سٹرنگ تھیوری کو
سمجھنے کی کوشش (پانچویں قسط)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اِس مضمون
کی گزشتہ (چوتھی) قسط میں ذکر کیا تھا کہ اگلی قسط کا آغاز مَیں انفلیشن تھیوری
کی وضاحت کےساتھ کرونگا۔ چنانچہ وعدے کے مطابق مجھے سب سے پہلے انفلیشن تھیوری کا
تعارف کرواناہے۔ جدید فلکیات میں انفلیشن تھیوری وہ نظریہ ہے جس کے مطابق کائنات
کی ابتدأ ’’اچانک پھیلاؤ‘‘ سے ہوئی۔یہ ’’اچانک پھیلاؤ‘‘ یعنی انفلیشن کیا ہے؟
ہم پہلے سے جانتے
ہیں کہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ گزشتہ صدی کے دوسرے عشرے میں ہی ہبل دُور بین
نے یہ ثابت کردیا تھا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔کائنات کے اِس مسلسل پھیلاؤ میں
جو بات نہایت اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ پھیلاؤ ہرطرف یکساں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات
کے پھیلاؤ کو سمجھانے کے لیے جدید فلکیات کے اساتذہ ہمیشہ ایک غبارے سے مدد لیتے
ہیں۔ ایک ایسا غبارہ تصور میں لائیں جس پر بہت سے رنگا رنگ کے نقاط لگےہوئے، دائرے
اور نقشے بنے ہوئے اور آپ اُس غبارے میں ہوا بھر رہے ہوں۔ کائنات بالکل ایسے پھیل
رہی ہے۔ آپ اُس غبارے میں جُوں جُوں ہوا بھرتے جائینگے، اُس پر موجود نقطے اور
دائرے ایک دوسرے سے دُور ہوتے چلے جائینگے۔ لیکن اس پھیلاؤ میں جو بات نمایاں
رہیگی وہ ان کے آپس میں فاصلوں کا تناسب ہے۔ وہ نقطے اور دائرے اپنے مخصوص فاصلوں
کا تناسب برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے۔ اور اس وجہ سے کائنات کے
پھیلاؤ میں موجود تناسب سائنسدانوں کے لیے بے پناہ توجہ کا باعث بن گیا۔
اس یکساں پھیلاؤ
کی نیچر کو سمجھتے سمجھتے ماہرینِ طبیعات ایک عجیب و غریب نتیجہ پر پہنچے۔ کائنات
کا یہ یکساں پھیلاؤ بنیادی طورکائنات کے ’’اچانک پھیلاؤ‘‘ کا نتیجہ ہے۔ یہ بات
بظاہر مبہم ہے،لیکن ابھی تھوڑی دیر میں واضح ہوجائے گی۔ یکساں ، مسلسل اور متواتر
پھیلاؤ، کائنات کے اچانک پھیلاؤ کا نتیجہ ہے۔
اوپر ہم نے دیکھا
کہ کائنات کسی غبارے کی طرح باہر کی طرف مسلسل اور نہایت تیزی کےسا تھ پھیلتی چلی
جارہی ہے۔
فطرت کا ایک عجب
مظہر ہے کہ مادے کو انتہائی باریک پیمانے پر ملاحظہ کیا جائے تووہاں کوئی مادہ
موجود نہیں ہے۔وہاں فقط توانائی کی لہریں ہیں۔توانائی کی ان لہروں کو جدید
تھیوریٹکل فزکس میں سٹرنگز کہا جانے لگاہے۔یہ سٹرنگ اتنی باریک چیز ہے کہ اگر ہم
ایک ایٹم کو اپنے نظام ِ شمسی جتنا بڑا کرلیں تو ایک سٹرنگ ہماری زمین پر موجود
کسی درخت کے برابر ہوگی۔اتنی چھوٹی چیز کے تصور کا امکان سردست صرف ریاضی کے لیے
ہی ممکن ہے۔خیال یہ ہے،
کائنات کی پیدائش
بِگ بینگ سے ہوئی ہے۔بگ بینگ کس طرح پیش آیا؟ سب سے پہلے ایک نہایت باریک ذرّہ
جیسے کہ ابھی بتائی گئی ایک سٹرنگ جتنا باریک ذرّہ نہ جانے کیسے اچانک انفلیٹ
ہوگیا۔ڈکشنری میں لفظ ’’انفلیٹ‘‘ کا مطلب ہے کسی غبارے، یا ٹائر یا ٹیوب کا ہوا یا
گیس سے اِس طرح بھر جانا کہ وہ پھول کر کُپا ہوجائے۔چنانچہ ہم بجائے یوں کہنے کے
کہ وہ چھوٹا سا ذرّہ اچانک پھٹ گیا، انفلیشن تھیوری کی وجہ سے یوں کہیں گے کہ وہ
چھوٹا سا ذرّہ اچانک پھُول گیا۔
’’اچانک ‘‘ کے
الفاظ ادا کرتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ جیسے اچانک ، یکدم سے کچھ ہوتاہے۔ ہم اپنے
انسانی ذہن کو استعمال کرتے ہوئے اِس ’’اچانک‘‘ کی جو مقدار تصور میں لاتے ہیں وہ
بہت زیادہ ہے۔ میں پچھلی قسط میں بتاچکاہوں کہ انفلیشن والا ’’اچانک‘‘ بہت مختصر
ہے۔ اتنا مختصر ،
’’ بگ بینگ کے صرف
دس کی طاقت مائنس چھتیس سیکنڈز بعد اور لگ بھگ دس کی طاقت مائنس تینتیس اور دس کی
طاقت مائنس بتیس سیکنڈ کے درمیان ہی کہیں ساری کائنات کا ابتدائی مادہ اور سپیس کا
ایک بڑا حصہ پیدا ہوگیاتھا‘‘
ماہرین ِ فزکس کے
لیے یہ کائنات کی بڑائی سے کہیں بڑا سوال ہے کہ اتنے باریک ذرّے میں اتنی زیادہ
توانائی کیسے آگئی؟ اس سوال کا ابھی تک کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔اور توانائی
بھی ایسی جس نے فقط مادہ اور توانائی ہی تخلیق نہ کی بلکہ سپیس ٹائم کو بھی ساتھ
ہی تخلیق کیا۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین ِ طبیعات عموماً ایک غبارے کی مثال سے کام لیتے
ہیں۔اسی بنا پراس حادثہ کو انفلیشن یعنی پھولنا کہا جاتاہے۔ کیونکہ اِسی حادثہ میں
سپیس ٹائم کی فیبرک پیدا ہوئی جوبہت ہی لچکدار ہے جیسے ربر۔ اتنی زیادہ توانائی
اتنے باریک ذرّے میں آجانا عقل سے ماوراہے۔ اس پر مستزاد یہ سوال ہے کہ اُس باریک
ذرّے کا ویو فنکشن کس آبزرور نے کولیپس کیا ہوگا؟ہم پچھلی قسطوں میں دیکھ آئے
ہیں کہ مادے یا توانائی کے باریک ذرّات فی الاصل فقط ذرّات نہیں ہیں بلکہ یہ بیک
وقت توانائی کی لہریں بھی ہیں۔ کوانٹم فزکس میں ویو فنکشن اور سپرپوزیشن کی کہانی
ہم کسی حدتک پڑھ چکے ہیں۔ہم کوانٹم فزکس کی رُو سے یہ جانتے ہیں کہ ویو فنکشن کو
کولیپس کرنے کے لیے کسی نہ کسی ناظر یا آلے کی ضرورت ہوتی ہے۔اِسی وجہ سے یہ سوال
بھی ساتھ ہی پیدا ہوجاتاہے کہ وہ ابتدائی ذرّہ جوانفلیٹ ہوا وہ بھی اصل میں ویو
فنکشن کی وجہ سے سپر پوزیشن پر ہوگا یا نہیں؟۔اگر ہوگا تو پھر کسی آبزرور نے اس
کا مشاہدہ بھی کیا ہوگا؟ اور یوں اس کی سپر پوزیشن کولیپس ہوگئی اور وہ ویو سے فقط
ایک ذرّہ بن گیا ہوگا۔لیکن یہ مفروضہ اس بنا پر ہے کہ وہ ذرّہ دیگر ذرّات کی طرح
ویو فنکشن کا بھی مظاہرہ کررہاہوں اور ہم اس کے بارے میں بھی غیر یقینیت (اَن
سرٹینٹی) کا شکار ہوں اور ہم اسکی بھی پوزیشن اور مومینٹم ایک ساتھ بتانے کے اہل
نہ ہوں۔ خیر!جب وہ ایک ذرّہ بن کر مشہود ہوا تو بہت ہی باریک وقت میں یکلخت انفلیٹ
ہوگیا اور یہ پوری کائنات اُسی میں سے پیدا ہوگئی۔یہ سب کچھ کتنی دیر میں وقوع
پذیر ہوا؟
’’ بگ بینگ کے صرف
دس کی طاقت مائنس چھتیس سیکنڈز بعد اور لگ بھگ دس کی طاقت مائنس تینتیس اور دس کی
طاقت مائنس بتیس سیکنڈ کے درمیان ‘‘
اِسے کہتے ہیں
انفلیشن تھیوری۔ لیکن اِس تھیوری کا ثبوت کیا ہے؟ اِس تھیوری کو سچ کیوں تسلیم کیا
جارہاہے؟ اس تھیوری کو تخلیق کرنے والے ذہنوں بالخصوص ’’ایلن گوتھ‘‘ نے کون سی
لاجک سے اتنا بڑا دعویٰ کیاہے؟ یہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ’’ری پلسِو‘‘
گریوٹی کے نظریہ کو سمجھیں۔
ایلن گُوتھ سے بہت
پہلے اگرچہ ری پلسو گریوٹی کا ایک نظریہ موجود تھا ۔ ’’تھامس ٹاؤن سینڈ براؤن‘‘ نے
1923 میں ’’گریوٹی اِز پُش اینڈ ناٹ اَ پُل‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریہ کی رُو
سے کشش ثقل ، کسی قسم کی قوتِ کشش نہیں ہے بلکہ یہ اصل میں قوتِ دفع ہے۔قوتِ دفع سے
مراد ایسی قوت جو چیزوں کو پرے دھکیلتی ہے نہ کہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تھامس کے
نظریہ کی خوبی یہ تھی کہ اس میں ایک ذرّے کی گریوٹی سے لے کر بڑے سے بڑے اجرام ِ
فلکی کی گریوٹی کا تصور سماسکتاتھا۔ تھامس کا خیال تھا کہ دو پارٹکلز سے لے کر دو
کہکشاؤں تک ہر کہیں دراصل کشش نہیں بلکہ دفع کی قوت کارفرماہے۔ اِس بات میں سچائی
اِس طرح پیدا کی گئی تھی کہ جب ہم زمین کو ہرطرف سے سپیس ٹائم فیبرک کا دھکا
لگتاہوا محسوس کریں تو لامحالہ ہم اِسے سورج کے گریوٹی ویل میں گرتاہوا ہی محسوس
کرینگے۔ مزید آسان کرنے کے لیے ہم موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والےکی مثال
لے سکتے ہیں۔ موت کے کنویں میں چلتاہوا موٹر سائیکل کنویں سے باہر نکل جانا
چاہتاہے لیکن کنویں کی دیواریں اُسے اندر کی طرف دھکیلتی ہیں۔اس سے بھی آسان
انداز میں سمجھنے کے لیے ایک میز تصور کریں جس پر بہت سے گول گول مقناطیس رکھے
ہوں۔ ان مقناطیسوں کی ہرسمت میں قوتِ کشش کی بجائے قوتِ دفع کا رُخ سامنے ہو۔ اب
جب ہم ان تمام مقناطیسوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر ایک دوسرے کے قریب لانا چاہیں
تو یہ ایک دوسرے سے دُور بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ تب ان بہت سے مقناطیسوں میں آپ
ایسے مقناطیسوں پرنظر کریں جو درمیان میں کہیں موجود ہیں اورحرکت کررہے ہیں۔
یقیناً وہ چاروں طرف سےآزاد دکھائی دینگے لیکن پھر بھی ان کو چاروں طرف سے دفع کی
ایسی قوت کا سامناہے کہ وہ نہ تو اس دائرے سے باہر نکل کر فرار ہوسکتے ہیں اور نہ
ہی کسی مقناطیس کے نزدیک ہوکر اس سے بغلگیر ہوسکتے ہیں۔ وہ فرار اس لیے نہیں
ہوسکتے کہ وہ جس طرف بھی بھاگنا چاہتے ہیں اُسی طرف سے ایک اورمقناطیس اُن کو اندر
کی طرف دھکیل دیتاہے۔
مقناطیس بالکل
مختلف چیز ہیں اور گریوٹی بالکل مختلف۔ لیکن ہم نے فقط ایک تصویر دیکھنے کےلیے
مقناطیسوں کی مثال سے کام لیا۔ چناچہ تھامس ٹاؤن سینڈ براؤن کے نظریہ ثقل میں
بنیادی نقطہ ہی یہی تھا کہ اجرام فلکی کو ہرطرف سے ثقل کا دھکا لگ رہاہے۔ اور یہ
دھکا لگانے والی قوت گریوٹی ہی ہے۔اور تو اور زمین پر گرتی ہوئی چیزوں کو بھی
پیچھے سے دھکا لگ رہاہے۔ یعنی ایسے سمجھ لیا جائے جیسے سپیس ٹائم فیبرک اُنہیں
اوپر سے دھکیل رہی ہے نیچے کی طرف۔ اور یہ دھکا دور سُورج سے لگتاہوا آرہاہے۔
گویا ہر آبجیکٹ دوسروں کو پرے دھکیل رہاہے۔یہ نظریہ فی الاصل پارٹکلز سے پارٹکلز
کی قوتِ دفع کو بھی بیان کرتاتھا لیکن بعض دیگر کمزوریوں کی وجہ سے جلدہی اسے کسی
حد تک فراموش کردیا گیا۔
ایلن گُوتھ نے جب
انفلیشن تھیوری پیش کی تو اُسے ایک مرتبہ پھر کشش ِ ثقل کی بجائے دفع ِ ثقل کے
نظریہ کا کچھ حصہ مستعار لینا پڑا۔ لیکن اِس بار اس کے سامنے پھیلتی ہوئی کائنات
کی لامحدود توانائی کو ریاضیاتی طریقے پر حل کرنے کے لیے پہلے سے بہتر مساواتیں
تھیں۔ ایلن گُوتھ نے کہا کہ گریوٹی ایک ایسی قوت ہے جو کبھی کبھی کبھار کشش اور
کبھی کبھار دفع کی شکل میں بدل جاتی ہے۔ دفع کی شکل والی گریوٹی کو ایلن گُوتھ نے
’’ری پلسِو گریوٹی‘‘ کا نام دیا۔ایلن گُوتھ نے جب گریوٹی کی قوتِ دفع کو دریافت
کیا تو اس کے سامنے آئن سٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلٹوٹی کا طریقۂ کار
تھا۔تھیوری آف جنرل ریلیٹوٹی کے مطابق گریوٹی عام طور پر تو کشش ہی بن کر
اثرانداز ہوتی ہے لیکن اسے ایسے حالات بھی میسر آسکتے ہیں جن میں یہ بعض اوقات
قوتِ دفع میں تبدیل ہوجائے۔مزید برآں جدید پارٹکل فزکس نے اس بات کے شواہد فراہم
کرنا شروع کردیے تھے کہ مادے کی بعض ایسی حالتیں بھی ہوسکتی ہیں جن میں مادے سے
نارمل گریوٹی کی بجائے کئی گنا زیادہ گریوٹی پیدا ہونا شروع ہوجائے۔اگرچہ مقناطیس
اور گریوٹی دو الگ قوتیں ہیں لیکن ایک بار پھر فقط اپنے زاویہ نگاہ کو درست کرنے
کے لیے مقناطیس کی مثال سے کام لیتے ہیں۔ ہم دیکھتےہیں کہ مقناطیس میں ہردوطرح کی
قوت ہوتی ہے، وہ کشش بھی کرتاہے اور دفع بھی۔ بعینہ اسی طرح گریوٹی بھی ہردوطرح کے
کام انجام دیتی ہے۔ کشش بھی کرتی ہے اور دفع بھی۔
انفلیشن تھیوری کا
وجود اِسی ری پلسِو گریوٹی کی بدولت ممکن ہوا۔ پہلاذرّہ جب انفلیٹ ہوا تو اُس وقت
صرف اور صرف گویوٹی کی قوتِ دفع کام کررہی تھی۔اور یہ قوت اتنی زیادہ تھی کہ اس نے
بہت ہی کم وقت میں کائنات ایک بڑا حصہ اور تمام تر مادہ پیدا کرکےپھیلا دیا۔ لیکن
اس وقت مادہ ، مادے کی اِس موجودہ شکل میں نہیں تھا۔ بلکہ وہ ایک بہت ہی اونچے
درجے کی انرجی تھی اور فقط انرجی تھی۔ ایک ایسی انرجی جس میں فطرت کی چاروں فورسز
ایک یونیفارم فورس کی شکل میں موجود تھیں۔ مثلاً ابھی الیکٹرو میگانیٹک، سٹرانگ
نیوکلئر فورس اور ویک نیوکلئر فورس کی علحیدہ علحیدہ پیدائش نہ ہوئی تھی بلکہ یہ
تمام فورسز ایک ہی فورس کا حصہ تھیں جو گریوٹی کی عظیم ’’ری پلسِو‘‘ طاقت میں ضم
تھیں۔یہ ساری توانائی ایک ساتھ باہر کی طرف لپکی اور بہت ہی کم وقت یعنی ایک سیکنڈ
کے نہایت مختصر وقفے میں ساری کائنات وجود میں آگئی۔اسی طرح بعض ایسی دریافتیں جو
بعد میں ہوئیں ایلن گُوتھ کی مددگار ثابت ہوئیں اور اسے انفلیشن تھیوری کی تخلیق
میں اور بھی آسانی پیدا ہوگئی ، جیسا کہ ’’کاسمک بیک گراؤنڈ ریڈی ایشنز‘‘ کی
دریافت۔کاسمک بیک گراؤنڈ ریڈی ایشنز جنہیں اب بہت ہی باریک بینی سے احاطہ پیمائش
میں لایا جاسکتاہے ، عظیم الشان فلیکچوئشنز کا مجموعہ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ
فلیکچوئشنز پوری کائنات میں ہرکہیں، ہرجگہ نہایت ہی باریک سطح پر واقع ہورہی
ہیں۔اور پوری کائنات میں کاسمک بیک گراؤنڈ ریڈی ایشنز ایسی یونیفارم ہیں کہ جس کے
توازن کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔کلاسیکل بگ بینگ میں اس بات کی نشاندہی کہیں نہیں
ملتی۔
مختصر یہ کہ ایل
گوتھ کے لیے ماحول اور حالات سازگار تھے چنانچہ انفلیشن تھیوری نے جنم لیا اور اب
ایک بات پر جدید فزکس متفق نظر آتی ہے کہ ابتدا میں ایک ذرّہ جو نہایت باریک
رہاہوگا اور ممکنہ طور پر سپر پوزیشن پر ہوگا نہایت متوازن انداز میں کسی غبارے کی
طرح اچانک ، پلک جھپکنے سے بھی لاکھوں گنا کم وقت میں ، پھیل کر موجودہ کائنات کا
زیادہ تر حصہ بنانے کا موجب بنا۔ یہ وہ وقت تھا جب کسی شئے کو الگ سے نہ پہچانا
جاسکتاتھا۔ جب کسی شئے کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ کوئی فورس الگ سے نہیں تھی۔مادہ ،
ٹھوس مائع گیس کی شکل میں نہیں تھا۔ پہلے سیکنڈ کا وہ چھوٹا سا حصہ جب گزر چکا تو
اس کے بعد سے موجودہ کائنات بننا شروع ہوگئی۔ ستارے، سیارے، کہکشائیں ، چاروں
فورسز، ڈارک میٹر، ڈارک انرجی، اینٹی میٹر غرض سب کچھ انفلیشن کے بعد پیدا ہوا۔
اور وہ یونیفارمٹی اور توازن جو کائنات میں آج نظر آتاہے ، اس تمام تر توازن نے
دراصل اُسی قت جنم لیا جب انفلیشن کا ظہور ہوا۔ اور اس توازن کی خالق تھی ایک ہی
قوت ، یعنی ’’ری پلسِو گریوٹی‘‘ کی قوت۔ خیر تو ان تک انفلیشن کے بارے میں ہم نے
کیا سیکھا؟ یہ،
کائنات کی ابتدأ
میں جب بگ بینگ نہیں ہوا تھا تو یقیناً ایک ذرّہ ، ایک بہت چھوٹا ذرّہ، بلکہ مکرر
کہنا چاہیے کہ ایک بہت ہی چھوٹا ذرّہ جو یقیناً ڈبل سلٹ ایکسپریمنٹ کی کسوٹی سے
گزارا جاتا تو ویو فنکشن کا مظاہرہ کرتا اور اُس ویو فنکشن کو فی الحقیقت ایک ذرّے
کی صورت میں کولیپس کرنے کے لیے کسی شاہد کی ضرورت ہوتی، اپنے اندر موجود توانائی
کو سہار نہ سکا ۔ اس میں موجود توانائی اپنی رینج کو توڑ کر باہر کی طرف لپکی اور
آنِ واحد میں کائنات بن گئی۔
اب ہم انفلیشن
تھیوری سے آگے بڑھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آئن سٹائن کی کائنات کسی ربر کی طرح
لچکدار ہے۔ آپ اگر مضبوط ربر کی کوئی چیز اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک دوسرے کے
مخالف سمت میں کھینچنے کی کوشش کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ربر کی بنی ہوئی چیز کی
شکل تو بالکل تبدیل ہوگئی اور وہ دونوں اطراف میں لمبی ہوگئی لیکن مضبوط ربر ہونے
کی وجہ سے وہ ٹوٹ نہ سکتی تھی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتاہے کہ آپ کمزور ربر کی
کسی چیز کے ساتھ کھیل رہے ہوں ۔ اُسے دبا رہے ہوں، اُسے کھینچ رہے ہوں اور وہ
اچانک ٹُوٹ جائے۔آئن سٹائن کی کائنات کا تصور مضبوط ربر کی چیز جیسا تھا۔ سٹرنگ
تھیوری نے یہ سوال اُٹھایا کہ جب سپیس ٹائم فیبرک کوئی رِجِڈ باڈی نہیں ہے بلکہ
لچکتا، پھسلتا، مچلتا، اُچھلتاہوا ربرکا ایک سمندر ہے، جس میں چاند، سُورج،ستارے
اور ہم سب رہتےہیں اور یہ کہ کائنات مسلسل باہر کی طرف پھیل رہی ہے تو پھر ایسا
کیوں نہیں سوچا جاسکتا کہ یہ ربر پھیلتا پھیلتا ایک دن ٹوٹ بھی سکتاہے۔
آئن سٹائن نے
اپنے زمانے میں خود اِس قسم کے سوالات پر گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ بات کی تھی لیکن
اس وقت ایسےسوالات کے لیے ابھی ریاضی کے ماہرین تیار نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ
کائنات کو ایک ایسے غبارے کی طرح پیش کیا جانے لگا جو پھُولتا پھُولتا ایک دن اتنا
بڑا ہوجائیگا کہ مزید نہ پھول سکے تو پھر ہوسکتاہے کہ اس کی ہوا نکلنا شروع ہوجائے
اور وہ غبارہ واپس سمٹنے لگے۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو ماضی کی جگہ مستقبل اور مستقبل
کی جگہ ماضی آجائیگا۔ یعنی بیٹاہمیشہ باپ سے پہلے پیدا ہوگا اور دراصل وہ اپنی
موت کے وقت پیدا ہوگا اور اپنی پیدائش کے وقت تک زندگی گزارے گا۔ ایسے ایسے
احمقانہ جوابات کے سوا کوئی مناسب جواب اُس وقت کے ریاضی دانوں کے ذہنوں میں نہ
آتاتھا۔ اُن سوالات کے ایسے ہی جوابات سامنے آتے رہے یہاں تک نوّے کی دہائی میں
ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ پتہ چلا کہ کائنات صرف باہر کی طر ف پھیل ہی نہیں
رہی بلکہ ایکسیلیریٹ ہورہی ہے، اور بہت زیادہ ایکسیلیریٹ ہورہی ہے۔ ایکسیلیریٹ
ہونے سے مراد ہے کہ کائنات جس رفتار سے باہر کی طرف پھیل رہی ہے وہ یکساں
رفتارنہیں ہے بلکہ وہ رفتار مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہرلمحہ بڑھ رہی ہے اور ہرروز کائنات
گزشتہ کل سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ باہر کی طرف پھیل جاتی ہے۔ اس سوال نے آئن
سٹائن کی ربر جیسی لچکدار کائنات اور اُس کی جیومیٹری کے سامنے ہنگامی بنیادوں پر
’’موت اور زندگی‘‘ جیسا اہم سوال کھڑا کردیا۔ اگر کائنات کے پھیلنے کی رفتار مسلسل
بڑھ رہی ہے تو اتنی توانائی کہاں سے آگئی جو اُسے ہرشئے کو ہرشئے سے پرے دھکیل
رہی ہے۔اتنی توانائی تو معلوم گریوٹی میں نہیں ہوسکتی۔ دور دراز پہنچ چکی،
کہکشائیں تو روشنی کی رفتار سے بھی کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ دُور جارہی ہیں اور ان
کی سپیڈ مسلسل بڑھ رہی ہے۔تو پھر یہ ساری توانائی اِس سپیس ٹائم فیبرک میں کس نے
بھر دی؟ کون ہے جو کہکشاؤں کو باہر کی طرف اتنی بے دردی کے ساتھ دھکیل رہاہے کہ
لگتاہے ایک دن ہر شئے ہر شئے سے دور ہوجائے گی۔ کائنات اکیلی ، ٹھنڈی اور تاریک
ہوجائے گی۔ کسی کو آسمان پر کوئی ستارہ دکھائی نہ دیگا۔ سب کچھ ایک تاریک ویرانہ
بن جائیگا۔ ایک عظیم الشان وائیڈ۔ اِس سوال کا اب تک واحد قدرے مناسب جواب یہ دیا
گیا کہ ، دراصل ایک اور طرح کی توانائی ہوتی ہے جسے ڈارک انرجی کہتے ہیں اور وہ
توانائی اِس کائنات کو دھکیل رہی ہے۔ اچھا!! تو ڈارک انرجی کس قسم کی توانائی ہے اور
آپ کو کیسے پتہ چلا کہ ڈارک انرجی واقعی ہوتی ہے؟ جواب یہ تھا، ’’ ڈارک انرجی کو
ہم ڈارک انرجی اِسی وجہ سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ
ہمارے لیے ڈارک انرجی ہے کیونکہ ہمیں اِس کا کچھ علم نہیں۔ یہ ہے ضرور لیکن ہم
اِسے دیکھ نہیں سکتے، ڈھونڈ نہیں سکتے۔ یہ ہے لیکن کیسی ہے؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ یہ
ڈارک انرجی ہی ہوسکتی ہے اور کچھ اور بھی۔ ہم کچھ بھی کہنے کے اہل نہیں ہیں اس لیے
ہم نے اس کا نام ڈارک انرجی رکھ دیا ہے۔اگر منطقی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ جواب
، سرے سے کوئی جواب ہی نہیں تھا۔
سوال وہیں کا وہیں
رہا کہ اگر اسی رفتار سے کائنات پھیلتی رہی تو اس ربر کا کیا ہوگا جسے ہم سپیس
ٹائم فیبرک کہتے ہیں؟ کچھ نوجوان ماہریں ِ فزکس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیا
کائنات کا یہ ربر ٹوٹ بھی سکتاہے؟ اگر یہ پھیلتا چلا گیا اور کسی مقام پر جاکر
کائنات ایسے ٹوٹ گئی جیسے کوئی ربر کی چیز ٹوٹ کر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہے تو
کیا ہوگا؟ جیسے بیالوجی میں ایک خلیہ تقسیم ہوکر دو ٹکڑوں میں الگ الگ خلیہ بن
جاتاہے۔ کیا ریاضیاتی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے؟ گریوٹی کی تمام تر مقدار کا
اندازہ لگاکر دیکھا جائے۔ گریوٹی کی کشش، کائنات کا پھیلاؤ، ستاروں ، سیاروں کا
مواد سب کچھ ملا جلا کر دیکھاجائے کیا ریاضی ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم
کائنات کو دوٹکڑوں میں توڑ دیں۔ اور اگر کبھی ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ کیا کائنات کے
دونوں ٹکڑے زندہ رہینگے؟ کیا کائنات کے دونوں ٹکڑے مر جائینگے؟ اگر دونوں ٹکڑے
زندہ رہینگے تو کیا اُن میں الگ الگ پروروش پانے کی صلاحیت ہوگی؟ اور اگر ایسا
کبھی ہوا تو کتنی توانائی خارج ہوگی؟
یہ تھیوریز کا
زمانہ ہے ۔ ریاضی دانوں نے ہی سارا کام دکھانا ہوتا ہےچنانچہ اُن نوجوان
سائنسدانوں نے جن میں ایک مشہور پرفارمر برائن گرین بھی ہیں، ایسی ریاضی ڈیولپ
کرلی جس کے مطابق کائنات ٹکڑوں کی شکل میں ٹوٹ بھی سکتی تھی اور ٹوٹنے کے بعد اپنے
آپ کو خود مرمت بھی کرسکتی تھی۔ لیکن کائنات کے جو جو ٹکڑے الگ ہوجاتے وہ الگ
کائناتیں بن جاتے اور اس طرح سٹرنگ تھیوری ایک نیا جھنڈا لے کر آگے بڑھی کہ ربر
کا یہ عظیم سمندر جسے ہم سپیس ٹائم فیبرک کہتے ہیں نہ صرف بہت سی کائناتوں کی
’’ماں‘‘ ہوسکتاہے بلکہ کوئی اور اِس جیسی کائنات ہمارے اس ربر کے سمندر سے آکر
ٹکرا بھی سکتی ہے۔اور اِ س ٹکراؤ سے ہماری کائنات دوگنا بڑی بھی ہوسکتی ہے۔ سٹرنگ
تھیوری کو یہ سب ڈیولپ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی مسلسل ترقی پاتی ہوئی
ڈائمینشنز کی تھیوری کو پوری طرح استعمال کرے۔ چنانچہ گریوٹی کی طاقت کو ایک
ڈائمینشن سے دوسری ڈائمینشن میں استعمال ہوجانے کی وجہ سے یوں سمجھنا شروع کردیا
گیا کہ ، یہ تو دراصل سٹرانگ نیوکلیئر فورس سے بھی زیادہ طاقتور فورس ہے لیکن اِس
کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ گریوٹی کی فورس کا زیادہ تر حصہ گریوٹی کے ذرّات
’’گریوٹانز ‘‘ کی شکل میں دوسری کائناتوں میں پھسل جاتاہے۔ایک کائنات کی گریوٹی
دوسری کائنات میں چلی جاتی ہے اسی طرح کسی اور کائنات کی گریوٹی ہماری کائنات میں
بھی آسکتی ہے ۔ ڈارک انرجی بھی ایسی ہی کوئی چیز ہوسکتی ہے جو کسی اور کائنات سے
آئے ہوئے ذرّات ہوں۔ خیرتوگریوٹی کے ذرّات کسی اور کائنات میں کیسے چلے جاتے ہیں؟
سٹرنگ تھیوری کے پاس ایک ہی جواب تھا۔ یقیناً ہماری تین ڈائمنشنز کے علاوہ کچھ
ایکسٹرا ڈائمینشز بھی ہیں جن میں پھسل جانے کےبعد گریوٹی کے ذرّات رُوپوش ہوجاتے
ہیں۔اِن نئی ڈائمینشنز کی کہانی کیا تھی؟ یہ کہاں سے آٹپکی تھیں۔
کلُوزا ، جس کا
ذکر ہم پچھلی قسطوں میں کرچکے ہیں ایکسٹرا ڈائمنشنز کے خیال کا پیش کرنے والا پہلا
شخص تھا۔وہ بنیادی طور پر جس خیال کی وجہ سے نئی ڈائمینشنز کی طرف مائل ہوا تھا وہ
آئن سٹائن کے سپیس ٹائم کا تصور تھا جس کی تصدیق ۱۹۱۹ میں ارتھر اڈنگٹن نے ایک تجربے
کے بعد کردی تھی۔ اُس نظریہ کی رُو سے سپیس صرف سپیس نہیں تھی بلکہ پوری کائنات
سپس اور ٹائم کو ملا کر ’’سپیس ٹائم‘‘ تھی۔ کلُوزا نے اسی اینالوجی کو بنیاد مان
کر یہ سوچا کہ اگر یہی نظریہ الیکٹرومیگانیٹک ویوز پر بھی استعمال کیا جائے تو کیا
نتیجہ نکل سکتاہے؟ الیکٹرومیگانیٹک ویوز جن میں روشنی کی شعاع کو ہم سب جانتے ہیں
اور جو ویکیوم میں تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتی ہے کس طرح کسی
اور ڈائمنشن کے ساتھ مل کر سپسٹائم جیسا سمندر بناسکتی ہے؟
آئن سٹائن نے اخذ
کیا تھا کہ سپیس ٹائم کی موج بھی روشنی کی رفتار پر سفرکرتی ہے ۔ کلُوزا سپیس ٹائم
فیبرک کی طرح روشنی کی شعاع کے لیے بھی کسی ایسی ڈائمینشن کا متلاشی تھا جو روشنی
کی شعاع کو سفرکے لیے اس کا اپنا سمندر فراہم کرسکے۔کلُوزانے سوچا کہ شاید وہ بھی
روشنی کی شعاعوں کو’’ سپیس ٹائم فیبرک‘‘ کی زبان میں بیان کرسکے گا۔ وہ زبان جس
میں موجیں تھیں، بھنور تھے، لہریں اور سونامیاں تھیں۔ وہ زبان جوروشنی کی شعاع کو
بھی اُسی طرح قابل ِ فہم بنا سکے جس طرح آئن سٹائن نے گریوٹی کو قابلِ فہم بنا
دیا تھا۔لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی اس کا ذکر کرچکے ہیں کہ تمام معلوم ڈائمیشنز کو
تو آئن سٹائن استعمال کرچکاتھا۔کلوزا اپنی شعاعوں کو کون سی نئی ڈائمینشن کے ساتھ
منسلک کرتا؟ 1926 میں آسکر کلائن نامی ایک ماہر ِ طبیعات نے ایک نئی تجویز پیش
کی۔ اس نے کہا کہ ڈائمینشز دوطرح کی ہوسکتی ہیں۔ ایک جو بڑی بڑی ہیں اور ہم اُنہیں
دیکھ سکتےہیں اور دوسری وہ جو اتنی چھوٹی ہیں اور ایسی گھنگریالی ہیں کہ ہم انہیں
نہ دیکھ سکتے ہیں نہ محسوس کرسکتے ہیں۔دور دوکھمبوں کے درمیان لگی بجلی کی تاروں
پر چلتی ہوئی چیونٹی کو بالکل نزدیک سے دیکھنے کے بعد ہم اس کی موجودگی سے واقف
ہوسکتے ہیں اور خود دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بجلی کے تار پر لمبائی کے رُخ چلنے کی
بجائے ، تار کے معمولی قطر پر گولائی کے رُخ چل رہی ہے۔ دُور سے ہمارے لیے بجلی کی
تاریں صرف لکیریں ہیں۔چنانچہ سٹرنگ تھیوری کا موجودہ فریم پہلی بار تشکیل پانا
شروع ہوا۔ ایسی ڈائمینشنز کا تصور کیا گیا جو سپیس ٹائم کی بیرونی سطح پر ظاہر
نہیں ہوتیں لیکن اگر ہم سپیس ٹائم کو بہت باریکی سے دیکھیں تو ان تک پہنچا
جاسکتاہے۔ بہت باریکی سے دیکھنے سے مراد یہ ہےکہ،
سپیس جو اِس وقت
اِس کمرے میں ہمارے سامنے ہے، اُس کو نہایت باریک سطح پر ملاحظہ کرنے سے سپیس کی
مزید ڈائمینشنز کا پتہ چل سکتاہے۔ نہایت باریک، اتنا باریک کہ کسی آنکھ یا عدسے
سے دیکھنا بھی ، جہاں ممکن نہ ہو۔اتنا باریک کہ ایک ایٹم سے بھی باریک، اتنا باریک
کہ ایک پروٹان سے بھی زیادہ باریک۔ پروٹان میں موجود ’’کوارکس‘‘ کے اندر بھی نہایت
باریک سطح پر اُتر جانے کے بعد ہمیں اچانک سپیس کی مزید چھ ڈائمیننشز نظر آئینگی۔
چنانچہ اگر ایک چیونٹی اُن ڈائمینشز جتنی باریک ہو اور ان میں چل رہی ہو تو ہم
کیسے جان سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ ایکسٹرا ڈائمینشنز میں بھی اُسی طرح چل
رہی ہے یعنی کبھی گول گول محیط پر تو کبھی کسی اور شکل میں؟کیونکہ ہم تو بیس فٹ کی
دُوری پر موجود بجلی کی تاروں پر چلتی ہوئی چیونٹی کی حرکت دیکھنے کے اہل بھی نہیں
ہیں۔
جہاں تک سٹرنگ
تھیوری سے پہلے پہلے تک ڈائمنشنز کا ذکر ہے تو یہ سوالات کہ یہ خیالی دنیا کہاں تک
سچی ہے؟ کیا واقعی اس کا حقیقی دنیا کے ساتھ کوئی تعلق ہے؟ ’’تھیوڈور کلوزا‘‘ یا
’’آسکر کلائن‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے لوگوں کے کام کو ناکام بنانے کے لیے کافی تھے۔ ایک
عام سی سوچ تھی جو اب بھی ہے کہ کیا فزکس کی تھیوریز اب محض ریاضی کی مشقیں بن کر
رہ گئی ہیں؟ چونکہ ابتدائی بیسویں صدی کی ڈائمینشنز کی تھیوریز کو ٹیسٹ کرنا ممکن
نہیں تھا اور وہ فقط ریاضی ہی ریاضی تھیں سو انیس سو پچاس تک یہ تھیوریز خود بخود
مفقودالخبرہوگئیں۔
ڈائمنشنز کا نیا
دور سٹرنگ تھیوری کے ساتھ شروع ہوتاہے۔ یہ سوال کہ گریوٹی کی فورس باقی تین فورسز
کے مقابلے میں اتنی زیادہ کمزور کیوں ہے؟ اِس طرح کے بہت سے دیگر سوالات جن میں
کوانٹم میکانکس اور اضافیت کی تھیوریز کے درمیان ٹکراؤ جیسے مسائل بھی شامل تھے
سٹرنگ تھیوری کے جنم کا سبب بن رہے تھے۔
ہم جانتے ہیں کہ
گریوٹی تمام فورسز میں سب سے کمزور بلکہ کمزور ترین فورس ہے۔ یہ اتنی کمزور فورس
ہے کہ اگر ہم اِس فورس کا جائزہ دوسرے فورسز کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے لیں تو یہ
کچھ اس طرح سے ہے،
ویک نیوکلیئر
فورس، سٹرانگ نیوکلیئر فورس سے ایک لاکھ گنا کمزور ہے۔ ایک لاکھ گُنا کمزور ہونا
بہت زیادہ کمزورہوناہے۔یہ ایسا ہے جیسے چارانچ لمبی کسی چیز کا موازنہ ماؤنٹ
ایورسٹ کےساتھ کیا جائے۔لیکن گریوٹی تو اس سے بھی کہیں ، کہیں زیادہ کمزور
ہے۔گریوٹی کی طاقت ، سٹرانگ فورس سے ’’ون ہنڈرڈ تھاوزینڈ ٹریلین ٹریلین ٹریلین ‘‘
گنا کمزورہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کسی باریک پروٹان کا موازنہ پوری کائنات کے ساتھ کیا
جائے۔ گریوٹی کی اس کمزوری کو ہم اپنی کھلی آنکھوں سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ زمین
کتنا بڑا سیارہ ہے۔ اس سارے سیارے کی پوری گریوٹی مل کر جب زور لگاتی ہے تب بھی
سٹیل کی ایک باریک پِن کو ایک چھوٹے سے مقناطیس کے اثر سے بچانہیں پاتی۔ مقناطیس
چاہے خود ایک پِن جتنا کمزور کیوں نہ ہو پوری زمین کی گریوٹی سے کہیں زیادہ طاقتور
ہے۔ایک طرف ہم یہ جانتے ہیں کہ گریوٹی اس قدر کمزور ہے کہ شاید آج سے سوسال بعد
بھی گریوٹانز دریافت نہ کیے جاسکیں کیونکہ اتنی زیادہ کمزور فورس کو ڈیٹکٹ کرنا
انسانوں کے لیے قریب قریب ناممکن ہے۔دوسری طرف ہم یہ بھی جانتےہیں کہ یہی گریوٹی
کی طاقت ہے جو تمام تر سیارروں، ستاروں، کہکشاؤں اور بلیک ہولز کا وجود قائم رکھے
ہوئے ہے۔ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ یہی گریوٹی شروع میں ’’ری پلسِو‘‘ گریوٹی بن کر
تمام کائنات کو تخلیق کرنے کا سبب بنی ہے؟ کیا گریوٹی خدا ہی کا کوئی رُوپ ہے؟
جب ماہرین ِ
طبیعات گریوٹی کی اُس طاقت کو دیکھتے ہیں جو ایک کھرب ستاروں کو کہکشاں کے مرکز کے
گرد طواف کرنے پر مجبور کردیتی ہے تو وہ سوچ میں پڑجاتے ہیں۔ اور انہیں لگتاہے کہ
شاید گریوٹی اتنی زیادہ کمزور فورس نہیں ہے جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ سٹرنگ تھیوری
کی آمد کے ساتھ اس سوال کا سب سے خوبصورت جواب ریاضیاتی طور پر وجود میں آچکاہے۔
سٹرنگ تھیوری یہ مانتی ہے کہ چونکہ ہماری کائنات کی ظاہری ڈائمینشنز تین ہیں اور
ایسی ڈائمینشز جو ہم نہیں جانتے تین سے زیادہ ہیں تو عین ممکن ہے کہ گریوٹی کی
زیادہ تر طاقت چھپی ہوئی ڈائمینشنز میں پھسل جاتی ہو۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے
سمجھتے ہیں۔
آپ بلیئرڈ کا ایک
ٹیبل تصور میں لائیں۔ہم جانتے ہیں کہ بلیئرڈ کے ٹیبل پر بلیئرڈ کی گیندیں دو
ڈائمینشز میں حرکت کرسکتی ہیں۔ یعنی دائیں اور بائیں یا آگے اور پیچھے۔ ہم جانتے
ہیں کہ بلیئرڈ کی گیندیں اُوپر اور نیچے جوکہ تیسری ڈائمینشن ہے ، اُس میں حرکت
نہیں کرسکتیں۔ اب بلیئرڈ کھیلنا شروع کریں۔ آپ جب ایک گیند کو دوسری گیند کے ساتھ
ہِٹ کرتے ہیں تو آواز پیدا ہوتی ہے۔ آواز کی موجوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ
یہ موجیں دائیں بائیں، آگے پیچھے اور اُوپر نیچے، یعنی تین ڈائمینشنز میں حرکت
کرسکتی ہیں۔ آپ تصور میں آواز کی لہروں کو پیدا ہوتاہوا اور فضا میں بلند
ہوتاہوا دیکھیں اور سوچیں کہ گیندیں تو فقط دو سمتوں میں حرکت کررہی تھیں لیکن ان
گیندوں سے پیدا ہونے والی توانائی جو کہ آواز کی موجوں کی صورت میں بھی پیدا
ہوئی، ایک تیسری ڈائمینشن میں ، یعنی اوپر اور نیچے بھی حرکت کررہی تھی۔ یہ منظر
ایسا ہے جس میں ہم نے دیکھا کہ دو ڈائمینشنز میں رہتے ہوئے بھی کسی آبجیکٹ سے
پیدا ہونے والی توانائی کا کچھ حصہ کسی تیسری ڈائمینشن میں جاسکتاہے۔ بالکل اِسی
اُصول کی بنا پر اب تصورکریں کہ گریوٹی بھی ایسی ہی کوئی چیز ہے۔ الیکٹرومیگانٹزم،
سٹرانگ نیوکلیئر فورسز اور ویک نیوکلیئر فورسز جو مادے کو آپس میں جوڑ کررکھتی
ہیں، ہماری تھری ڈائمینشنل کائنات میں حرکت کرتی ہیں اور گریوٹی ایک ایسی فورس ہے
جس کا زیادہ تر حصہ بلیئرڈ کی گیندوں سے خارج ہونے والی آواز کی موج کی طرح کسی
اور (ایکسٹرا) ڈائمینشن میں چلا جاتاہے۔اگر ایسا ہی ہے کہ گریوٹی ہماری تین
ڈائمینشز سے بڑھ کر کسی اور ڈائمینشن میں حرکت کرجاتی ہے تو پھر اس کا مطلب ہوگا
کہ گریوٹی سٹرانگ ہے نہ کہ کمزور۔ہم جانتےہیں کہ ہماری بڑی بڑی ڈائمنشنز اتنی بڑی
ہیں کہ ہم انہیں لامتناہی قرار دیتے ہیں۔ ریاضی کے لوگ جانتےہیں کہ لامتناہیت یعنی
اِنفنٹی چھوٹے چھوٹے نقاط کے درمیان بھی اسی طرح موجود ہے جیسے بڑی ابعاد
میں۔چنانچہ چھوٹی ڈائمینشنز جو سٹرنگ تھیوری کی تلاش کا مقصد ہیں اتنی چھوٹی
ہوسکتی ہیں کہ ہمارے آنکھیں کے سامنے موجود سپیس میں لامتناہی نقاط پر ایسی
ڈائمینشنز کا وجود عین ممکن ہے جن میں گریوٹانز ہر لمحہ رُوپوش ہوتے جارہے ہوں۔
اس اینالوجی کو ہم
ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ آپ نے سرکس میں دیکھا ہوگا کہ ایک پرفارمر تنی ہوئی رسی
پر چل سکتاہے۔ہم جانتےہیں کہ سرکس کا وہ اداکار صرف دو ڈائمنشنز میں چل سکتاہے۔
دائیں یا بائیں۔لیکن اگر اُسی رسی پر ایک چیونٹی چل رہی ہو تو وہ اس رسی پر گول
گول دائرے میں بھی گھوم سکتی ہے اور سرکس کے اداکار کی طرح دائیں اور بائیں بھی چل
سکتی ہے۔یہ ڈائمنشنز جس پر ایک چیونٹی گول گول گھوم رہی ہے اُس ڈائمینشن کے مقابلے
میں جس پر سرکس کا اداکار چل رہاہے زیادہ وسیع ہے۔حالانکہ سرکس کے اداکار کے پاس
لمبی رسی تھی جب کہ چیونٹی کے پاس فقط ایک رسی کی گولائی کا محیط (سرکمفرنسس)
ہے۔لیکن سرکس کا اداکار پھر بھی اس محیط پر نہیں چل سکتا۔شاید ایسی ہی ہیں وہ
چھوٹی چھوٹی ڈائمینشنزجواِس وقت عین ہمارے چہرے کے سامنے موجود سپیس میں ہوسکتی
ہیں اور وہی ڈائمینشنز ایسی جگہیں ہیں جہاں گریوٹی کی ساری طاقت ہرلمحہ میں
گریوٹانز جیسے چور ذرّات کی شکل میں رُوپوش ہوتی جارہی ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں
’’پارٹکل ایکسیلیریٹر‘‘ کی پیمائشوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔اگر یہ مفروضہ درست ہے
کہ ایکسٹرا چھوٹی ڈائمینشز کی وجہ سے گریوٹی اتنی کمزور فورس ہے تو ’’لارج ہیڈران
کولائیڈر‘‘ کے سائنسدان اُن کی پیمائش کرنے کے ضرور اہل ہونگے۔
(جاری ہے)
ادریس آزاد
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔