اتوار، 24 دسمبر، 2017


خدا شخصی ہے یا غیر شخصی ؟اسٹیفن ہاکنگ کے اعتراض کا تجزیہ
ڈاکٹر محمد عقیل
حال ہی میں اسٹیفن ہاکنگ کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے دس سوالات کے جواب دیے ہیں۔۔ ان کے پہلےجواب پر تبصرہ پیش خدمت ہے ۔ اس کا مقصد اہل مذہب کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ اہل سائنس کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا اور ایک ریکنسی لی ایشن کے نتیجے تک پہنچنا ہے۔
سوال: اگر خدا نہیں ہے تو اس کے وجود کا تصور اتنا مقبول کیسے ہو سکتا ہے؟

جواب: میں نے یہ دعوی کبھی نہیں کیا کہ خدا وجود نہیں رکھتا۔ ہم اس جہان میں کیوں ہیں؟ یہ سوال جب بھی ایک انسانی ذہن میں اٹھتا ہے تو اس کی توجیہہ کا نام وہ خدا ہی رکھتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ میرے خیال میں یہ توجیہہ طبعیاتی قوانین پر مشتمل ہے نہ کہ ایک ایسا وجود جس سے کوئی ذاتی تعلق استوار کرنا ممکن ہو۔ میرا خدا ایک غیر شخصی خدا ہے۔ [اسٹیفن ہاکنگ
http://content.time.com/time/magazine/article/0,9171,2029483,00.html%5D۔
تجزیہ : یہاں ہاکنگ کا نقطہ نظر سمجھنا چاہیے اور اس کے بعد ہی ہم ملحدین اور سائنس دانوں کے انکار خدا کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہاکنگ ایک ماہر طبیعات ہونے کی وجہ سے ان قوانین کو خدا کا نام دے رہا ہے جن کی بنا پر یہ کائنات بنی ، ارتقا پذیر ہوئی اور پھیلتی جارہی ہے۔ یہاں وہ خدا سے مراد وہ توجیہہ یا ریزن لے رہا ہے جس کی وجہ سے کائنات بنی اور جن قوانین پر کائنات چل رہی ہے۔
دیکھا جائے تو ہاکنگ اور دیگر ماہر طبیعات خدا کے منکر نہیں بلکہ خدا کے اس تصور کے منکر ہیں اہل مذہب کی اکثریت انہیں فراہم کرتی ہے۔اہل مذہب کی اکثریت کا خدا شخصی ہے اور ایک ایسے جادوگر کی طرح کام کرتا ہے جو جب چاہے ، جو چاہے کردے۔جو کسی قاعدے اور قانون کے ذریعے کام کرنے کا عادی نہ ہو وغیرہ۔ لیکن جب ایک سائنس دان دنیا کو دیکھتا ہے تو اسے کائنات مخصوص قوانین میں چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چنانچہ وہ اس شخصی اور رینڈم خدا کا انکار کردیتا ہے۔
یہاں اہل مذہب کا مقدمہ کمزور لگتا ہے کہ خدا ایک جادوگر کی طرح ایکٹ کرتا ہے۔ اس کی وجہ اہل مذہب کی کتب نہیں بلکہ ان کا فہم ہے۔ اہل مذہب کی تربیت جس ماحول میں ہوئی وہ کوئی سائنسی نہیں بلکہ قدیم یونانی فلسفہ ااور سائنس تھی۔ اس دنیا میں کسی بھی ہستی کے خدا ہونے کی سب سے بڑی علامت یہی ہوتی تھی کہ وہ جب چاہے جو چاہے کردے۔ دوسری جانب جب ہم قرآن اور دیگر آسمانی کتب اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ خدا رینڈم ایکٹ نہیں کرتا۔ خدا کے تخلیق کرنے اور کام کرنے انداز بالکل اسی پیٹرن پر نظر آتا ہے جس پر ہم کائنات کو دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آسمان و زمین چھ دن یا ادوار میں وجود میں آئے ۔ جیسا کہ قرآن میں سورہ فصلت میں بیان ہوتا ہے:
کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو سارے جہان کا مالک ہے ﴿۹﴾ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں ﴿۱۰﴾ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں ﴿۱۱﴾ پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا اور محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں ﴿۱۲﴾
ان آیات پر دوبارہ غور کریں تو یہ پراسیس سامنے آتا ہے:
زمین کی تخلیق = دو دن
اگلا مرحلہ : پہاڑ بنانے کا عمل+ زمین میں برکت یعنی گرو کرنے اور نمو پانے کی صلاحیت+سامان معیشت = دو دن
اگلا مرحلہ : سات آسمانوں کی تخلیق+ آسمان میں احکامات یعنی قوانین و ضوابط کا نزول + چراغوں یعنی ستارے اور سیاروں سے تزین و آرائش = دو دن
یہاں دیکھا جائے تو ایک کے بعد ایک کام تدریج کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ ایک مثال ہے جو مادی دنیا سے متعلق ہے۔ دوسری جانب روحانی اور غیر مرئی دنیا کو دیکھیں تو وہاں بھی خد ا رینڈ م ایکٹ نہیں کرتا۔ اس نے فرشتوں کی ایک بیوروکریسی بنائی ہوئی ہے جس میں مختلف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ تین جانے پہچانے ڈیپارٹمنٹس تو جبریل ، میکائل اور عزرائل ہیں۔ خدا دنیا میں کمیونکیشن کا کام جبریل کے ڈیپارٹمنٹ سے لیتا، کائنات میں مادی طاقتوں کو کنٹرول کرنے کا کام میکائل سے لیتا اور ڈیسٹرکشن یعنی تباہ کرے بہتر بنانے کا کام عزرائل کے ذمے ہے۔ یہ تین فرشتے ہی نہیں بلکہ ڈیپارٹمنٹس ہیں جن کے تحت کئی ماتحت فرشتے یہ کام کررہے ہوتے ہیں۔
ان دونوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے باقاعدہ تدریج کے ساتھ اس کائنات کو تخلیق کیا۔ ایسا نہیں ہوا کہ اللہ نے کن کہا اور یہ چیزیں فورا وجود میں آگئیں۔ اللہ چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا لیکن اللہ نے اس تخلیق کو تدریج اور قوانین کے ساتھ اسی لیے تخلیق کیا تاکہ اسباب کا پردہ یا حجاب پڑا رہے اور انسان جب بھی خدا کے کن تک پہنچنے کی کوشش کرے تو اس کی مادی رسائی کن کے بعد پیدا ہونے والے قوانین تک ہی رہے اور اس سے آگے نہ جاسکے۔ اسی طرح روحانی دنیا کے مسافرین کی اڑان بھی ایک حد تک ہی محدود رہے۔
اہل مذہب سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ خدا کے کن [ہوجا] اور فیکون [ تو وہ ہوگئی ] کے درمیان موجود پراسیس کو نہ سمجھ پائے اور خدا کو ایک ایسی ہستی کے روپ میں پیش کیا جو بنا کسی قاعدے، ضابطے اور قانون کے کام کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی ہستی ہے جس پر جب محبت کا غلبہ ہو تو بلاوجہ شفقتیں نچھاور کرتی اور جب غصہ آئے تو بستیوں کو تہس نہس کردیتی ہے۔ اس ہستی کا نہ کوئی قاعدہ ہے ، نہ قانون ، نہ ضابطہ اور نہ کوئی طریقہ کار۔ اس جذبات سے مغلوب تصور کو قبول کرناظاہر ہے اہل سائنس تو کیا کسی عقل مند انسان کے لیے ممکن نہیں الا یہ کہ عقیدے کے پردے آنکھوں پر پڑے ہوں۔
اب آتے ہیں اہل سائنس کی غلطی کی جانب۔ اسٹیفن ہاکنگ کے بالکل درست لکھا اور ان کا یہ جواب ان کی جماعت کے لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ خدا کے منکر نہیں ، البتہ اس شخصی خدا کے منکر ہیں جو اہل مذہب پیش کرتے ہیں ۔ اہل مذہب کے نزدیک جب کائنات کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں ہوتی تو وہ اسے خدا کا نام دے دیتے ہیں۔
لیکن یہاں ہاکنگ جس مفروضے سے اہل مذہب کا انکار کررہے ہیں ، اسی مفروضے کو بنیاد بنا کر اپنے غیر شخصی خدا کا تعارف کرارہے ہیں۔ کائنات کس نے پیدا کی؟ اہل مذہب کہتے ہیں خدا نے پیدا کی۔ اعتراض یہ کہ اس کا تعلق مخلوق سے نظر نہیں آتا یعنی خدا کا ہاتھ نظر نہیں آتا۔ لیکن اہل سائنس کہتے ہیں کائنات خود بخود وجود میں آئی یعنی کائنات خود اپنی خالق ہے۔ یعنی وہ ایک اندھے بہرے اور بے جان مادے کو خدا کہہ رہے ہیں۔ ان کا خدا غیر شخصی ہونے کے ساتھ ساتھ بے جان بھی ہے اور اندھا بھی۔یہاں بھی خدا یعنی کائنات یا مادہ کا ہاتھ خود کو پیدا کرنے کے پیچھے دکھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ یہ غیر شخصی خدا یعنی کائنات کے خالق ہونے کا عقیدہ شخصی خدا کے تصور سے زیادہ لایعنی اور غیر معقول بات معلوم ہوتی ہے ۔ شخصی خدا کم از کم مادے کی طرح اندھا ، گونگا ، بہرا اور بے جان نہیں۔ وہ سنتا ہے، سمجھتا ہے، سوچتا ہے، دیکھتا ہے، فیصلہ کرتا ہے، بات چیت کرتا ہے، اپنی طاقت کا اظہار کرتا ہے ۔
اس کے علاوہ کائنات میں ایسے کئی مادی معاملات ہیں جن کی توجیہہ ابھی تک کی سائنس کے مطابق ممکن نہیں ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر کائنات کا چار سے پانچ فی صد حصہ صرف اس مادے پر مشتمل ہے جسے ہم انسان، جانور، چرند ، پرند، کہکشاں ، چاند، سورج، ستارے، سیارے ، زمین وغیرہ کی صورت میں دریافت کرچکے ہیں۔ ہاکنگ اور پوری فزکس کی دنیا کی تحقیق صرف اسی چار فی صد مادے پر ہوئی ہے۔ کائنات کا 26 فی صد حصہ ڈارک میٹر یعنی ایسے مادے پر مشتمل ہے جس کا وجود تو مسلمہ ہے لیکن اس کو نہ دیکھا جاسکتا ہے اور نہ چھوا جاسکتا ہے۔یہ میٹر ٹھوس چیزوں جیسے دیوار اور دروازے سے بھی گذر جاتا ہے۔ یہ میٹر کیا ہے؟ فزکس کی دسترس سے تاحال باہر ہے۔
ایسے ہی معاملہ ڈارک انرجی کا ہے جو کل کائنات کا ستر فی صد ہے۔ بگ بینگ کے بعد کائنات پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلاوّ میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہی ڈارک انرجی ہے جو کائنات کی اسپیس کو پھیلا رہی ہے۔اس کے بارے میں سائنس کچھ کہنے سے قاصر ہے کہ یہ کیا ہے اور کن قوانین کے تحت کام کررہی ہے۔
کچھ یہی صورت حال بلیک ہول اور ایونٹ ہورائزن کی ہے۔ بلیک ہول میں وقت اور اسپیس ختم ہوجاتے ہیں اور پھر وہاں کیا ہوتا ہے؟ کسی کو علم نہیں۔ ایونٹ ہورائزن کے اس پار کیا واقعات جنم لے رہے ہیں؟کیا معاملات ہورہے ہیں، کیا غیبی امور سرانجام کیے جارہے ہیں؟ کچھ نہیں پتا۔
چنانچہ کائنات کے محض چار فی صد مادے کو جان کر اسے ہی پوری کائنات کے سو فی صد کا خالق سمجھ لینا اس سے بھی بڑا نامعقول عقیدہ ہے جو چرچ نے یا مشرکانہ اقوام نے خدا کے بارے میں قائم کیا۔ محض چار فی صد کی توجیہہ کو غیر شخصی خدا کہہ دینا ایک غیر سائنسی رویہ ہے جو کسی محقق کو زیب نہیں دیتا ہے۔
اب ہم اس گفتگو کا خلاصہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ:
۱۔ خدا نے یہ کائنات بنانے کے لیے جب کن کہا تو اس کے بعد وہ مادی اور روحانی قوانین وجود میں آئے جس پر اس دنیا نے چلنا تھا۔
۲۔ ان قوانین سے مراد جیسے ایچ ٹو او ہے ۔ یعنی جب خدا نے پانی تخلیق کیا تو یوں نہ ہوا کہ براہ راست پانی تخلیق ہوگیا ، بلکہ پہلے ہائیڈروجن اور آکسیجن کی خصوصیات وجود میں آئیں اور اس کے بعد دنوں کے ملاپ سے پانی بنا۔اسی طرح روحانی یا غیر مرئی دنیا کو چلانے کے فرشتوں پر مبنی ایک ورک فورس تیار کی گئی جس تک عمومی رسائی ممکن نہیں۔
۳۔ اس کا ایک فائدہ نظر آتا ہے کہ خدا نے بس ایک مرتبہ یہ عمل کیا اور اب اس طریقے سے پانی بننے کا عمل خود بخود ہونے لگا۔ دوسرا فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ خدا نے یہ کائنات اسباب کے پردے میں ظاہر کی ہے اور وہ اپنی ذات کو اسباب سے ماورا آزمائش کی بنا پر ظاہر نہیں کرناچاہتا۔ اس لیے جب بھی مادی دنیا کی مادی طریقے سے چھان پھٹک ہوگی تو انسان زیادہ سے زیادہ اس قانون کو تو دریافت کرلے گا جس کے تحت وہ مادہ وجود میں آیا ہے لیکن وہ اس کن کے کہنے والے کا مشاہدہ نہیں کرسکتا ۔
۴۔ اہل مذہب کا یہ مقدمہ کمزور ہے کہ خدا قوانین کے مطابق کام نہیں کرتا۔ ہاں وہ جب چاہے اپنے قانون کو توڑ سکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے۔ لیکن ایسا بھی کسی دوسرے قانون کے تحت ہی ہوتا ہے جو اس نے خود بنایا ہوتا ہے اور جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔
۵۔ اہل سائنس کا مقدمہ بھی کمزور ہے کہ محض چار فی صد مادے کو سمجھ کر وہ اسے ہی ایک غیر شخصی خدا قرار دے بیٹھے۔ محض چار فی صد مادہ سو فی صد کائنات کا کیسے خالق ہوسکتا ہے؟
۶۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شخصی خدا کا تصور غیر شخصی خدا کے مقابلے میں زیادہ معقول، سائنٹفک، وسیع اور غیر متعصبانہ ہے۔ شخصی خدا مادے کی طرح اندھا ، گونگا ، بہرا اور بے جان نہیں۔ یہ بولتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، سمجھتا ، سوچتا، عمل کرتا اور وہ سب کچھ کرتا ہے جو ایک زندہ اور طاقتور خدا سے متوقع ہے۔
۷۔ خدا وہ ہے جو تمام مادی قوانین کا خالق ہے۔ وہ جو چاہے کرسکتا ہے لیکن قوانین بنا کر کام کرتا ہے، وہ جو وقت سے ماورا ہے اس لیے اس کے لیے ماضی حال مستقل ایک کھلی کتاب ہے۔

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ
یہی اللہ تعالٰی تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پھر تم کہاں بہک رہے ہو[الزمر]

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔