ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

میکس ویل کی میتھ ، ایک اینالوجی برائے سٹرنگ تھیوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں اپنے ایک نوجوان مہمان، حسن (بی ایس فزکس، سینئر سمسٹر، فیڈرل اردو یونیورسٹی) سے باتیں کررہا تھا کہ میں نے کہا،
’’دیکھوحسن! سٹرنگ تھیوری کی میتھ ڈیولپ کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تاریخ ِ فزکس میں سب سے ایلیگینٹ اور پرفیکٹ میتھ ہے۔ لیکن چونکہ سٹرنگ تھیوری کی تصدیق کے لیے ابھی تک ہمارے پاس کوئی سامان نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں زمین کے انسانوں کے پاس ایسے کسی سامان کے پیدا ہوجانے کی اُمید ہے تو سٹرنگ تھیوری کو ابھی فقط تھیوری کہہ کر رد کردینے والے انسانوں کی تعداد کتنی زیادہ ہے۔ بہت زیادہ ہے نا؟ لوگ سارے معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہوتے ہیں۔ سٹرنگ تھیوری کو کاغذ پر بنایا گیا ڈایا گرام سمجھ کر رد کرنے والے کوئی عام لوگ نہیں، کئی بڑے بڑے ماہرین فزکس خود بھی اس تھیوری کی صداقت پر یقین نہیں رکھتے۔ کیا یہ بالکل اور بعینہ وہی بات نہیں ہے جو میکس ویل کے ساتھ پیش آئی تھی؟
حسن نے سوال کیا،
’’ میکس ویل کے ساتھ کیا پیش آیا تھا؟‘‘
میں نے کہا،
’’میکس ویل نے 1860 کے بعد الیکٹرومیگانیٹک ویوز کے سپیکٹرم کے آئیڈیے پر کام شروع کردیا تھا۔ دنیا نے تو فقط وزیبل لائٹ ہی دیکھی ہوئی تھی یا زیادہ سے زیادہ قوسِ قزح۔ البتہ سائنسدانوں نے منشور سے گزرنے والی شعاعیں دیکھ رکھی تھیں اور جانتے تھے کہ روشنی منشور سے گزرے تو کئی رنگ کی شعاعیں نکلتی ہیں۔ لیکن سائنسدان بھی اور عام لوگ بھی اگر بالکل ہی ناواقف تھے تو الیکٹرومیگانیٹک ویوز کے سپیکٹرم سے۔ وہ نہیں جانتے تھے تو یہ کہ مائیکروویوز بھی ہوتی ہیں، یا ریڈیوویوز، یا کاسمک ویوز، یا الٹراوائیلٹ، یا ایکس ریز یا گیماریز۔ وہ ایسی کسی قسم کی شعاعوں کے وجود سے نہ صرف یہ کہ واقف نہیں تھے بلکہ ایسی کسی قسم کی شعاعوں کا خیال بھی ان کے ذہنوں میں آنا ناممکن تھا۔ کیونکہ ظاہری کائنات میں کوئی ایک بھی تو وجہ نہ تھی ایسی شعاعوں کے وجود کے بارے میں ذرا سے بھی گمان کی۔ کوئی وجہ ہوتی بھی توکیسے؟
ہمارے سامنے نہ کوئی مائیکرو ویو اووَن تھا اور نہ ہی ریڈیو یا ٹیلی وژن۔ کیسے ممکن تھا کہ ایک شخص اُٹھ کر کہہ دیتا کہ کچھ ’’ان دیکھی‘‘ شعاعیں ہوتی ہیں۔ ایسی شعاعیں جو نظر نہیں آتیں لیکن بہت طاقتور ہوسکتی ہیں یا پیغام رساں ہوسکتی ہیں۔ وہ ایک ملک سے دوسرے ملکوں تک سیکنڈوں میں آواز یا تصویریں بھیج سکتی ہیں یا کسی باکس میں رکھے کھانے کو گرم کرسکتی ہیں۔ یا عورت کے پیٹ سے بچے یا بچی کی تصویر قبل از پیدائش ہمیں دکھا سکتی ہیں۔ ایسا کیسے ممکن تھا کہ یونہی بیٹھے بٹھائے کوئی سائنسدان اس طرح کی اُوٹ پٹانگ باتوں کو اس وقت سوچتا؟
میکس ویل نے بھی تو ایسا نہ سوچا تھا۔ وہ تو مقناطیس اور بجلی کے کرنٹ کے آپسی رشتے کو معلوم کرنے کے چکر میں تھا، جب اسے روشنی کی شعاع کی رفتار، کرنٹ کی رفتار کے بالکل قریب قریب محسوس ہوئی اور وہ چونکا۔ پھر بھی ریڈیو ویو یا الٹراوائیلٹ کا خیال اُسے کیونکر آسکتا تھا؟ سچ تو یہ ہے کہ وہ کچھ میتھمیٹکس حل کررہا تھا۔ وہ ایک بہت بڑا ریاضی دان تھا۔ اس نے اس سے قبل روشنی کے رنگوں کا راز کھولا تھا تو فقط میتھ سے۔ اس نے اس سے قبل سیارہ زحل کی ڈِسک کا راز کھولا تو فقط میتھ سے۔ چنانچہ جب وہ مختلف فریکوئنسیوں کو میتھ کی زبان میں ازخود یعنی من گھڑت طریقے سے فرض کرنے لگا تو اسے پتہ چلا کہ فریکوئنسیوں کو کم یا زیادہ کرنے سے، فرضی ہی سہی لیکن بعض خاص قسم کی شعاعوں کا وجود بنتاہوا محسوس ہوتاہے۔ اگر کسی شعاع کی ویو لینتھ یعنی طولِ موج زیادہ فرض کرلی جائے تو وہ ریڈیو ویو ہوگی یا مائیکروویو کہلائے گی اور اگر ویو لینتھ کم ہے تو وہ الٹراوائیلٹ یا ایکس رے یا گیما رے وغیرہ ہونی چاہیے۔ اور یہ سب ویوز یا یہ سب شعاعیں صرف میتھمیٹکس سے نکل رہی تھیں۔ دور دور تک کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا، نہ ہی کسی کے تصور میں کبھی آسکتا تھا کہ یہ شعاعیں جو فقط میتھ کی گِنتیوں کو اوپر نیچے کرنے سےکاغذ پر برآمد ہورہی ہیں سچ میں بھی ہوسکتی ہیں۔ کوئی بھی نہیں۔
اور پھر ہوا کیا؟ سالہا سال تک میکس ویل کی میتھ فقط میتھ ہی رہی اور لوگ نظر نہ آنے والی شعاعوں کا ذکر سن سن کر ہنستے اور مذاق ہی اُڑاتے رہے۔ لیکن آج ایکس ریز کے ذریعے ہم جسم کے اندر سے گردوں کی پتھری کے فوٹو کھینچ لیتے ہیں۔ مائیکرویو، ریڈیو ویو، گیما ریز، الٹراوائیلٹ سب کی سب ہماری عام زندگی میں استعمال ہورہی ہیں۔ میکس ویل کے الیکٹرومیگانیکٹ ویوز کے سپیکٹرم نے اپنے بعد والی تمام دنیا کو ہی بدل دیا ہے۔ ساری کی ساری ٹیکنالوجی آج میکس ویل کی وجہ سے دنیا میں موجود ہے۔ سائنس میکس ویل کی کتنی احسان مند ہے ہم کبھی اندازہ نہیں لگاسکتے۔ آئن سٹائن نے خود کہا تھا،
’’میں میکس ویل کے کندھوں پر کھڑا ہوں‘‘
تو کیا ایک میتھ اور خالص میتھ جس کے ثابت ہوجانے کے امکانات زیرو ہوں اور جو فقط ہوائی باتیں کرتی ہو حقیقی دنیا کی اشیأ کے بارے میں تیس چالیس سال پہلے پیش گوئی بھی کرسکتی ہے؟ اوروہ بھی اتنی کامیاب؟ ایسی میتھ جو یہ بتاتی ہو کہ بعض نظر نہ آنے والی چیزیں بھی ہوسکتی ہیں اور ان کی کوئی اینالوجی بھی موجود نہ ہو؟ کیونکہ میکس ویل نے تو صرف اور صرف ویو لینتھوں کو تبدیل کیا مطلب ریاضی کی مشق کی، نہ کہ کوئی ایسی اینالوجی تھی جس سے یہ ویوز اخذ کیں۔ اس نے تو صرف یہ سوچا کہ چلو جہاں دس لکھ رہاہوں وہا ایک صفر کا اضافہ کرکے دیکھ لوں۔ یعنی صرف کاغذی ’’میتھ میتھ‘‘ کھیلی اور نتیجہ کیا نکلا؟ دنیا کلیتہً بدل گئی۔
فلہٰذا سٹرنگ تھیوری جو میکس ویل کی میتھ سے کہیں زیادہ ایلگینٹ کہی اور سمجھی جارہی ہے کل کلاں کیونکر درست ثابت نہ ہوگی؟ فرض کرو سٹرنگ تھیوری کل درست ثابت ہوجاتی ہےتو سوچو بھلا دنیا کیا ہوجائے گی؟
یہاں پہنچ کر بے اختیار میرے منہ سے نکلا، اللہ اکبروللہ الحمد
ادریس آزاد


0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔