اگرچہ مشہور سینٹر لمٹ تھیوری کے ساتھ ہی ایبسولیوٹزم کی کسی حد تک واپسی کے آثار نظر آنے لگ گئے تھے کیونکہ سینٹر لمٹ تھیوری اپنی تمام تر لاجک کے ساتھ "تقریباً ایبسولیوٹ" (Approximately absolute) ویلیو نکالنے کی مہارت حاصل کرچکی ہے۔ لیکن اس سے بالکل ہٹ کر تازہ ترین فزکس بالخصوص لارج ہائیڈران کولائیڈر کے لوگ جس تیزی کے ساتھ سٹرنگ تھیوری کے حق میں "جہان ِ واحد" (Universe) کے نظریہ سے منحرف ہوتے جارہے ہیں ، معلوم ہوتاہے بہت جلد ایک بار پھر مطلق کائنات کا تصور سائنس کی دنیا پر غلبہ پالے گا۔ کیونکہ سٹرنگ تھیوری کے مطابق ڈائمینشنز بہت سی ہیں اور جب سٹرنگ تھیوری مزید ایڈوانس ہوتی ہے تو "برین تھیوری" میں تبدیل ہوکر بے شمار کائناتوں (Multiverse) کے نظریہ کو اختیار کرلیتی ہے۔ ایسی صورت میں ایک اکیلا بگ بینگ یہ ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہوجاتا ہے کہ کائنات حادث ہے اور وقت کے کسی خاص لمحے میں وجود میں آئی تھی۔اس کے برعکس وہی پرانا عقیدہ کہ کائنات قدیم ہے ، یہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی قوت پکڑتادکھائی دیتاہے۔
کائنات کے بارے میں اب تک جانا گیا علم ،حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کی تصدیق کرتاہوا اب باہمی اتحادواتصال کے آخری مراحل میں سے گزرتا ہوا نظرآرہاہے۔ ہزاروں سال تک مادہ اور انرجی کو الگ الگ اجزائے کائنات سمجھا جاتاتھا۔ اب مادہ اور انرجی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات اور انرجی کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات ایک دوسرے میں نہایت آرام سے بدل جاتے ہیں۔ مادہ توانائی اور توانائی مادہ بن جاتی ہے۔ فلہذا مادے کی نئی تعریف یہ ہے ہی نہیں کہ "وہ جسم جو جگہ گھیرے"۔۔۔۔۔کیونکہ توانائی کوئی جگہ نہیں گھیرتی اور مادہ بھی توانائی کی ہی ایک شکل ہے اس لیے اب مادہ اپنی ماہیت میں محض ایک مقدار کا نام ہے۔ بقول کارل ساگان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "مادہ کیا ہے؟ محض رفتاروں کا تناسب"۔ نہ صرف مادہ اور توانائی نے عہد ِ حاضر میں وصل پایا ہے بلکہ توانائی کی مختلف لہریں جنہیں نوع کے اعتبار سے الگ الگ سمجھا جاتا تھا تقریبا سب کی سب ہی اب ایک ہی دھاگے سے بندھ چکی ہیں۔ اسی لیے ایم تھیوری کو "تھیوری آف ایوری تھنگ" کہا جاتاہے۔
اگرچہ کائنات کی جادونگری میں ہوتا عموماً یوں ہے کہ جب منزل پرجاپہنچتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ وہ تو اصل راستے کی کھڑکی تھی۔ ماضی میں جب انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ زمین گول ہے اور وہ اسے چپٹی سمجھتا تھا تو وہ زمین کو آسمان کے نیچے لامتناہی طور پر پھیلاہوا بھی محسوس کرتاتھا۔کیونکہ اساطیر سے معلوم ہوتاہے کہ انسان خشکی کے اختتام پر سمندر اور سمندر کی حدود کو لامتناہی تصور کرتاتھا۔ اس زمانے میں جب سمندری سفرکے دوران کوئی نیا جزیرہ ملتا تو انسان کو عجب خوشی محسوس ہوتی۔ پھر جب براعظم ہی نئے ملنے لگے تو لوگ وہاں سے آنے والوں سے پوچھا کرتے تھے کہ وہاں جو انسان بستے ہیں کیا اُن کی شکلیں بھی ہمارے جیسی ہیں؟
بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے "تاریخ ِ عالم" میں لکھاہے،
"شمال سے آنے والے بعض سوداگروں سے میں نے سنا ہے کہ شمال میں بہت اوپر جاکر۔۔۔۔سیتھیا سے اُس طرف۔۔۔۔۔۔ ایک آنکھ والے انسان آباد ہیں"۔
ایک جگہ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے،
" تیز ہوائیں جب سورج کو پرے دھکیل دیتی ہیں تو نیل کے اُتار چڑھاؤ میں فرق آنے لگتاہے"۔
اُس زمانے میں اگر کوئی کسی کو بتاتا کہ زمین گول ہے تو لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے، اگرچہ ڈیماکریٹس جیسے لوگ اس زمانے میں بھی زمین کے گول ہونے کا خاطرخواہ ادراک رکھتے تھے۔ لیکن اُس وقت ان کے تصورات جنّاتی اور مبہم سمجھے جاتے تھے، جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ پھر ایک وقت آیا جب انسان کو پتہ چلا کہ زمین گول ہے اور یہ ایک سیارہ ہے۔کسی ایک انسان کو نہیں۔ سیارۂ زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو پتہ چل گیا کہ زمین گول ہے۔ تو اُن کا منطقی فہم بھی اس نئے تصور کو قبول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب انسان صرف اپنے سورج اور اس کے سیاروں کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔ پھر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اُسے پتہ چلا ۔۔۔۔۔۔ سورج تو خود ایک معمولی ستارہ ہے۔ اس جیسے کتنے ہی ستارے اور ہیں۔ اصل کائنات تو ملکی وے ہے۔ انیس سو بیس (1920) تک انسانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ملکی وے کے علاوہ بھی اس کائنات میں کہکشائیں ہیں ۔
جب یہ پتہ چلا کہ کائنات بہت بڑی ہے اور اس میں ملکی وے جیسی بلکہ اسے کئی کئی گناہ بڑی لاکھوں کروڑوں کہکشائیں اور بھی ہیں تو وہ اس یقین کے ساتھ جینے لگا کہ چلو! کائنات کا اس حد تک تو پتہ چلا کہ اس کی حدود وہاں تک ہیں جہاں تک تقریباً چودہ بلین سال میں مادہ پہنچا ہوگا۔ اور انسان پھر ایک مرتبہ ایک محدود سفیئر (کُرے) میں رہنے لگا۔ بالکل ویسے جیسے بہت پہلے رہتا تھا۔ جس طرح سمندر میں مچھلی کا رہنا جبر ہے بالکل اسی طرح انسان ایک گنبد کی تاریکی میں رہنے پر مجبور کیوں ہے؟ کیا فکر کا وہی سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اب تک رہا؟ خشکی کے ایک ٹکڑے سے دوسرے ٹکڑے تک کا سفر ہو یا ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک کا۔۔۔۔۔۔ ایک کہکشاں سےدوسری کہکشاں کا یا کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ سے دوسرے جھرمٹ کا۔۔۔۔۔ قانون تو یہی رہا ہے کہ وہ گنبد، وہ محدود سفئیر جس میں ہم رہتے ہیں پہلے سے بڑی ، کھلی اور وسیع ہوتی چلی گئی ہے تو اب کیوں نہیں؟
کائنات کے موجودہ معلوم سٹرکچر پر بات ختم نہیں ہوجاتی۔ لگتاہے ہم نے ابھی صرف پہلی کائنات دریافت کرلی ہے۔ اور اب کائناتیں دریافت ہونے کا وقت ہے۔کوانٹم، سٹرنگ تھیوری، برین تھیوری، مینی ورلڈ تھیوری، ملٹی ورس تھیوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِن سب کا مسلسل اصرار ہے کہ بات بگ بینگ سے شروع نہیں ہوتی۔ کہانی بہت لمبی ہے۔اگر بِگ بینگ اپنی نوع میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک سلاسل ِ بگ بینگ کا وجود ہے تو پھر آغاز اور اختتام کا نظریہ یقیناً ایک بار پھر ایبسولیوٹزم کا شکار ہوجائیگا۔
گزشتہ صدی میں سب سے پہلے فزکس میں ایبسولیوٹزم کے خاتمے کے بعد ہی دیگر شعبہ ہائے حیات سے اِس کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اب دوبارہ سب سے پہلے فزکس ہی کائنات کے مطلق ہونے کی طرف واپس جانا چاہتی ہے، ہرچند کہ یہ واپسی مختلف ہے اور اب خلائے مطلق پہلے سے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ہے جس میں ایک نہیں لامتناہی کائناتیں سما سکتی ہیں لیکن رہے گی وہ پھر بھی خلا ہی۔ یہاں میں نے وقتی طورپر مکان کی جگہ "خلا(Void)" کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے۔ یعنی وہ مکان (Space) نہ سہی جسے ہماری کائنات کے مادے نے تخلیق کیا بلکہ وہ "خلا" سہی جو کسی تصورِ محض کی طرح لامتناہی وجود رکھتی ہے۔جس طرح مولانا محمد حسین آزاد نے "انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا" میں لکھا ہے کہ "میدان، میدان ِ خیال سے بھی بڑا میدان"۔۔۔۔۔ ایسا ہی میدان ِ عالمین جہاں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہزاروں نئے بگ بینگ ہوتے ہیں اور لاکھوں نئی کائناتیں وجود میں آتی ہیں۔ایسی "خلائے مطلق " کا آغاز کہاں سے ہوگا اور انجام کہاں تک تصور میں لایا جاسکتاہے؟
ملٹی ورس کبھی ثابت ہوگئی تو جو دیومالائیت علم ِ انسانی کا حصہ بننے والی ہے اس کا خواب کبھی مذہب نے بھی نہ دیکھاہوگا۔ تمام تر اساطیر اور مذاہب کے تمام تر قصے اُس طلسم ہوشربا کے سامنے ہیچ نظر آئینگے جس کی پٹاری کا نام لارج ہائیڈران کولائیڈ (LHC)ہے۔
سٹرنگ تھیوری ایک نہیں ہے۔ پانچ مختلف ٹیموں نے ، دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بیٹھ کر پانچ مختلف تھیوریز کئی سال تک ڈیولپ کیں اور پھر جاکر 97ء کی ایک کانفرنس میں وہ پانچ تھیوریز آپس میں ملائی گئیں تو سب لوگ مختلف رنگ میں ایک ہی قسم کے نتائج پر پہنچے تھے۔اور یوں ایک مشترکہ سٹرنگ تھیوری جسے "ایم تھیوری" کے نام سے پکارا جاتاہے ہے سامنے آئی۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاضی کی حد تک ثابت ہونے والی تھیوریز پر کیونکر حقیقت ہونے کا گمان کیا جائے؟ لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمیشہ ریاضی سب تھیوریز کے آگے آگے چلتی ہے۔ مثلاً آئن سٹائن کی ریاضی پر جب آئن سٹائن کے بعد کام شرو ع ہوا تو نہ صرف کوانٹم نے بے شمار انوکھی تھیوریز پیش کردیں بلکہ ، اینٹی میٹر،بلیک ہولز، ڈارک انرجی اور بے شمار دیگر ریاضیاتی مساواتیں سامنے آئیں جو بہت کم وقفے میں ریاضی سے فزکس میں تبدیل ہوکر تجربات سے ثابت بھی ہوگئیں۔چنانچہ آج اگر اسی سلسلے کی ایک بہت خوفناک کڑی کے طور پر سٹرنگ تھیوری اورزیادہ بڑے نام کی شکل میں "ایم تھیوری" یا زیادہ جدید نام کی شکل میں "برین تھیوری" ریاضی کی مساواتوں میں ثابت ہورہی ہے تو کل کو اس کے فزکس بن جانے اور تجربے کی بھٹی سے گزر جانے کے امکانات بھی کم نہیں ہیں۔
اگر خدا نخواستہ برین تھیوری درست ثابت ہوجاتی ہے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ یہ طے ہے کہ جتنا کچھ ہم جانتے ہیں یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل جائےگا۔ انسان خود اس قابل ہوجائے گا کہ اس کائنات جیسی کئی کائناتیں تخلیق کرسکے۔
کائنات کے بارے میں اب تک جانا گیا علم ،حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کی تصدیق کرتاہوا اب باہمی اتحادواتصال کے آخری مراحل میں سے گزرتا ہوا نظرآرہاہے۔ ہزاروں سال تک مادہ اور انرجی کو الگ الگ اجزائے کائنات سمجھا جاتاتھا۔ اب مادہ اور انرجی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات اور انرجی کے چھوٹے سے چھوٹے ذرات ایک دوسرے میں نہایت آرام سے بدل جاتے ہیں۔ مادہ توانائی اور توانائی مادہ بن جاتی ہے۔ فلہذا مادے کی نئی تعریف یہ ہے ہی نہیں کہ "وہ جسم جو جگہ گھیرے"۔۔۔۔۔کیونکہ توانائی کوئی جگہ نہیں گھیرتی اور مادہ بھی توانائی کی ہی ایک شکل ہے اس لیے اب مادہ اپنی ماہیت میں محض ایک مقدار کا نام ہے۔ بقول کارل ساگان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "مادہ کیا ہے؟ محض رفتاروں کا تناسب"۔ نہ صرف مادہ اور توانائی نے عہد ِ حاضر میں وصل پایا ہے بلکہ توانائی کی مختلف لہریں جنہیں نوع کے اعتبار سے الگ الگ سمجھا جاتا تھا تقریبا سب کی سب ہی اب ایک ہی دھاگے سے بندھ چکی ہیں۔ اسی لیے ایم تھیوری کو "تھیوری آف ایوری تھنگ" کہا جاتاہے۔
اگرچہ کائنات کی جادونگری میں ہوتا عموماً یوں ہے کہ جب منزل پرجاپہنچتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ وہ تو اصل راستے کی کھڑکی تھی۔ ماضی میں جب انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ زمین گول ہے اور وہ اسے چپٹی سمجھتا تھا تو وہ زمین کو آسمان کے نیچے لامتناہی طور پر پھیلاہوا بھی محسوس کرتاتھا۔کیونکہ اساطیر سے معلوم ہوتاہے کہ انسان خشکی کے اختتام پر سمندر اور سمندر کی حدود کو لامتناہی تصور کرتاتھا۔ اس زمانے میں جب سمندری سفرکے دوران کوئی نیا جزیرہ ملتا تو انسان کو عجب خوشی محسوس ہوتی۔ پھر جب براعظم ہی نئے ملنے لگے تو لوگ وہاں سے آنے والوں سے پوچھا کرتے تھے کہ وہاں جو انسان بستے ہیں کیا اُن کی شکلیں بھی ہمارے جیسی ہیں؟
بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے "تاریخ ِ عالم" میں لکھاہے،
"شمال سے آنے والے بعض سوداگروں سے میں نے سنا ہے کہ شمال میں بہت اوپر جاکر۔۔۔۔سیتھیا سے اُس طرف۔۔۔۔۔۔ ایک آنکھ والے انسان آباد ہیں"۔
ایک جگہ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے،
" تیز ہوائیں جب سورج کو پرے دھکیل دیتی ہیں تو نیل کے اُتار چڑھاؤ میں فرق آنے لگتاہے"۔
اُس زمانے میں اگر کوئی کسی کو بتاتا کہ زمین گول ہے تو لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے، اگرچہ ڈیماکریٹس جیسے لوگ اس زمانے میں بھی زمین کے گول ہونے کا خاطرخواہ ادراک رکھتے تھے۔ لیکن اُس وقت ان کے تصورات جنّاتی اور مبہم سمجھے جاتے تھے، جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا۔ پھر ایک وقت آیا جب انسان کو پتہ چلا کہ زمین گول ہے اور یہ ایک سیارہ ہے۔کسی ایک انسان کو نہیں۔ سیارۂ زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو پتہ چل گیا کہ زمین گول ہے۔ تو اُن کا منطقی فہم بھی اس نئے تصور کو قبول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب انسان صرف اپنے سورج اور اس کے سیاروں کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔ پھر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اُسے پتہ چلا ۔۔۔۔۔۔ سورج تو خود ایک معمولی ستارہ ہے۔ اس جیسے کتنے ہی ستارے اور ہیں۔ اصل کائنات تو ملکی وے ہے۔ انیس سو بیس (1920) تک انسانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ملکی وے کے علاوہ بھی اس کائنات میں کہکشائیں ہیں ۔
جب یہ پتہ چلا کہ کائنات بہت بڑی ہے اور اس میں ملکی وے جیسی بلکہ اسے کئی کئی گناہ بڑی لاکھوں کروڑوں کہکشائیں اور بھی ہیں تو وہ اس یقین کے ساتھ جینے لگا کہ چلو! کائنات کا اس حد تک تو پتہ چلا کہ اس کی حدود وہاں تک ہیں جہاں تک تقریباً چودہ بلین سال میں مادہ پہنچا ہوگا۔ اور انسان پھر ایک مرتبہ ایک محدود سفیئر (کُرے) میں رہنے لگا۔ بالکل ویسے جیسے بہت پہلے رہتا تھا۔ جس طرح سمندر میں مچھلی کا رہنا جبر ہے بالکل اسی طرح انسان ایک گنبد کی تاریکی میں رہنے پر مجبور کیوں ہے؟ کیا فکر کا وہی سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اب تک رہا؟ خشکی کے ایک ٹکڑے سے دوسرے ٹکڑے تک کا سفر ہو یا ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک کا۔۔۔۔۔۔ ایک کہکشاں سےدوسری کہکشاں کا یا کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ سے دوسرے جھرمٹ کا۔۔۔۔۔ قانون تو یہی رہا ہے کہ وہ گنبد، وہ محدود سفئیر جس میں ہم رہتے ہیں پہلے سے بڑی ، کھلی اور وسیع ہوتی چلی گئی ہے تو اب کیوں نہیں؟
کائنات کے موجودہ معلوم سٹرکچر پر بات ختم نہیں ہوجاتی۔ لگتاہے ہم نے ابھی صرف پہلی کائنات دریافت کرلی ہے۔ اور اب کائناتیں دریافت ہونے کا وقت ہے۔کوانٹم، سٹرنگ تھیوری، برین تھیوری، مینی ورلڈ تھیوری، ملٹی ورس تھیوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِن سب کا مسلسل اصرار ہے کہ بات بگ بینگ سے شروع نہیں ہوتی۔ کہانی بہت لمبی ہے۔اگر بِگ بینگ اپنی نوع میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک سلاسل ِ بگ بینگ کا وجود ہے تو پھر آغاز اور اختتام کا نظریہ یقیناً ایک بار پھر ایبسولیوٹزم کا شکار ہوجائیگا۔
گزشتہ صدی میں سب سے پہلے فزکس میں ایبسولیوٹزم کے خاتمے کے بعد ہی دیگر شعبہ ہائے حیات سے اِس کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اب دوبارہ سب سے پہلے فزکس ہی کائنات کے مطلق ہونے کی طرف واپس جانا چاہتی ہے، ہرچند کہ یہ واپسی مختلف ہے اور اب خلائے مطلق پہلے سے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ہے جس میں ایک نہیں لامتناہی کائناتیں سما سکتی ہیں لیکن رہے گی وہ پھر بھی خلا ہی۔ یہاں میں نے وقتی طورپر مکان کی جگہ "خلا(Void)" کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے۔ یعنی وہ مکان (Space) نہ سہی جسے ہماری کائنات کے مادے نے تخلیق کیا بلکہ وہ "خلا" سہی جو کسی تصورِ محض کی طرح لامتناہی وجود رکھتی ہے۔جس طرح مولانا محمد حسین آزاد نے "انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا" میں لکھا ہے کہ "میدان، میدان ِ خیال سے بھی بڑا میدان"۔۔۔۔۔ ایسا ہی میدان ِ عالمین جہاں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہزاروں نئے بگ بینگ ہوتے ہیں اور لاکھوں نئی کائناتیں وجود میں آتی ہیں۔ایسی "خلائے مطلق " کا آغاز کہاں سے ہوگا اور انجام کہاں تک تصور میں لایا جاسکتاہے؟
ملٹی ورس کبھی ثابت ہوگئی تو جو دیومالائیت علم ِ انسانی کا حصہ بننے والی ہے اس کا خواب کبھی مذہب نے بھی نہ دیکھاہوگا۔ تمام تر اساطیر اور مذاہب کے تمام تر قصے اُس طلسم ہوشربا کے سامنے ہیچ نظر آئینگے جس کی پٹاری کا نام لارج ہائیڈران کولائیڈ (LHC)ہے۔
سٹرنگ تھیوری ایک نہیں ہے۔ پانچ مختلف ٹیموں نے ، دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بیٹھ کر پانچ مختلف تھیوریز کئی سال تک ڈیولپ کیں اور پھر جاکر 97ء کی ایک کانفرنس میں وہ پانچ تھیوریز آپس میں ملائی گئیں تو سب لوگ مختلف رنگ میں ایک ہی قسم کے نتائج پر پہنچے تھے۔اور یوں ایک مشترکہ سٹرنگ تھیوری جسے "ایم تھیوری" کے نام سے پکارا جاتاہے ہے سامنے آئی۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ریاضی کی حد تک ثابت ہونے والی تھیوریز پر کیونکر حقیقت ہونے کا گمان کیا جائے؟ لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمیشہ ریاضی سب تھیوریز کے آگے آگے چلتی ہے۔ مثلاً آئن سٹائن کی ریاضی پر جب آئن سٹائن کے بعد کام شرو ع ہوا تو نہ صرف کوانٹم نے بے شمار انوکھی تھیوریز پیش کردیں بلکہ ، اینٹی میٹر،بلیک ہولز، ڈارک انرجی اور بے شمار دیگر ریاضیاتی مساواتیں سامنے آئیں جو بہت کم وقفے میں ریاضی سے فزکس میں تبدیل ہوکر تجربات سے ثابت بھی ہوگئیں۔چنانچہ آج اگر اسی سلسلے کی ایک بہت خوفناک کڑی کے طور پر سٹرنگ تھیوری اورزیادہ بڑے نام کی شکل میں "ایم تھیوری" یا زیادہ جدید نام کی شکل میں "برین تھیوری" ریاضی کی مساواتوں میں ثابت ہورہی ہے تو کل کو اس کے فزکس بن جانے اور تجربے کی بھٹی سے گزر جانے کے امکانات بھی کم نہیں ہیں۔
اگر خدا نخواستہ برین تھیوری درست ثابت ہوجاتی ہے تو سب کچھ بدل جائے گا۔ یہ طے ہے کہ جتنا کچھ ہم جانتے ہیں یہ سب کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل جائےگا۔ انسان خود اس قابل ہوجائے گا کہ اس کائنات جیسی کئی کائناتیں تخلیق کرسکے۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔