۔ آخر کلوزا کا پیپر شائع ہوا ۔ لیکن اس نے
پہلے سے موجود چار ڈائمینشنز میں ایک پانچویں ڈائمنشن کا اضافہ کردیا۔ یہ بات اُس
زمانہ کے منطقی فہم کے لیے تصور میں لانا ہی ناممکن کے قریب تھی۔ وہ لوگ تو ابھی
آئن سٹائن کی چوتھی ڈائمنشن کو بھی ٹھیک سے سمجھ نہ پارہے تھے۔ پانچویں ڈائمینشن
کا خیال انسانی ذہن کو اضافی بوجھ محسوس ہوا اور تھیوڈور کلوزا کے پیپر کو جلد ہی
نظرانداز کردیا گیا۔
حالانکہ کلوزا نے
خونِ جگر صرف کرکے ایکسٹرا ڈائمنشن دریافت کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اتنا جذباتی
انسان تھا کہ اُس نے محض پانچویں ڈائمنشن کو تصور کی گرفت میں لانے کے لیے تیراکی
سیکھی۔وہ گہرے پانی میں کود جاتا تھا اور ہاتھ پاؤں مار کر یہ محسوس کرنے کی کوشش
کرتا کہ آیا سپیس کی ڈائمنشنز سے بڑھ کر کسی اور ڈائمنشن کو تصور میں لایا
جاسکتاہے؟
آپ گہرے پانی میں
خود کو تصور کریں، جب زمین کے ساتھ ہمارے پیر نہ لگ رہے ہوں۔ اس وقت سپیس کا تصور
قدرے مختلف ہوتاہے۔دائیں بائیں، آگے پیچھے اور اوپر نیچے کا تصور بھی تھوڑا بہت
گڑبڑا جاتاہے۔ہم اگر مچھلی ہوتے تو شاید ہم سپیس کی ڈائمینشز کو اس طرح نہ سوچتے جس
طرح ہم یہاں زمین پر سوچ لیتے ہیں۔زمین پر بھی دیگر جانداروں کے لیے ڈائمنشنز کا
تصور مختلف ہے۔
مثلاً چیونٹی یا
اس جیسے کیڑے مکوڑوں کو صرف ایک ڈائمنشن کا شعور رکھنے والی مخلوق سمجھا جاتاہے۔
چوپائیوں کو دو
ڈائمنشنز کا شعور رکھنے والی مخلوقات سمجھا جاتاہے۔
انسان دوپاؤں پر
کھڑا ہوسکتاہے۔ سامنے دیکھ سکتاہے۔ انسانوں کو افقی، عمودی اور عبوری۔۔۔۔۔۔۔۔ تین
ایکسز کا تصورملاہے۔ وہ دائی بائیں، اوپر نیچے اور آگے پیچھے کو تصور میں
لاسکتاہے۔
پرندہ بلندی سے
نیچے دیکھتاہے اور فضا میں ہرطرف اُڑسکتاہے۔ پرندے کے لیے جہات کا تصور کیسا ہوگا؟
یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوالات تھے جنہوں نے تھیوڈور کلوزا کو مجبور کیا کہ وہ
ہماری معلوم ڈائمنشنز سے بڑھ کر ایکسٹراڈائمنشنز کو تصور میں لائے۔ چنانچہ کلوزا
نے پانچویں ڈائمنشن کا اضافہ کردیا۔ کلوزا کے اسی نظریہ کو بنیادی طور پر سٹرنگ
تھیوری کی ابتدأ سمجھا جاتاہے۔ لیکن چونکہ پانچویں ڈائمینشن ابھی انسان کے بس کی
بات نہ تھی اس لیے اس تھیوری کو بھلا دیا گیا۔
یہ زمانہ آئن
سٹائن کے نظریہ ہائے اضافیت کی شہرت کے ابتدائی دنوں کا زمانہ تھا۔بڑے بڑے عالی
دماغ جیساکہ برٹرینڈ رسل اور اوس پنسکی جیسے لوگ آئن سٹائن کے’’ ٹائم‘‘ کو سپیس
کی چوتھی ڈائمینشن کے طور پر سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔
علامہ اقبال
بھی اُس دور کے ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو اضافیت اور جدید فزکس کے ٹائم
اینڈ سپیس کو سمجھنے میں بے پناہ دلچسپی رکھتے تھے۔اقبال کے بقول، اوس پنسکی نے
اپنی کتاب ’’ٹیرٹیم آرگینم‘‘ (Tertium Organum) میں (آئن سٹائن کی
تشریح کرتے ہوئے )ٹائم کو سپیس کی ہی چوتھی ڈائمینشن تصورکرکے گویا مستقبل کے وجود
کو متعین قرار دیا تھا۔ اقبال کا خیال تھا کہ اگر مستقبل کا وجود پہلے سے متعین
مان لیا گیا تو انسان کے پاس اختیار اور ارادے کے کچھ معنی نہیں رہ جاتے اور اگر
اختیار و ارادہ بے معنی ہوگئے تو عمل کا کوئی مقصد باقی نہیں بچتا‘‘۔لیکن اقبال
اگر اس وقت تھیوڈورکلُوزا سے ملے ہوتے یا اُس کے اکتشافات کا مطالعہ کیا ہوتا تو
برگسان کی طرح اُ سے بھی پسند کرتے۔
سٹرنگ تھیوری نے
انسان کو اُس سے چھینا ہوا اختیار واپس لوٹادیاہے۔سٹرنگ تھیوری کی پانچویں ڈائمنشن
ہے ہی امکانات میں واپس جانے اور ان کے ازسرنو چناؤ کرسکنے کی اہلیت کی
ڈائمینشن۔کیونکہ یہ ڈائمنشن بھی فولڈ ہوسکتی ہے۔کوئی بھی ڈائمینشن جو فولڈ ہوسکتی
ہے اس میں فولڈ ہوکر واپس اپنے پہلے سرے کے ساتھ جُڑجانے کی صلاحیت ہوتی ہے، جیسا
کہ تیسری ڈائمینشن ہے۔ تیسری ڈائمینشن بھی دوسری ڈائمینشن کا فولڈ ہے اور اس کا
ہرسرا پھر دوسری ڈائمنشن کے ساتھ جڑجاتاہے۔
آپ کاغذ کا ایک
ٹکڑا لیں اور اسے رول کرلیں۔ ایک طرف کا سرا دوسری طرف کے سرے سے جاملے گا۔ایک سرے
پر چلتی ہوئی چیونٹی ، وہیں سے دوسرے سرے پرچلی جائے گی۔جبکہ کاغذرول ہوکر
ٹوڈائمنشنل سرفس نہ رہیگا بلکہ اب وہ تھری ڈائمنشنل وجود بن چکاہوگا۔ کیونکہ وہ
رول ہوچکاہے۔اب اس میں ایکس وائی سرفس کے علاوہ زیڈ محور بھی ہے۔ کیونکہ وہ رول
ہوچکاہے۔وہ تھری ڈی تو بنا لیکن ٹوڈی فولڈ ہوئی تو وہ تھری ڈی بنا۔ ایسے ہی
پانچویں ڈائمنشن بھی فولڈ ہوجانے والی ڈائمنشن ہے۔
یہ ساری گفتگو جو
ابھی اِس پیرے میں ہوئی ، مشکل تھی۔ خاص طور پر پانچویں ڈائمنشن والی بات۔ لیکن
میرا مدعا فقط اتناہے کہ ایک تو اقبال کی طرح بہت سے دیگر فلسفیوں کا یہ سمجھنا کہ
آئن سٹائن کے زمانے میں مستقبل پہلے سے متعین ہے جو انسان سے اس کا اختیار چھین
لیتاہے، درست نہیں۔
سٹرنگ تھیوری کے
فزسسٹس تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اپنے فیصلے ، یا کسی اور کے فیصلے یا حالات کی وجہ سے
اپنی یونیورس تبدیل کر لیتے ہیں، جس کا ضروری نہیں کہ ہمیں پتہ بھی چلے۔سٹرنگ
تھیوری سے بہت پہلے کوانٹم فزکس کے بعض لوگ بٹرفلائی ایفکٹ نامی ایک سائنسی اصطلاح
کی مدد سے اِسی فکشن کا اظہار کیا کرتے تھے اور ابھی تک کرتے ہیں۔اس تھیوری کو
کوانٹم سپرپوزیشن کی وجہ سے ملٹی ورس کی بجائے مینی ورلڈز تھیوری کہا جاتاہے۔اس
میں بھی ہرامکان حقیقی ہے لیکن ہمیں معلوم امکان صرف وہی ہے جسے ہم نے اپنے مشاہدے
سے مشہود کیا۔
تھیوڈور
کلوزا کے کام کو نظر انداز کردیا گیا۔پھر 1968 میں ’’گیبریئل وینزیانو‘‘ (Gabriel Veneziano) نے ایک حادثے میں ازسرنو ایکسٹراڈائمنشنز کی تھیوری یعنی سٹرنگ
تھیوری کو دریافت کیا۔گیبریئل کسی ایسی مساوات کی تلاش میں تھا جو سٹرانگ نیوکلئر
فورس کو بیان کرسکنے کی اہل ہوتی۔
اس مضمون کے سابقہ
حصوں میں میں نے فطرت کی چار بنیادی فورسز کا تعارف کروایاہے۔ ان میں سب سے پہلی
فورس یہی سٹرانگ نیوکلئر فورس ہے۔ جن احباب نے وہ مضمون پڑھا تھا اب ان کے لیے یہ
بات سمجھنا اتنا مشکل نہ ہوگا۔سٹرانگ نیوکلئر فورس کسی ایٹم کے نیوکلیس میں پائی جاتی
ہے۔
اسی طاقت کی وجہ
سے ایٹم میں موجود پروٹانز اور نیوٹرانز آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت پَکا
جُڑکر اور چمٹ کررہتے ہیں۔
خیر! تو گیبریئل
کو کسی ایسی مساوات کی تلاش تھی جو سٹرانگ فورس کو کماحقہُ بیان کرسکتی۔اس نے
دوسال پرانی میتھ کی ایک کتاب جو کسی سوئس ریاضی دان ’’لیونارڈ وائلر‘‘ نے لکھی
تھی، اسی مقصد کے لیے پڑھی اور وہ حیران رہ گیا۔ وائلر کی مساوات سٹرانگ نیوکلئر
فورس کو بیان کرنے کے لیے کافی تھی۔گیبریئل کا پیپر شائع ہوا تو مشہور تھیوریٹکل
فزسسٹ ’’لیونارڈ سسکن‘‘ کو اس کے ساتھ غیر معمولی دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اسے اس میں
سٹرانگ فورس سے بڑھ کر کچھ اور بھی نظر آرہا تھا۔
دو ماہ تک سسکن نے
غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ایٹم کے بنیادی ذرّات، شاید ذرّات سے زیادہ کوئی
سٹرنگز ہیں۔کوئی دھاگے سے ہیں جو ہروقت پھدکتے، تھرکتے اور وائبریٹ ہوتے رہتے
ہیں۔سسکن نے جتنا غور کیااُسے یہی لگا کہ ایٹم میں سے دریافت ہونے والے آئے روز
کے نئے نئے ذرّاات دراصل انرجی کی لہریں ہیں جو سٹرنگز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
یہ ذرّات نہیں ہیں یہ سٹرنگز ہیں۔ سٹرنگز باریک ریشے ہیں، جو کہ بے پناہ لچکدار
ہیں اور تین ڈائمنشنز سے زیادہ ڈائمنشنز میں حرکت کرسکتے ہیں ۔ سسکن کا پیپر مسترد
کردیا گیا۔ لوگ ذرّات کو پسند کرتے تھے۔ سٹرنگز کا تصوران کے لیے محال تھا۔ اور
خاص طور پر یہ وہ زمانہ تھا جب ہرروز نئے سے نئے ذرّات دریافت ہورہے تھے۔
پرانے لوگ تو فقط
اتنا جانتے تھے کہ ایٹم میں کل تین بنیادی ذرّات ہوتے ہیں۔ الیکٹران، پروٹان اور
نیوٹران۔ لیکن ستر کی دہائی میں ذرّات کی بارش شروع ہوگئی۔ ماہرین ِ فزکس ہرمہینے
ایٹم کے کسی نئے ذرّے کی دریافت کا اعلان کردیتے تھے۔اومیگا پارٹکلز، بی پارٹکلز،
بی ون پارٹکلز، بی ٹو پارٹکلز وغیرہ وغیرہ۔ حروف ِ تہجی کم پڑگئے لیکن ذرّات تھے
کہ ہرروز دریافت ہورہے تھے۔اس دور میں ماہرین ِ فزکس نے ایٹم کے ذرّات کی ایک پوری
آبادی دریافت کرڈالی۔
سٹیون وائن برگ کے
بقول،
’’کوئی طالب علم
فزکس ڈییارٹمنٹ کے ہال سے چیختاہوا نکلتا اور اعلان کرتا۔ ارے سنو! ارے سنو! ایک
اور پارٹکل دریافت ہوگیاہے۔‘‘
پارٹکل کے اس رش
میں سائنسدان خوش تھے۔ وہ خوش تھے کہ وہ مادے کے بنیادی بلڈنگ بلاکس کو سٹیونبڑی
تیزی سے دریافت کررہے ہیں اور ایک دن ان پارٹیکلز کومکمل طور پر دریافت کرلینگے۔
کیونکہ آخر ایک ایٹم میں کتنے کچھ پارٹکل ہوسکتے ہیں؟انہوں نے سٹرنگ تھیوری کو
مکمل طور پر بھلا دیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ کائنات کو ذرات کی زبان میں بیان
کیاجاسکتاہے۔ یہی وجہ تھی کہ انرجی کی چار قوتوں کے پارٹکلز کو ڈھونڈا اور
یونیفائی کیا جارہا تھا۔
یہاں ہم ایک بات
سمجھتے چلیں۔ہم اس مضمون کے پہلے حصے میں دیکھ آئے ہیں کہ مادے کے ذرات الگ ہوتے
ہیں اور توانائی کے ذرات الگ ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ آئے ہیں کہ مادے کی ذرات
روشنی کی رفتار سے کم رفتار پر سفر کرتےہیں اور توانائی کے ذرّات غیر مادی ہونے کی
وجہ سے روشنی کی رفتار پر سفر کرتے ہیں۔اگر دو مادی ذرات کے درمیان کوئی توانائی
کا ذرہ بار بار سفرکرے تو ہم اسے میسنجر پارٹکل کہتے ہیں۔جب دو مادی ذرات کے
درمیان ایک فوٹان بہت زیادہ ایکسچینج آف میسجز کرے تو اُن مادی ذرات کی آپسی کشش
بڑھنے لگتی ہے۔اسی کشش کو ہم فورس کہتے ہیں۔ فطرت کی بنیادی چار فورسز میں سے تین
فورسز کو یونفائی کیا جاچکاہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ان فورسز کے ذرات کو میسنجر
پارٹکل تسلیم کرلیا گیاہے۔چوتھی فورس گریوٹی کی ہے جسے اب تک پہلی تین فورسز کے
ساتھ یونفائی نہیں کیا جاسکا۔
یہ بات کہ یہ سب
پارٹکلز ابتدائے کائنات میں آل ریڈی یونفائیڈ تھے ماہرین ِ طبیعات کے لیے تسلیم
کرلینا کچھ مشکل نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ابتدأ میں کائنات بہت گرم تھی اور اس لیے
الیکٹر میگانیٹ فورس کے پارٹکلز جنہیں فوٹانز کہا جاتاہے اور ویک نیوکلئر فورس کے
پارٹکلز جنہیں بوزانز کہا جاتاہے ابتدائے کائنات کے گرم ترین ماحول میں ایک دوسرے
کے اندر ضم تھے۔ایسی فورس کو الیکٹرو ویک فورس کا نام دیا جاتاہے۔ یعنی الیکٹر
میگانٹک اور ویک نیوکلئر فورس کا مجموعہ۔ماہرین مانتے ہیں کہ اگر کائنات کی ابتدأ
میں ہم مزید پیچھے کی طرف سفر کریں تو سٹرانگ نیوکلئر فورس بھی الیکٹرویک میں ضم
نظرآئے گی۔
جسے ہم ’’سپرفورس
‘‘ کانام دے سکتے ہیں۔
چنانچہ اگر
تھیوڈور کلوزا کا خیال درست تھا تو پھر سپر فورس کے لیے بھی کوئی جگہ ہونا ضروری
تھی۔سٹرنگ تھیوری جسے بار بار نظر انداز کیا جارہا تھا انہی سوالات کے جواب دینے
پر مصر تھی۔سٹرنگ تھیوری کے بار بار مسترد ہوجانے کی ایک وجہ اس میں موجود
ریاضیاتی کمزوریاں تھیں۔ جن میں سے کچھ عام ریاضیاتی غلطیاں تھیں تو کچھ ایسی
بنیادی خامیاں بھی تھیں جو سٹرنگ تھیوری میں موجود بڑے بڑے رخنوں کا پتہ دیتی
تھیں۔ستر ہی کی دہائی میں سٹرنگ تھیوری کے دیوانوں میں سے ایک، یعنی شُورٹز (Schwartz) اُن ریاضیاتی غلطیوں اور رخنوں پر قابو پانے میں بالآخر کامیاب
ہوگیا۔
فزکس یا جدید
فلسفۂ زمان و مکاں میں ان تمام بڑی بڑی تبدیلیوں کی اصل وجہ وہ درد ہے جو بیسویں
صدی کے پہلے ربع میں ماہرین ِ طبیعات کو لاحق ہوگیا تھا۔ آئن سٹائن نے جب انسانوں
کو نیوٹن کی کائنات سے باہر نکال کر کھڑا کردیا تو سائنسدانوں کے ذہن میں سب سے
پہلا خیال یہ آیا کہ کیا ہمارے پاس کائنات کو دیکھنے کا صرف ایک ہی انداز ہے؟ کیا
ہم ہمیشہ آسمان کی طرف ہی سر اُٹھا کردیکھتے رہینگے تاکہ کائنات کو سمجھیں؟ کیا
یہ ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ بڑی بڑی چیزوں کے پیچھے بھاگیں؟ کیا ہم کائنات کو دُور
بین سے ڈھونڈنے کی بجائے خورد بین سے نہیں دیکھ سکتے؟ خاص طور پریورپ اور خصوصاً
ڈنمارک کے سائنسدانوں نے ایٹم جیسے باریک ذرّات کو مطالعۂ کائنات کا موضوع بنایا
اور آئن سٹائن کی تھیوریز کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرنے لگے۔
نتائج عجیب و غریب
تھے۔معلوم ہوا کہ بہت باریک سطح پر نیوٹن ہو یا آئن سٹائن فزکس کے قوانین کام ہی
نہیں کرتے۔ ایٹم کئی ذرّات کا مجموعہ تو ہے لیکن ہم نہیں بتاسکتے کہ وہ ذرات کہاں
ہیں۔ وہ ذرّات کہیں بھی ہوسکتے ہیں۔ ایٹم کے اندر شپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی یا جنرل
تھیوری آف ریلٹوٹی ویسے کام نہیں کرتی جیسے بیرونی کائنات میں کرتی ہے۔ایٹم کے
چھوٹے ذرات کسی موج کی صورت زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی، ’’ہرجگہ موجودہے‘‘
کے مصداق بیان کرنے کی طاقت سے ماورا ہے۔ ان کی موجودگی کا یقین صرف اسی کو
ہوسکتاہے جو انہیں دیکھ رہاہے، جو ان کا مشاہدہ کررہاہے۔ اگر انہیں نہ دیکھا جائے،
ان کا مشاہدہ نہ کیا جائے تو وہ ہمہ وقت ہرجگہ موجود رہتے ہیں۔
یہ تو کچھ بھی ۔
کوانٹم فزکس نے سابقہ تمام علوم کو غیر یقینیت کے حوالے کردیا۔ ماہرین ِ فزکس بری
طرح گھبرا گئے۔ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بس، ’’فزکس ختم ہوگئی۔ جب ہم کائنات
یا اجزائے کائنات میں قوانین کو ہی نہیں جان پائینگے تو کاہے کی فزکس؟‘‘۔
کاسمک سکیل پر
آئن سٹائن کی ہر بات درست تھی لیکن ایٹم کے اندر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کائنات کی
ساخت دراصل کچھ اور ہے۔ بلکہ کچھ ہے ہی نہیں۔ صرف وہی ہے جو ہم اور ہماری مجبور
اور محدود حسیات محسوس کرسکتی ہیں۔مایوسی کے اس عالم میں یہ صرف سٹرنگ تھیوری ہی
تھی جو فزکس کو ابدی موت سے بچاسکتی تھی۔ یہ صرف ریاضی کی مساواتیں ہی تھیں جو اب
کائنات کے ان دو متضاد نظریات کو آپس میں جوڑ سکتی تھیں۔ آئن سٹائن اور کوانٹم
کی صلح بہت ضروری تھی۔ورنہ انسان کائنات کے علوم کو کبھی بھی نہ جان سکتاتھا۔
ستر کی دہائی میں
مایوسی کا یہ بادل اُس وقت چھٹنا شروع ہوا جب شورٹز کو خیال آیا کہ وہ سٹرنگ
تھیوری میں ’’گریوٹی’’ کی موجودگی کے امکان کو نظر انداز کررہاہے۔بس پھر کیا تھا۔
سٹرنگ تھیوری کی تمام تر کمزوریاں اور ریاضیاتی ناکامیاں یکسر حل ہوگئیں۔وہ خفیہ
پارٹکل جسے جان شورٹز ڈھوڈ رہا تھا وہ گریوٹان تھا۔یہ کوانٹم سطح پر گریوٹی
تھی۔پہلی بار ماہرین نے سراُٹھا کرسٹرنگ تھیوری کی طرف قدرے التفات سے
دیکھا۔گریوٹان کے اضافے سے عبدالسلام او رسٹیون کے سٹینڈرڈ ماڈل کے نقائص بھی دور
ہورہے تھے۔ گریوٹان کے اضافے سے آئن سٹائن کے ساتھ پیدا ہوجانے والے جھگڑے بھی
ختم ہورہے تھے اور گریوٹان کے اضافے کے ساتھ سابقہ تین یونفائیڈ فورسز کے ساتھ
چوتھی اور آخری گریوٹی کی فورس بھی یونفائی ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
جلد ہی سٹرنگ
تھیوری کو ’’تھیوری آف ایوری تھنگ‘‘ کہاجانے لگا۔
جاری
۔۔
نوٹ: مضمون
لمباہورہاہے۔ پزل کے بڑے ٹکڑے ابھی جڑنا باقی ہیں۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو ابھی
تک ہم نے سٹرنگ تھیوری کیا ہے؟ اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ ہم نے جو محنت کی ہے وہ
ابھی تک سٹرنگ تھیوری کو سمجھنے کی تیاری میں ہی شمار کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہمیں
فی الحقیقت چاہییں اِن سوالوں کے جواب کہ،
۱۔ سٹرنگز کہاں
ہیں؟
۲۔ وہ کیا ہیں؟
۳۔ساری کائنات
سٹرنگز سے کیسے بنی ہے؟
۴۔ سٹرنگ تھیوری
متوازی کائناتوں کا تصور کس بنا پر پیش کرتی ہے؟
۵۔ ہماری ڈائمنشنز
کے علاوہ سپیس کی جن ڈائمنشنز کا سٹرنگ تھیوری ذکر کرتی ہے، ہم ان کو کس طرح تصور
میں لائیں؟وہ کہاں ہیں؟
۶۔ سٹرنگز وائبریٹ
کیوں ہوتی ہیں؟
۷۔ گریوی ٹانز کسی
ایک کائنات سے دوسری میں کس طرح سفر کرتے ہیں۔
۸۔ کیا ٹائم مشین
بنانا ممکن ہے؟
۹۔
ایکسٹراڈائمینشن میں سٹرنگز ، کس قدر پھیل اور سکڑ سکتی ہیں؟
۱۰۔ایکسٹراڈائیمنشنز
صرف ایٹم کے اندر پائی جاتی ہیں یا سپیس میں کہیں بھی ؟
۱۱۔ سٹرنگز کی سطح
پر وقت یعنی ٹائم کیا چیز ہے؟
۱۲۔کاسمک انفلیشن
کسے کہتے ہیں؟
۱۳۔ کائنات مسلسل
ایکسیلیرٹ ہورہی ہے تو وہ کون سی توانائی ہے جو اس کی رفتار میں مسلسل اضافہ کیے
چلی جارہی ہے؟
۔۔۔۔
ادریس آزاد
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔