کثیر جہتی کائناتیں اور ملٹی ورس
ناموجود یا عدم وجود(Nothingness) ایک ایسی کیفیت ہے جس میں کچھ بھی موجود نہیں ہوتا۔ ہماری کائنات بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی اس سے قبل یہ کائنات وجود نہیں رکھتی تھی۔ خلا، مادہ، توانائی اور وقت سبھی بگ بینگ کے اس لمحے میں پیدا ہوئے اور ہماری کائنات پھیلتی چلی گئی۔ پلانک دور(Plank Era) کے دوران خلا کے پھیلاؤ اور کشش ثقل کی کشمکش کے باعث قوتی عدم توازن کو قابو میں رکھنے کے لیئے ثقالت کی ضد کے طور پر توانائی اور مادہ پیدا ہوتے رہے۔ طبعیات میں ہونے والے جدید ترین رسرچ یعنی کائناتی افراط(Inflationary Cosmology) کے نظریہ کے مطابق کائناتی پیدائش کے ابتدائی دور جسکو پلانک دور کہا جاتا ہے اس میں کشش ثقل آج کی ثقالت کے منافی(Repelling force) قوت تھی، یعنی یہ مادے کو جوڑنے کے بجائے کائناتی پھیلاؤ میں اپنا کردار ادا کر رہی تھی۔ مگر کائناتی پیدائش کے چند لمحوں بعد جب درجہ حرارت قدرے کم ہوا تو کشش ثقل کی حیت(Nature) بدلی اور یہ کشش پر مبنی قوت بن گئی۔ اور اس قوت کے باعث، ستارے کہکشائیں اور سیارے وجود میں آئے۔
مگر عدم وجود کیا ہے؟ عدم وجود وہ حالت ہے جب زماں و مکاں کا تصور بھی محال ہے۔ یعنی عدم وجود کی صورت میں زماں اور مکاں کا تصور کیا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ سوچنے اور تصور کرنے کے لئے بھی وقت درکار ہے۔ اور بگ بینگ سے پہلے وقت بھی موجود نہیں تھا۔
علم الہیات یا فلسفے کے میدان میں عدم وجود کے تصور کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اور عام طور پر عدم وجود سے وجود کا آلہ کار خداوندِ خدا کو قرار دیا جاتا ہے۔ مگر پچھلی ایک صدی کی طبعیاتی تحقیق کے نتیجے میں کچھ ایسے تصورات اور امکانات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جن کی بنا پرکہا جا سکتا ہے کہ ہماری کائنات واحد کائنات نہیں۔ بلکہ ان گنت کائناتیں موجود ہو سکتی ہیں۔
ہم چہار جہتی کائنات میں وجود رکھتے ہیں۔ اس کائنات میں تین جہتیں مکاں کی جبکہ ایک جہت زماں کی ہے۔ زماں کی جہتوں میں آزاد حرکت ممکن ہے مگر مکانی جہت یک سمتی ہے۔ یعنی وقت صرف ایک ہی رو سے بہتا ہے۔ یہ صرف آگے جاتا ہے۔ اس کا رخ واپس موڑنا ممکن نہیں ہے۔
ہماری کائنات میں چار قوتوں کا راج ہے۔ ان میں سرفہرست ثقالت ہے، اس کے علاوہ برقی مقناطیسی قوت، قوی اور ناتواں نیوکلیائی قوتیں بھی موجود ہیں۔ مگر باقی کی تین قوتوں کے مقابلے میں ثقالت انتہائی ناتواں ہے۔ یعنی پوری زمین کا مادہ 9.8 میٹر فی سیکنڈ کی ثقالتی اسراع (gravitation acceleration) پیدا کر سکتا ہے۔ اور اس قوت کا مقابلہ آسانی سے ہو جاتا ہے، یعنی ہم پوری زمین کے مادے کے باعث پیدا ہونے والی ثقالتی قوت کے خلاف اپنے پٹھوں کے استعمال سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یعنی ثقالت در اصل چار کائناتی قوتوں میں سب سے ناتواں قوت ہے۔ ثقالت کی اس کمزوری کو سمجھنے کے لئے سٹرنگ تھیوری کی مدد لی جا رہی ہے، سٹرنگ تھیوری پر کام کرنے والے سائنسدان ریاضتی مساوات اور مشقوں سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہماری کائنات سے زیادہ جہتیں رکھنے والی کائناتوں کا وجود بھی ممکن ہے۔ اور جتنی جس کائنات کی جہتیں زیادہ ہوں گی اس میں ثقالت اتنی ہی قوی ہو گی۔ حتیٰ کہ 11 جہتوں والی کائنات میں ثقالتی قوت بھی باقی قوتوں ہی کی طرح کی قوت رکھتی ہو گی۔
مگر ہمارے لیئے ان کثیر جہتی کائناتوں کا تصور بھی محال ہے۔ ایک نقطہ جس کی لمبائی اور چوڑائی صفر ہے دراصل صفر جہتی کائنات کی مثال ہے، مگر ایک لکیر صرف لمبائی رکھتی ہے اور اس کے کونوں پر دو نقطے ہیں جنہوں نے اس کو گھیر رکھا ہے۔ یعنی یک جہتی لکیر کودو صفر جہتی نقطوں نے گھیر رکھا ہے۔ اسی طرح ایک مربع دو جہتی کائنات ہے۔ اور اس کو چار یک جہتی لکیروں نے گھیر رکھا ہے۔ یہ دو جہتی کائنات کی تصویر پیش کرتا ہے۔ مگر ہماری کائنات سہہ جہتی ہے۔ اس میں برابر لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کے مکعب وجود رکھتے ہیں، یہ مکعب 6 اکار یعنی faces رکھتے ہیں۔ یعنی ایک یک جہتی لکیر دو صفر جہتی نکتوں سے گھری ہوئی ہے، اسی طرح ایک دو جہتی مربع چار دو جہتی لکیروں سے گھرا ہوا ہے، اسی طرح ایک سہہ جہتی مکعب 6 دو جہتی مربعوں سے گھرا ہوا ہے۔ اسی طرح چار جہتوں کی کائنات میں وجود رکھنے والا مکعبِ بالا(Hyper-Cube or Tesseract) 8 اکار رکھتا ہے اور یہ آٹھوں اکار 3 جہتی مکعب ہیں۔ ہم ایسی شکل کا تصور نہیں کر سکتے کیونکہ ہم سہہ جہتی کائنات میں موجود ہیں اور ہمارے حواسِ خمسہ سہہ جہتوں کے تصور کے لئے ارتقاء پائے ہیں۔
کوانٹم فزکس میں ہونے والے عجیب و غریب اور مافوق العقل عمل بالا جہتی کائناتوں کی طرف اشارہ دیتے ہیں۔ ایک الیکٹران عدم سے یکدم وجود میں آتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ اور روشنی کی رفتار سے تیز کسی اور مقام پر آموجود ہوتا ہے۔ دو الیکٹران ایک دوسرے سے نتھی ہو جاتے ہیں اس عمل کو quantum entanglement کہا جاتا ہے۔ یہ سبھی عمل بالا جہتوں کی موجودگی کی نشاندھی کرتے ہیں.
ایک دو جہتی کائنات بلکل ایک صفحے کی طرح چپٹی ہو گی۔ اگر ہم ایک سہہ جہتی بیضے کو دو جہتی کائنات سے گزاریں تو وہ اولاً ایک نقطے کے طور پر رونماء ہو گا۔ پھر وہ نقطہ ایک دائرے کی شکل میں بڑا ہونے لگے گا، اسی طرح یہ دائرہ بڑھنے کے بعد چھوٹا ہوتا جائے گا۔ دو جہتی کائنات میں رہنے والا جاندار اس عمل کو سمجھ نہیں پائے گا، اس کے لئے یہ انتہائی مافوق عقل واقعہ ہو گا کہ ایک نقطہ نمودار ہوا پھر وہ دائرہ بنا، دائرہ بڑا ہوتا رہا، پھر چھوٹا ہونے لگا، دوبارہ نقطہ بنا اور غائب ہو گیا۔ اس عمل کو سمجھنے کے لئے دو جہتی کائنات کے جاندار کو سہہ جہتی کائنات میں آنا ہو گا تبھی وہ سمجھ پائے گا کہ یہ عمل کیسے ہوا۔
ایم تھیوری یا سٹرنگ تھیوری بالا جہتوں(Higher Dimensions) کی مدد سے کوانٹم مکینکس کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تھیوری کے مطابق بالا جہتوں والی کائنات میں ثقالت بھی باقی قوتوں کی طرح قوی ہوتی ہے، مگر زیریں جہتوں تک آتے آتے ثقالت کی قوت کم ہوتی جاتی ہے۔ سٹرنگ تھیوری کے مطابق 11 جہتوں کی کائنات میں ثقالت بھی باقی قوتوں کے مطابق قوت رکھتی ہے۔
خیر تصورات کئی ہیں۔ کائنات کے وجود اور پیدائش کو بیان کرتے کئی مافوق الفطرت الہیاتی تصورات پائے جاتے ہیں۔ ان تصورات کے مطابق کائنات کی پیدائش کسی آلہ کار یا خدا کے باعث ہوئی۔ مگر آج ہم کثیر الکائناتی اور کائنات بالا کے تصورات کی طرف جا رہے ہیں۔ جنکے مطابق ہماری کائنات واحد کائنات نہیں ہے اور اس جیسی ان گنت کائنات ملٹی ورس کا حصہ ہیں۔ اور ہمارا بگ بنگ بھی دوجہتی کائنات میں نمودار ہونے والے ایک نقطے کی طرح ہو سکتا ہے، جو بڑا ہوتا گیا اور کائنات بن گئی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں، ضرور کہیے مگر یہ بھی یاد رکھیے کسی مذھبی کتاب میں لکھی کائنات کی تخلیق کی کہانی کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ ایم تھیوری اور کثیر الکائناتی تصور ریاضی کی مساوات اور طبیعات میں ہونے والی تحقیق کا نچور ہے۔ یہ وہ اشارے ہیں جن پر آنے والے وقت کی سائنس بنیاد رکھے گی۔ اس لئے اصولاً ان کی اہمیت بوگس مذھبی دعووں سے کہیں زیادہ ہے۔
ہم آج کی طبیعات سے انتہائی قوی طور پر امید رکھ سکتے ہیں کہ آنے والے دور میں بغیر کسی شک کے ثابت ہو سکتا ہے کہ ہماری کائنات ملٹی ورس کا حصہ ہے، اور بگ بینگ کوئی انوکھا وقوعہ نہیں۔ مگر یہ تصور کسی الہامی کتاب کی مبہم باتوں سے نہیں بلکہ ریاضتی مساوات اور منطقی سائنس سے سامنے آیا ہے۔
کثیر الکائناتی تصور میں عدم وجود ایک عارضی حالت کے طور پر سامنے آتا ہے۔
غالب کمال۔
ناموجود یا عدم وجود(Nothingness) ایک ایسی کیفیت ہے جس میں کچھ بھی موجود نہیں ہوتا۔ ہماری کائنات بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی اس سے قبل یہ کائنات وجود نہیں رکھتی تھی۔ خلا، مادہ، توانائی اور وقت سبھی بگ بینگ کے اس لمحے میں پیدا ہوئے اور ہماری کائنات پھیلتی چلی گئی۔ پلانک دور(Plank Era) کے دوران خلا کے پھیلاؤ اور کشش ثقل کی کشمکش کے باعث قوتی عدم توازن کو قابو میں رکھنے کے لیئے ثقالت کی ضد کے طور پر توانائی اور مادہ پیدا ہوتے رہے۔ طبعیات میں ہونے والے جدید ترین رسرچ یعنی کائناتی افراط(Inflationary Cosmology) کے نظریہ کے مطابق کائناتی پیدائش کے ابتدائی دور جسکو پلانک دور کہا جاتا ہے اس میں کشش ثقل آج کی ثقالت کے منافی(Repelling force) قوت تھی، یعنی یہ مادے کو جوڑنے کے بجائے کائناتی پھیلاؤ میں اپنا کردار ادا کر رہی تھی۔ مگر کائناتی پیدائش کے چند لمحوں بعد جب درجہ حرارت قدرے کم ہوا تو کشش ثقل کی حیت(Nature) بدلی اور یہ کشش پر مبنی قوت بن گئی۔ اور اس قوت کے باعث، ستارے کہکشائیں اور سیارے وجود میں آئے۔
مگر عدم وجود کیا ہے؟ عدم وجود وہ حالت ہے جب زماں و مکاں کا تصور بھی محال ہے۔ یعنی عدم وجود کی صورت میں زماں اور مکاں کا تصور کیا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ سوچنے اور تصور کرنے کے لئے بھی وقت درکار ہے۔ اور بگ بینگ سے پہلے وقت بھی موجود نہیں تھا۔
علم الہیات یا فلسفے کے میدان میں عدم وجود کے تصور کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اور عام طور پر عدم وجود سے وجود کا آلہ کار خداوندِ خدا کو قرار دیا جاتا ہے۔ مگر پچھلی ایک صدی کی طبعیاتی تحقیق کے نتیجے میں کچھ ایسے تصورات اور امکانات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جن کی بنا پرکہا جا سکتا ہے کہ ہماری کائنات واحد کائنات نہیں۔ بلکہ ان گنت کائناتیں موجود ہو سکتی ہیں۔
ہم چہار جہتی کائنات میں وجود رکھتے ہیں۔ اس کائنات میں تین جہتیں مکاں کی جبکہ ایک جہت زماں کی ہے۔ زماں کی جہتوں میں آزاد حرکت ممکن ہے مگر مکانی جہت یک سمتی ہے۔ یعنی وقت صرف ایک ہی رو سے بہتا ہے۔ یہ صرف آگے جاتا ہے۔ اس کا رخ واپس موڑنا ممکن نہیں ہے۔
ہماری کائنات میں چار قوتوں کا راج ہے۔ ان میں سرفہرست ثقالت ہے، اس کے علاوہ برقی مقناطیسی قوت، قوی اور ناتواں نیوکلیائی قوتیں بھی موجود ہیں۔ مگر باقی کی تین قوتوں کے مقابلے میں ثقالت انتہائی ناتواں ہے۔ یعنی پوری زمین کا مادہ 9.8 میٹر فی سیکنڈ کی ثقالتی اسراع (gravitation acceleration) پیدا کر سکتا ہے۔ اور اس قوت کا مقابلہ آسانی سے ہو جاتا ہے، یعنی ہم پوری زمین کے مادے کے باعث پیدا ہونے والی ثقالتی قوت کے خلاف اپنے پٹھوں کے استعمال سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یعنی ثقالت در اصل چار کائناتی قوتوں میں سب سے ناتواں قوت ہے۔ ثقالت کی اس کمزوری کو سمجھنے کے لئے سٹرنگ تھیوری کی مدد لی جا رہی ہے، سٹرنگ تھیوری پر کام کرنے والے سائنسدان ریاضتی مساوات اور مشقوں سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہماری کائنات سے زیادہ جہتیں رکھنے والی کائناتوں کا وجود بھی ممکن ہے۔ اور جتنی جس کائنات کی جہتیں زیادہ ہوں گی اس میں ثقالت اتنی ہی قوی ہو گی۔ حتیٰ کہ 11 جہتوں والی کائنات میں ثقالتی قوت بھی باقی قوتوں ہی کی طرح کی قوت رکھتی ہو گی۔
مگر ہمارے لیئے ان کثیر جہتی کائناتوں کا تصور بھی محال ہے۔ ایک نقطہ جس کی لمبائی اور چوڑائی صفر ہے دراصل صفر جہتی کائنات کی مثال ہے، مگر ایک لکیر صرف لمبائی رکھتی ہے اور اس کے کونوں پر دو نقطے ہیں جنہوں نے اس کو گھیر رکھا ہے۔ یعنی یک جہتی لکیر کودو صفر جہتی نقطوں نے گھیر رکھا ہے۔ اسی طرح ایک مربع دو جہتی کائنات ہے۔ اور اس کو چار یک جہتی لکیروں نے گھیر رکھا ہے۔ یہ دو جہتی کائنات کی تصویر پیش کرتا ہے۔ مگر ہماری کائنات سہہ جہتی ہے۔ اس میں برابر لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کے مکعب وجود رکھتے ہیں، یہ مکعب 6 اکار یعنی faces رکھتے ہیں۔ یعنی ایک یک جہتی لکیر دو صفر جہتی نکتوں سے گھری ہوئی ہے، اسی طرح ایک دو جہتی مربع چار دو جہتی لکیروں سے گھرا ہوا ہے، اسی طرح ایک سہہ جہتی مکعب 6 دو جہتی مربعوں سے گھرا ہوا ہے۔ اسی طرح چار جہتوں کی کائنات میں وجود رکھنے والا مکعبِ بالا(Hyper-Cube or Tesseract) 8 اکار رکھتا ہے اور یہ آٹھوں اکار 3 جہتی مکعب ہیں۔ ہم ایسی شکل کا تصور نہیں کر سکتے کیونکہ ہم سہہ جہتی کائنات میں موجود ہیں اور ہمارے حواسِ خمسہ سہہ جہتوں کے تصور کے لئے ارتقاء پائے ہیں۔
کوانٹم فزکس میں ہونے والے عجیب و غریب اور مافوق العقل عمل بالا جہتی کائناتوں کی طرف اشارہ دیتے ہیں۔ ایک الیکٹران عدم سے یکدم وجود میں آتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ اور روشنی کی رفتار سے تیز کسی اور مقام پر آموجود ہوتا ہے۔ دو الیکٹران ایک دوسرے سے نتھی ہو جاتے ہیں اس عمل کو quantum entanglement کہا جاتا ہے۔ یہ سبھی عمل بالا جہتوں کی موجودگی کی نشاندھی کرتے ہیں.
ایک دو جہتی کائنات بلکل ایک صفحے کی طرح چپٹی ہو گی۔ اگر ہم ایک سہہ جہتی بیضے کو دو جہتی کائنات سے گزاریں تو وہ اولاً ایک نقطے کے طور پر رونماء ہو گا۔ پھر وہ نقطہ ایک دائرے کی شکل میں بڑا ہونے لگے گا، اسی طرح یہ دائرہ بڑھنے کے بعد چھوٹا ہوتا جائے گا۔ دو جہتی کائنات میں رہنے والا جاندار اس عمل کو سمجھ نہیں پائے گا، اس کے لئے یہ انتہائی مافوق عقل واقعہ ہو گا کہ ایک نقطہ نمودار ہوا پھر وہ دائرہ بنا، دائرہ بڑا ہوتا رہا، پھر چھوٹا ہونے لگا، دوبارہ نقطہ بنا اور غائب ہو گیا۔ اس عمل کو سمجھنے کے لئے دو جہتی کائنات کے جاندار کو سہہ جہتی کائنات میں آنا ہو گا تبھی وہ سمجھ پائے گا کہ یہ عمل کیسے ہوا۔
ایم تھیوری یا سٹرنگ تھیوری بالا جہتوں(Higher Dimensions) کی مدد سے کوانٹم مکینکس کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تھیوری کے مطابق بالا جہتوں والی کائنات میں ثقالت بھی باقی قوتوں کی طرح قوی ہوتی ہے، مگر زیریں جہتوں تک آتے آتے ثقالت کی قوت کم ہوتی جاتی ہے۔ سٹرنگ تھیوری کے مطابق 11 جہتوں کی کائنات میں ثقالت بھی باقی قوتوں کے مطابق قوت رکھتی ہے۔
خیر تصورات کئی ہیں۔ کائنات کے وجود اور پیدائش کو بیان کرتے کئی مافوق الفطرت الہیاتی تصورات پائے جاتے ہیں۔ ان تصورات کے مطابق کائنات کی پیدائش کسی آلہ کار یا خدا کے باعث ہوئی۔ مگر آج ہم کثیر الکائناتی اور کائنات بالا کے تصورات کی طرف جا رہے ہیں۔ جنکے مطابق ہماری کائنات واحد کائنات نہیں ہے اور اس جیسی ان گنت کائنات ملٹی ورس کا حصہ ہیں۔ اور ہمارا بگ بنگ بھی دوجہتی کائنات میں نمودار ہونے والے ایک نقطے کی طرح ہو سکتا ہے، جو بڑا ہوتا گیا اور کائنات بن گئی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں، ضرور کہیے مگر یہ بھی یاد رکھیے کسی مذھبی کتاب میں لکھی کائنات کی تخلیق کی کہانی کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ ایم تھیوری اور کثیر الکائناتی تصور ریاضی کی مساوات اور طبیعات میں ہونے والی تحقیق کا نچور ہے۔ یہ وہ اشارے ہیں جن پر آنے والے وقت کی سائنس بنیاد رکھے گی۔ اس لئے اصولاً ان کی اہمیت بوگس مذھبی دعووں سے کہیں زیادہ ہے۔
ہم آج کی طبیعات سے انتہائی قوی طور پر امید رکھ سکتے ہیں کہ آنے والے دور میں بغیر کسی شک کے ثابت ہو سکتا ہے کہ ہماری کائنات ملٹی ورس کا حصہ ہے، اور بگ بینگ کوئی انوکھا وقوعہ نہیں۔ مگر یہ تصور کسی الہامی کتاب کی مبہم باتوں سے نہیں بلکہ ریاضتی مساوات اور منطقی سائنس سے سامنے آیا ہے۔
کثیر الکائناتی تصور میں عدم وجود ایک عارضی حالت کے طور پر سامنے آتا ہے۔
غالب کمال۔
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔