کیفیات کیا ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیفیات کے تنوع اور لامتناہیت کودیکھ کر محسوس ہوتاہےکہ اگر اِن کا منبع فقط محدودجذبات اور ہارمونز ہیں تو پھر یہ گوناگونی اور تنوع جو اپنی کنہ میں لامحدود نہیں بلکہ لامتناہی ہے کیونکر تخلیق ہوتارہتاہے جسے ہم عرفِ عام میں کیفیات کہہ کرزبان کے عجز کا اظہار ہی نہیں کرتے بلکہ اِن کی تغلیب کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔اس جہان میں اگر کہیں لامتناہی مشاہدات کو متواتر تجربے میں لایا جاسکتاہے تو فقط کیفیات کے ذریعے۔بظاہر تو ہم کیفیات کے لیے چند معروف لیکن معذور ناموں سے واقف ہیں جیسا کہ خوشی کی کیفیت، غم کی کیفیت، اداسی کی کیفیت لیکن فی الحقیقت فرداً فرداً ہرایک کے ساتھ جو کچھ بیتتی ہے وہ بہرصورت مختلف اور منفرد ہے۔ ایک ہی شخص کی ہرکیفیت دوسری سے مختلف ہے تو دوسرے اشخاص کے ساتھ مماثلت یا مشابہت کا خیال ہی بیکار ہوگا۔ وہ جس طرح کسی آبگینے پر قوس ہائے قزح بنتی چلی جاتی اور پل پل میں رنگ و نُور کے ملاپ سے لامحدود فن پارے تخلیق ہوتے چلے جاتے ہیں، کیفیات کی کائنات بھی ایسی ہی کوئی کہکشاں ہے ہے جو ذات کی کسی گہرائی سے کہیں پھوٹتی ہے اور قلبِ انسانی کو پل پل نئی نئی دنیاؤں میں لیے لیے پھرتی ہے۔
مدعا یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص اُداس ہے اورہم کسی طرح جان لیتے ہیں کہ اس پر کیا بِیت رہی ہے۔ ہم اس کے دل و دماغ کی ہر ہر حالت کو نہایت باریکی سے نوٹ کرتے اور بالآخر اس پر جو بِیت رہی ہے اُس کو ''اداسی کی کیفیت'' کا نام دے ایک پیمانہ مقرر لیتے ہیں۔تب ہم اُسی پیمانے سے جب کسی دوسرے شخص کی اُداسی یا اُسی شخص کی دوبارہ اداسی کی پیمائش کرنا چاہتے ہیں تو نئی کیفیت کبھی بھی پہلے پیمانے پر پوری نہیں اترے گی اور نہ ہی اُترسکتی ہے۔اذراہِ تعجب عرض کرونگا کہ یہاں بھی معاملہ کوانٹم فزکس کے ایک عجوبہ مفروضے ''ملٹی پل یونیورسز ''جیساہے۔لااِنتہا کیفیات ہیں جو ذات کی گہرائی سے پل پل پھوٹتی اور کسی موج کے تغیر ِپیہم کی طرح جاری و ساری رہتی ہیں۔ان میں کچھ کیفیات ایسی ہیں جو ہمارے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جو ہمارے فیصلوں پر بہت بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو ہمارے کام کے معیارپر اثرانداز ہوتی ہیں، اُسے بہتربناتی یا خراب کردیتی ہیں۔
بیالوجی کے پاس اس سوال کا جواب اس لیے نہیں ہے کہ چند گنی چُنی رطوبتوں کا اخراج اتنے بڑے پیمانے پر ورائٹی پیش کرنے کا اہل کیونکر ہوسکتاہے۔لیکن پھر اس بات کا سائنسی ثبوت بھی تو موجود نہیں کہ ہرہرفرد کی ہرہر کیفیت ہمیشہ ہی پہلی کیفیات سے مختلف ہوگی جیسا کہ ہم نے اس مقدمے میں دعویٰ کیا۔ثبوت اس لیے موجود نہیں کہ ثبوت حاصل ہی نہیں کیا جاسکتاہے۔ لے دے کے فرائیڈ کے تحلیلِ نفسی کا طریقہ ہمارے پاس ہے جو کارل پوپر کے فالسفکیشن کے اُصولوں پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے سُوڈو سائنس کی ڈومین میں جابیٹھتاہے۔
مثلاً میں اُداس ہوں۔ میں پہلے بھی اُداس ہوجاتاہوں کبھی کبھار۔ کیا میں یہ جان سکتاہوں کہ جب میں پہلے اُداس ہوا تھا تو مجھ پر بعینہ یہی کیفیت گزری تھی جو اب گزر رہی ہے؟کیا سٹی سکین، ایم آر آئی یا ہارمونل بیالوجی کے طریقوں پر نوٹ کی گئی تبدیلیاں اِس سوال کا جواب دینے کی اہل ہیں؟ممکن ہے آنے والے وقتوں میں کبھی ایسا ایم آر آئی ایجاد ہوجائے جو اس سوال کا جواب دے سکے لیکن سردست ہمارے پاس فقط یہ کہنے کے سوا چارہ نہیں کہ یہ کیفیات ذات کی گہرائی سے کہیں پھوٹتی ہیں۔کیونکہ یہ بات کیفیات سے متعلق ہورہی ہے نہ خیال سے۔ خیالات کا لامتناہی ہونا تو سمجھ میں آتاہے۔ بلکہ آج سے بہت پہلے ڈیوڈ ہیوم نے ہی سمجھ لیا تھا کہ خیالات کی دنیا اگر لامتناہی سرحدات تک پھیلتی چلی جاتی ہے تو اس کا منبع بہرحال وہ ارتساماتِ ذہنی ہی ہیں جو ہمارے ذہن کی خالی سلیٹ پر بچپن سے جمع ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کبھار آپسی اشتراک سے نئے نئے نمونوں کو جنم دیتےہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم خیالات کی بات نہیں کررہے۔ ہم اس وقت کیفیات کی بات کررہے ہیں۔ کیفیات تو خیالات سے کہیں زیادہ متنوع ہیں اور ان کا تعلق چونکہ خالصتاً جہانِ جذبات کے ساتھ ہے چنانچہ یہ کہنا کہ یہ خیالات کےپیدا ہونے کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہیں اور اس لیے خیالات کی طرح لامتناہی ہیں درست نہ ہوگا کیونکہ ایک خیال ایک کیفیت کو پیدا کرنے کے لیے فقط ایک محرّک ضرور ہے لیکن کیفیت کا منبع نہیں۔نہ ہی چند ہارمونز کیفیات کا حتمی موجب ہوسکتی ہیں۔ کیفیات کا منبع بہرحال کہیں اور ہے۔
اگر ہم اِن کیفیات کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں اور بہرصورت جاننا چاہیں کہ یہ کیا ہیں اور کیوں ہیں تو کم ازکم چند ایسی کیفیات ہیں جنہیں ہم بہرطور یونیورسل کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً آپ ایک جذباتی جلوس کا حصہ ہیں۔ ہزاروں لوگ کسی ایک بڑے نیک مقصد کے لیے سڑک پر نکل آئے ہیں۔ آپ بھی اس مقصد کے اُتنے ہی حامی ہیں جتنا کہ باقی سب لوگ۔ اپنے اتنے زیادہ حمایتی ایک ساتھ دیکھ کر آپ جذباتی ہوگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ جلوس کے ہر نعرے کا جواب بڑے جوش و خروش سے دے رہے ہیں۔ اب اس صورتحال میں آپ ایک بڑی اجتماعی کیفیت کا حصہ بن چکے ہیں جو ایک ساتھ کئی جسموں اور کئی دماغوں میں واقع ہورہی ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ اجتماع کے تمام افراد کے ساتھ بالکل مماثل اور مشابہہ ہے۔ایسی چند کیفیات کی روشنی میں ہم کم ازکم ایک نتیجہ اخذ کرسکتےہیں کہ بہرحال کسی نہ کسی مقام پر کیفیات ایک دوسرے میں ایسے ضم ہوسکتی ہیں جیسے مختلف محلولوں کا آپس میں حل ہوجانا۔میں اکثر کہا کرتاہوں۔ دس ہزاراہلِ عقل مل کر ایک اکیلے شخص کی آنکھوں میں خوشی یا غم کے آنسو نہیں لاسکتے، اس کے برعکس فقط ایک اکیلا شخص اپنی کسی کیفیت کی وجہ سے دس ہزار عاقل انسانوں کی آنکھوں میں بیک وقت خوشی یا غم کے آنسو لاسکتاہے۔ عام طور پر تو یہ بات میں مذہب کے دفاع میں کہا کرتاہوں لیکن آج میرا مدعا کچھ اور ہے۔لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب میں اجتماع کے ہرفرد کو ایک ہی محلول میں حل ہوتاہوا دیکھنے کے باجود ان کی انفرادی آپ بیتیوں سے یہی سمجھ پاتاہوں کہ سب یکجا ہوکر بھی اپنی انفرادیت سے محروم نہ تھے۔
سوچتا ہوں پروفیسر ولیم جیمز نے اس موضوع پر ضرور لکھا ہوگا کیونکہ ''ذات کی گہرائی'' پر ولیم جیمز کے کچھ خیالات میرے ذہن میں بہرحال بکھرے ہوئے ہیں۔
ادریس آزاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیفیات کے تنوع اور لامتناہیت کودیکھ کر محسوس ہوتاہےکہ اگر اِن کا منبع فقط محدودجذبات اور ہارمونز ہیں تو پھر یہ گوناگونی اور تنوع جو اپنی کنہ میں لامحدود نہیں بلکہ لامتناہی ہے کیونکر تخلیق ہوتارہتاہے جسے ہم عرفِ عام میں کیفیات کہہ کرزبان کے عجز کا اظہار ہی نہیں کرتے بلکہ اِن کی تغلیب کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔اس جہان میں اگر کہیں لامتناہی مشاہدات کو متواتر تجربے میں لایا جاسکتاہے تو فقط کیفیات کے ذریعے۔بظاہر تو ہم کیفیات کے لیے چند معروف لیکن معذور ناموں سے واقف ہیں جیسا کہ خوشی کی کیفیت، غم کی کیفیت، اداسی کی کیفیت لیکن فی الحقیقت فرداً فرداً ہرایک کے ساتھ جو کچھ بیتتی ہے وہ بہرصورت مختلف اور منفرد ہے۔ ایک ہی شخص کی ہرکیفیت دوسری سے مختلف ہے تو دوسرے اشخاص کے ساتھ مماثلت یا مشابہت کا خیال ہی بیکار ہوگا۔ وہ جس طرح کسی آبگینے پر قوس ہائے قزح بنتی چلی جاتی اور پل پل میں رنگ و نُور کے ملاپ سے لامحدود فن پارے تخلیق ہوتے چلے جاتے ہیں، کیفیات کی کائنات بھی ایسی ہی کوئی کہکشاں ہے ہے جو ذات کی کسی گہرائی سے کہیں پھوٹتی ہے اور قلبِ انسانی کو پل پل نئی نئی دنیاؤں میں لیے لیے پھرتی ہے۔
مدعا یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص اُداس ہے اورہم کسی طرح جان لیتے ہیں کہ اس پر کیا بِیت رہی ہے۔ ہم اس کے دل و دماغ کی ہر ہر حالت کو نہایت باریکی سے نوٹ کرتے اور بالآخر اس پر جو بِیت رہی ہے اُس کو ''اداسی کی کیفیت'' کا نام دے ایک پیمانہ مقرر لیتے ہیں۔تب ہم اُسی پیمانے سے جب کسی دوسرے شخص کی اُداسی یا اُسی شخص کی دوبارہ اداسی کی پیمائش کرنا چاہتے ہیں تو نئی کیفیت کبھی بھی پہلے پیمانے پر پوری نہیں اترے گی اور نہ ہی اُترسکتی ہے۔اذراہِ تعجب عرض کرونگا کہ یہاں بھی معاملہ کوانٹم فزکس کے ایک عجوبہ مفروضے ''ملٹی پل یونیورسز ''جیساہے۔لااِنتہا کیفیات ہیں جو ذات کی گہرائی سے پل پل پھوٹتی اور کسی موج کے تغیر ِپیہم کی طرح جاری و ساری رہتی ہیں۔ان میں کچھ کیفیات ایسی ہیں جو ہمارے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جو ہمارے فیصلوں پر بہت بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو ہمارے کام کے معیارپر اثرانداز ہوتی ہیں، اُسے بہتربناتی یا خراب کردیتی ہیں۔
بیالوجی کے پاس اس سوال کا جواب اس لیے نہیں ہے کہ چند گنی چُنی رطوبتوں کا اخراج اتنے بڑے پیمانے پر ورائٹی پیش کرنے کا اہل کیونکر ہوسکتاہے۔لیکن پھر اس بات کا سائنسی ثبوت بھی تو موجود نہیں کہ ہرہرفرد کی ہرہر کیفیت ہمیشہ ہی پہلی کیفیات سے مختلف ہوگی جیسا کہ ہم نے اس مقدمے میں دعویٰ کیا۔ثبوت اس لیے موجود نہیں کہ ثبوت حاصل ہی نہیں کیا جاسکتاہے۔ لے دے کے فرائیڈ کے تحلیلِ نفسی کا طریقہ ہمارے پاس ہے جو کارل پوپر کے فالسفکیشن کے اُصولوں پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے سُوڈو سائنس کی ڈومین میں جابیٹھتاہے۔
مثلاً میں اُداس ہوں۔ میں پہلے بھی اُداس ہوجاتاہوں کبھی کبھار۔ کیا میں یہ جان سکتاہوں کہ جب میں پہلے اُداس ہوا تھا تو مجھ پر بعینہ یہی کیفیت گزری تھی جو اب گزر رہی ہے؟کیا سٹی سکین، ایم آر آئی یا ہارمونل بیالوجی کے طریقوں پر نوٹ کی گئی تبدیلیاں اِس سوال کا جواب دینے کی اہل ہیں؟ممکن ہے آنے والے وقتوں میں کبھی ایسا ایم آر آئی ایجاد ہوجائے جو اس سوال کا جواب دے سکے لیکن سردست ہمارے پاس فقط یہ کہنے کے سوا چارہ نہیں کہ یہ کیفیات ذات کی گہرائی سے کہیں پھوٹتی ہیں۔کیونکہ یہ بات کیفیات سے متعلق ہورہی ہے نہ خیال سے۔ خیالات کا لامتناہی ہونا تو سمجھ میں آتاہے۔ بلکہ آج سے بہت پہلے ڈیوڈ ہیوم نے ہی سمجھ لیا تھا کہ خیالات کی دنیا اگر لامتناہی سرحدات تک پھیلتی چلی جاتی ہے تو اس کا منبع بہرحال وہ ارتساماتِ ذہنی ہی ہیں جو ہمارے ذہن کی خالی سلیٹ پر بچپن سے جمع ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کبھار آپسی اشتراک سے نئے نئے نمونوں کو جنم دیتےہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم خیالات کی بات نہیں کررہے۔ ہم اس وقت کیفیات کی بات کررہے ہیں۔ کیفیات تو خیالات سے کہیں زیادہ متنوع ہیں اور ان کا تعلق چونکہ خالصتاً جہانِ جذبات کے ساتھ ہے چنانچہ یہ کہنا کہ یہ خیالات کےپیدا ہونے کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہیں اور اس لیے خیالات کی طرح لامتناہی ہیں درست نہ ہوگا کیونکہ ایک خیال ایک کیفیت کو پیدا کرنے کے لیے فقط ایک محرّک ضرور ہے لیکن کیفیت کا منبع نہیں۔نہ ہی چند ہارمونز کیفیات کا حتمی موجب ہوسکتی ہیں۔ کیفیات کا منبع بہرحال کہیں اور ہے۔
اگر ہم اِن کیفیات کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں اور بہرصورت جاننا چاہیں کہ یہ کیا ہیں اور کیوں ہیں تو کم ازکم چند ایسی کیفیات ہیں جنہیں ہم بہرطور یونیورسل کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً آپ ایک جذباتی جلوس کا حصہ ہیں۔ ہزاروں لوگ کسی ایک بڑے نیک مقصد کے لیے سڑک پر نکل آئے ہیں۔ آپ بھی اس مقصد کے اُتنے ہی حامی ہیں جتنا کہ باقی سب لوگ۔ اپنے اتنے زیادہ حمایتی ایک ساتھ دیکھ کر آپ جذباتی ہوگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ جلوس کے ہر نعرے کا جواب بڑے جوش و خروش سے دے رہے ہیں۔ اب اس صورتحال میں آپ ایک بڑی اجتماعی کیفیت کا حصہ بن چکے ہیں جو ایک ساتھ کئی جسموں اور کئی دماغوں میں واقع ہورہی ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ اجتماع کے تمام افراد کے ساتھ بالکل مماثل اور مشابہہ ہے۔ایسی چند کیفیات کی روشنی میں ہم کم ازکم ایک نتیجہ اخذ کرسکتےہیں کہ بہرحال کسی نہ کسی مقام پر کیفیات ایک دوسرے میں ایسے ضم ہوسکتی ہیں جیسے مختلف محلولوں کا آپس میں حل ہوجانا۔میں اکثر کہا کرتاہوں۔ دس ہزاراہلِ عقل مل کر ایک اکیلے شخص کی آنکھوں میں خوشی یا غم کے آنسو نہیں لاسکتے، اس کے برعکس فقط ایک اکیلا شخص اپنی کسی کیفیت کی وجہ سے دس ہزار عاقل انسانوں کی آنکھوں میں بیک وقت خوشی یا غم کے آنسو لاسکتاہے۔ عام طور پر تو یہ بات میں مذہب کے دفاع میں کہا کرتاہوں لیکن آج میرا مدعا کچھ اور ہے۔لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب میں اجتماع کے ہرفرد کو ایک ہی محلول میں حل ہوتاہوا دیکھنے کے باجود ان کی انفرادی آپ بیتیوں سے یہی سمجھ پاتاہوں کہ سب یکجا ہوکر بھی اپنی انفرادیت سے محروم نہ تھے۔
سوچتا ہوں پروفیسر ولیم جیمز نے اس موضوع پر ضرور لکھا ہوگا کیونکہ ''ذات کی گہرائی'' پر ولیم جیمز کے کچھ خیالات میرے ذہن میں بہرحال بکھرے ہوئے ہیں۔
ادریس آزاد
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔