''کائنات، حیات سے چھلک رہی ہے''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات کہ اور سیّاروں پر بھی زندگی ہوسکتی ہے اتنی ہی قرین ِ قیاس ہے جتنی آج سے پانچ سو سال پہلے تک یہ بات قرین ِ قیاس تھی کہ اور بر ہائے اعظم پر بھی زندگی ہوسکتی ہے۔ جس طرح دوسرے براعظموں پر زندگی آہستہ آہستہ دریافت ہوئی اسی طرح اور سیّاروں پر بھی زندگی آہستہ آہستہ ہی دریافت ہوگی۔ البتہ وہ دن جب پہلی بار پتہ چلے گا کہ کسی اور سیّارے پر بھی حیات موجود ہے ہم اہل ِ زمین کے لیے بڑا پُرتجسس دن ہوگا۔ شاید ایک نئی تقویم (سَن) کا بھی آغاز ہو۔
صرف یہی نہیں کہ وہاں محض زندگی ہوسکتی ہے جو ہماری ہی کوئی کالونی بنے گی بلکہ یہ کہنا کہ کائنات میں اور انسان بھی ہوسکتے ہیں قطعاً بعید از قیاس نہیں۔ اگرچہ سائنس دانوں نے ہر طرح کی حیات کے امکانات پر غور کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ کارل ساگان ایک سیّارے پر نائٹروجن میں سانس لینے والے زندہ غبارے جو بڑی بڑی جیلی فش نما جاندار ہیں تصور کرتاہے۔ یہ جیلی فش نما جاندار دور سیارے کی سطح سے بہت اُوپر بادلوں میں اُڑتے پھرتے ہیں کیونکہ اُس سیارے کی سطح ٹھوس نہیں ہے۔لیکن اس طرح کی حیات کے ساتھ ساتھ بعینہ ایسی زندگی جیسی ہماری زمین پر پروان چڑھی ۔۔۔۔۔۔ کے پائے جانے کے بھی قوی امکانات ہیں۔
فرض کریں کسی اور سیّارے پر انسان ہیں۔ بالکل ایسے انسان جیسے ہم ہیں۔ فرض کریں وہ سیّارہ ہماری کہکشاں میں بہت دور یا کسی اور کہکشاں میں واقع ہے اور فرض کریں کہ وہ انسان ہم سے تاریخ میں بہت آگے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ہم سے دس ہزار سال ایڈوانس ہیں، تو یقیناً ان کی ٹیکنالوجیز ہماری ٹیکنالوجیز سے بالکل مختلف ہونگی۔ ہوسکتاہے وہ مشینی زندگی کی بجائے کسی اور میٹریل سے کام لیتے ہوں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے سیارے کا سارا نظام بائیو میکینکل بنالیا ہو۔ جینٹک انجنئرنگ کی ترقی کی موجودہ رفتار دیکھ کر لگتاہے کہ فقط ایک صدی بعد انسان ہرطرح کے جانور تخلیق کرنے پر قادر ہونگے۔ پودے، پرندے اور جراثیم تو تخلیق کربھی رہے ہیں۔ کسی خبر میں پڑھا تھا کہ امریکہ میں ایک ایسا بیکٹیریا پیدا کیا گیا ہے جس کا فضلہ اعلیٰ قسم کا پلاسٹک ہے۔ ابتدائی تجربات کی کامیابی کے بعد ان بیکٹیریاز کی فیکٹری لگانے کا منصوبہ زیر ِ غور ہے۔ چنانچہ اگر کسی اور سیّارے پر زندگی ہوئی اور وہ لوگ سچ مچ ہم سے بہت زیادہ ایڈوائنس ہوئے تو ہوسکتاہے انہوں نے ڈارک میٹر دریافت کرلیا ہو یا اُن کے پاس اینٹی میٹر کی کافی ساری مقدار موجود ہو اور یوں توانائی کا مسئلہ ان کے ہاں وجود ہی نہ رکھتاہو یا وجود رکھتا ہو تو اس سے بھی زیادہ توانائی ان کا مقصود ہو۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ انہوں نے اِس جسمانی ہییت میں جان بوجھ کر تبدیلیاں کردی ہوں اور جسم کے اِس بھاری تھیلے کو کم سے کم کرکے خود کو ہلکا پھلکا بنا لیا ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتاہے کہ وہ خود کو ڈی میٹریلائز کرسکتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم سے اس قدر آگے ہونے کی وجہ سے انہوں نے دیگر سیّاروں پر موجود زندگی یا انسانوں کے ہونے کا کھوج پالیا ہو۔ یا سرے سے اُس زندگی یا انسانیت کے بیج ہی بعض سیّاروں پر خود پھینکے ہوں۔
امکانات سے انکار ہی اصل کفر ہے۔ امکانات ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ دور حاضر کی سائنس تو اسے امکان کہتی ہی نہیں بلکہ ''پیرالل رئیلٹی'' کہتی ہے اور موجودہ کائنات کو یونیورس نہیں بلکہ آبزرویبل یونیورس (قابل ِ مشاہدہ کائنات) کا نام دیتی ہے۔ اور بقول کارل ساگان،
''یہ کائنات، حیات سے چھلک رہی ہے''
اگر ایسا ہے تو ایک نہ ایک دن ہمیں ضرور معلوم ہوجائیگا۔ جس طرح ایک دن ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اگر زمین کو گول مان لیا جائے تو یورپ سے ایشیأ تک کا سمندری سفر کرنے سے راستے میں ایک اجنبی اور بالکل نیا براعظم آتاہے، جہاں ہمارے جیسے انسان ہیں۔ کئی صدیوں تک انسان کی حیرت یہ سوچ سوچ کر فزوں ہوتی رہی کہ وہاں انسان کیسے پہنچے ہونگے؟ اور گزشتہ صدی میں کھوج لگایا گیا کہ پچیس ہزار سال پہلے سائبیریا اور الاسکا کے درمیان جمی ہوئی برف تھی۔۔۔۔۔۔۔ تھرتھراتا ہوا پانی نہیں تھا۔ اور ایشیأ کے لوگ وہاں سے پیدل براعظم امریکہ پہنچے۔ یہ ایشیأ کے آراواک قبائل تھے۔ قدیم امریکی جنہیں ہم ریڈ انڈینز کہتے ہیں وہ نسلاً ہم ایشیایوں کے بھائی ہیں۔
بالکل اسی طرح کبھی یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم کسی اور سیارے کے بچھڑے ہوئے بچے نکلیں۔ کسی بڑے مرکز کا ٹکڑا ۔ کسی بہت بڑی تقسیم کا حصہ۔ کسی کاسموپولیٹن سوسائٹی کا محض ایک تجربہ۔
زمین تک پہنچنے والے متعدد قسم کے معلوم و نامعلوم پارٹیکلز کوئی مسیجز ہیں یا فقط لہریں؟ فزکس کے لوگ کہتے ہیں کہ اگلے زمانے کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا انٹینا سے رابطہ کٹ جانے کے بعد سکرین پر جو مکھیاں سی آجایا کرتی تھیں اور شور ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ سگنلز ہیں جو کائنات سے آرہے ہوتے ہیں۔ یہ تو ہم سب مانتے ہیں کہ کائنات میں بڑی مِسٹری ہے۔ رازوں سے لبریز یہ تاریک خلا بہت مہیب ہے۔ بے پناہ اسرار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ہیں کہ اس کے ایک ذرّے پر آباد ہیں۔
فرض کریں ہمیں پہلے سے موجود زندگی نہیں ملتی پھر بھی یہ تو یقینی ہے کہ اگر انسان نے خود کو اِن فضول اور بے مقصد لڑائیوں میں ختم نہ کرلیا تو مستقبل کا انسان دیگر سیارے آباد کرنے کا اہل ہوگا۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ایک کاسموپولیٹن سوسائیٹی کے وجود میں آنے کے امکانات کو کوئی نہیں روک سکتا۔ فرض کریں یہ سب آج سے پانچ ہزار سال بعد ہوجائیگا تو پھر ایسا سوچنا کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے ایسا ہوا بھی ہوگا کہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم اسی کے پارچہ جات ہیں جو کبھی نہ کبھی جان جائینگے کہ ہم کیسے، کب اور کہاں بچھڑے تھے۔ تو ایسا سوچنے میں حرج ہی کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات کہ اور سیّاروں پر بھی زندگی ہوسکتی ہے اتنی ہی قرین ِ قیاس ہے جتنی آج سے پانچ سو سال پہلے تک یہ بات قرین ِ قیاس تھی کہ اور بر ہائے اعظم پر بھی زندگی ہوسکتی ہے۔ جس طرح دوسرے براعظموں پر زندگی آہستہ آہستہ دریافت ہوئی اسی طرح اور سیّاروں پر بھی زندگی آہستہ آہستہ ہی دریافت ہوگی۔ البتہ وہ دن جب پہلی بار پتہ چلے گا کہ کسی اور سیّارے پر بھی حیات موجود ہے ہم اہل ِ زمین کے لیے بڑا پُرتجسس دن ہوگا۔ شاید ایک نئی تقویم (سَن) کا بھی آغاز ہو۔
صرف یہی نہیں کہ وہاں محض زندگی ہوسکتی ہے جو ہماری ہی کوئی کالونی بنے گی بلکہ یہ کہنا کہ کائنات میں اور انسان بھی ہوسکتے ہیں قطعاً بعید از قیاس نہیں۔ اگرچہ سائنس دانوں نے ہر طرح کی حیات کے امکانات پر غور کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ کارل ساگان ایک سیّارے پر نائٹروجن میں سانس لینے والے زندہ غبارے جو بڑی بڑی جیلی فش نما جاندار ہیں تصور کرتاہے۔ یہ جیلی فش نما جاندار دور سیارے کی سطح سے بہت اُوپر بادلوں میں اُڑتے پھرتے ہیں کیونکہ اُس سیارے کی سطح ٹھوس نہیں ہے۔لیکن اس طرح کی حیات کے ساتھ ساتھ بعینہ ایسی زندگی جیسی ہماری زمین پر پروان چڑھی ۔۔۔۔۔۔ کے پائے جانے کے بھی قوی امکانات ہیں۔
فرض کریں کسی اور سیّارے پر انسان ہیں۔ بالکل ایسے انسان جیسے ہم ہیں۔ فرض کریں وہ سیّارہ ہماری کہکشاں میں بہت دور یا کسی اور کہکشاں میں واقع ہے اور فرض کریں کہ وہ انسان ہم سے تاریخ میں بہت آگے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ہم سے دس ہزار سال ایڈوانس ہیں، تو یقیناً ان کی ٹیکنالوجیز ہماری ٹیکنالوجیز سے بالکل مختلف ہونگی۔ ہوسکتاہے وہ مشینی زندگی کی بجائے کسی اور میٹریل سے کام لیتے ہوں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے سیارے کا سارا نظام بائیو میکینکل بنالیا ہو۔ جینٹک انجنئرنگ کی ترقی کی موجودہ رفتار دیکھ کر لگتاہے کہ فقط ایک صدی بعد انسان ہرطرح کے جانور تخلیق کرنے پر قادر ہونگے۔ پودے، پرندے اور جراثیم تو تخلیق کربھی رہے ہیں۔ کسی خبر میں پڑھا تھا کہ امریکہ میں ایک ایسا بیکٹیریا پیدا کیا گیا ہے جس کا فضلہ اعلیٰ قسم کا پلاسٹک ہے۔ ابتدائی تجربات کی کامیابی کے بعد ان بیکٹیریاز کی فیکٹری لگانے کا منصوبہ زیر ِ غور ہے۔ چنانچہ اگر کسی اور سیّارے پر زندگی ہوئی اور وہ لوگ سچ مچ ہم سے بہت زیادہ ایڈوائنس ہوئے تو ہوسکتاہے انہوں نے ڈارک میٹر دریافت کرلیا ہو یا اُن کے پاس اینٹی میٹر کی کافی ساری مقدار موجود ہو اور یوں توانائی کا مسئلہ ان کے ہاں وجود ہی نہ رکھتاہو یا وجود رکھتا ہو تو اس سے بھی زیادہ توانائی ان کا مقصود ہو۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ انہوں نے اِس جسمانی ہییت میں جان بوجھ کر تبدیلیاں کردی ہوں اور جسم کے اِس بھاری تھیلے کو کم سے کم کرکے خود کو ہلکا پھلکا بنا لیا ہو۔ یا یہ بھی ہوسکتاہے کہ وہ خود کو ڈی میٹریلائز کرسکتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم سے اس قدر آگے ہونے کی وجہ سے انہوں نے دیگر سیّاروں پر موجود زندگی یا انسانوں کے ہونے کا کھوج پالیا ہو۔ یا سرے سے اُس زندگی یا انسانیت کے بیج ہی بعض سیّاروں پر خود پھینکے ہوں۔
امکانات سے انکار ہی اصل کفر ہے۔ امکانات ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ دور حاضر کی سائنس تو اسے امکان کہتی ہی نہیں بلکہ ''پیرالل رئیلٹی'' کہتی ہے اور موجودہ کائنات کو یونیورس نہیں بلکہ آبزرویبل یونیورس (قابل ِ مشاہدہ کائنات) کا نام دیتی ہے۔ اور بقول کارل ساگان،
''یہ کائنات، حیات سے چھلک رہی ہے''
اگر ایسا ہے تو ایک نہ ایک دن ہمیں ضرور معلوم ہوجائیگا۔ جس طرح ایک دن ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اگر زمین کو گول مان لیا جائے تو یورپ سے ایشیأ تک کا سمندری سفر کرنے سے راستے میں ایک اجنبی اور بالکل نیا براعظم آتاہے، جہاں ہمارے جیسے انسان ہیں۔ کئی صدیوں تک انسان کی حیرت یہ سوچ سوچ کر فزوں ہوتی رہی کہ وہاں انسان کیسے پہنچے ہونگے؟ اور گزشتہ صدی میں کھوج لگایا گیا کہ پچیس ہزار سال پہلے سائبیریا اور الاسکا کے درمیان جمی ہوئی برف تھی۔۔۔۔۔۔۔ تھرتھراتا ہوا پانی نہیں تھا۔ اور ایشیأ کے لوگ وہاں سے پیدل براعظم امریکہ پہنچے۔ یہ ایشیأ کے آراواک قبائل تھے۔ قدیم امریکی جنہیں ہم ریڈ انڈینز کہتے ہیں وہ نسلاً ہم ایشیایوں کے بھائی ہیں۔
بالکل اسی طرح کبھی یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم کسی اور سیارے کے بچھڑے ہوئے بچے نکلیں۔ کسی بڑے مرکز کا ٹکڑا ۔ کسی بہت بڑی تقسیم کا حصہ۔ کسی کاسموپولیٹن سوسائٹی کا محض ایک تجربہ۔
زمین تک پہنچنے والے متعدد قسم کے معلوم و نامعلوم پارٹیکلز کوئی مسیجز ہیں یا فقط لہریں؟ فزکس کے لوگ کہتے ہیں کہ اگلے زمانے کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا انٹینا سے رابطہ کٹ جانے کے بعد سکرین پر جو مکھیاں سی آجایا کرتی تھیں اور شور ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ سگنلز ہیں جو کائنات سے آرہے ہوتے ہیں۔ یہ تو ہم سب مانتے ہیں کہ کائنات میں بڑی مِسٹری ہے۔ رازوں سے لبریز یہ تاریک خلا بہت مہیب ہے۔ بے پناہ اسرار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم ہیں کہ اس کے ایک ذرّے پر آباد ہیں۔
فرض کریں ہمیں پہلے سے موجود زندگی نہیں ملتی پھر بھی یہ تو یقینی ہے کہ اگر انسان نے خود کو اِن فضول اور بے مقصد لڑائیوں میں ختم نہ کرلیا تو مستقبل کا انسان دیگر سیارے آباد کرنے کا اہل ہوگا۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ایک کاسموپولیٹن سوسائیٹی کے وجود میں آنے کے امکانات کو کوئی نہیں روک سکتا۔ فرض کریں یہ سب آج سے پانچ ہزار سال بعد ہوجائیگا تو پھر ایسا سوچنا کہ آج سے پانچ ہزار سال پہلے ایسا ہوا بھی ہوگا کہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم اسی کے پارچہ جات ہیں جو کبھی نہ کبھی جان جائینگے کہ ہم کیسے، کب اور کہاں بچھڑے تھے۔ تو ایسا سوچنے میں حرج ہی کیا ہے؟
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔