جمعہ، 17 نومبر، 2017

11:47 AM
 کلوننگ کا انقلاب
 کلوننگ کا انقلاب
 کلوننگ کا انقلاب
''جنت انسان بنائے گا''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عہدِ حاضر میں کچھ ایسی سائنسی دریافتیں ہوچکی ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہم خاصے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے وقت میں انسان اس قابل ہوجائے گا کہ وہ کسی پرانے ڈی این اے کو لے کر اسے نہ صرف کلون کرلے بلکہ اس کی یاداشت بھی اُسے لوٹا سکے۔ اس مفروضے میں جو چیز مشکل ہے وہ ہے یاداشت کا لوٹانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کہ کلون کاپیدا کرنا۔
یاداشت محض ڈی این اے سے لوٹ سکے گی کہ نہیں؟
یہ سوال بہت مضبوط ہے۔ سردست برین ٹو کمپیوٹر اور کمپیوٹر ٹو برین معلومات کا جو تبادلہ ہورہا ہے اور نیورو سائنس کے ساتھ ساتھ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس جس مقام پر موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہنا محال نہیں کہ کسی انسان کی برین ہسٹری کو ریکارڈ کرکے اس کے کلون کے برین میں اپ لوڈ کردیا جائے تو کلون سوفیصد وہی شخص اور شخصیت ہوگا نہ کہ کوئی نیا انسان۔ لیکن پرانے مرگئے انسانوں کے سلسلہ میں ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
ڈارون کے مقابلے میں اگر لامارک کے نظریہ ارتقأ کا ازسر نو جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ لامارک ۔۔۔۔ نسل میں معلومات کی منتقلی کا قائل ہے۔ ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ ڈی این اے کسی حد تک داستانِ حیات ، سنانے کے قابل ہو۔ لیکن یہ خیال بہت بچگانہ ہے۔ خیر! آمدم برسرمطلب اگر سائنس ایسا کچھ بھی کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو بہت آسانی کے ساتھ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ ہماری مطلوبہ جنت انسان خود بنائے گا۔
کسی کی زندگی کی تمام تفصیلات آپ کے پاس ہوں تو آپ اچھی طرح سے فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اس کا آپ کے نزدیک رہنا آپ کے حق میں مفید ہے یا ضرر رساں۔ یقیناً اس وقت تک انسان بہت کچھ سیکھ چکا ہوگا جس میں اہم ترین وہ سبق ہے جو طویل جنگوں، نفرتوں اور دشمنیوں کے بعد سمجھ میں آتاہے۔ ایسے لوگ جن کا معاد ِ جسمانی معاشرے کے لیے ضرر رساں ہوسکتا ہے نظر انداز کرکے ایسے لوگ جن کا معادِ جسمانی یا بعثت معاشرے کے لیے مفید ہے ۔۔۔۔۔۔ دوبارہ جگادیے جائینگے۔
بہت بعد میں یہ بھی ممکن ہے کہ سب کو اُٹھا دیا جائے لیکن اس وقت تک صرف ایک سیارہ ٔ زمین ہی انسان کی دسترس میں نہ ہوگا بلکہ کئی سیاروں پر زندگی ہوگی اور ممکن ہے تمام انسانوں کو جگانے کا مقصد ہی بعض سیاروں پر تربیت کے لیے انسانوں کا بھیجنا اور یہ مہارت سکھانا کہ وہ وائیلنس سے صاف ستھرے ہوکر امن سے زندگی کرنے کے قابل ہوسکیں، ہو۔
خوراک میں زیادہ تر پھل ہونگے یا پرندوں سے حاصل کی گئی پروٹین، کیونکہ جس طرح کی بائیولوجیکل ٹرانسفارمیشن تیزی کےساتھ پیش آرہی ہے، اس میں سب سے زیادہ رفتار پھلوں اور پولٹری کی اقسام کے بدلنے اور بڑھنے کی ہے۔ پچھلی صدی کے دوہزار سولہ میں ہم انسان آم کی صرف غالباً چند قسموں سے واقف تھے، اب ہزاروں قسمیں ہیں۔
پھلوں کے علاوہ یہی حال پولٹری انڈسٹری کا ہے۔ چکن کی سیکنڑوں نئی انواع پیدا کی جاچکی ہیں، جو ہم آئے روز بطور خوراک استعمال کرتے ہیں، اِس بات پر دھیان دیے بغیر کہ یہ مخصوص ٹرانس جینک خوراکوں سے پالے گئے ایسے پرندے ہیں جن کی انواع کو انسانوں نے خود تخلیق کیا۔ مرغیوں کے علاوہ دیگر پرندے بھی بریڈ (Breed)کیے جانے لگے ہیں۔
اس سب کے باوجود یہ تمام خوراکیں ، محض فارغ لوگوں کے لیے ہونگی یا عیّاشی کے لیے۔ کیونکہ خوراک والا وقت بچانے کی جن انسانوں کو ضرورت ہوتی ہے وہ شاید صرف کیپسولوں کی سطح تک ہی رہ جائیں
ادریس آزاد

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔