منگل، 5 دسمبر، 2017

12:02 PM


سپیس ورپ ڈرائیو
Reconciliation of Natural and Social Sciences in now Nearer
نیچرل اور سوشل سائنسز کے ملاپ کا وقت قریب ہے۔
سپیس ٹائم فیبرک ہرجگہ ہے۔ کوئی جگہ اس فیبرک سے خالی نہیں۔ہمارے آس پاس، اِس کھڑکی سے باہر، میرے سامنے، آپ کے سامنے ، حتی کہ ہمارے جسم کے اندر بھی۔ اور تو اور ہمارے دماغ یعنی بھیجے کی رگوں کے اندر۔ کیونکہ یہ ٹائم اور سپیس یعنی زمانہ و مکاں کی فیبرک(سُوت) ہے۔ اس کے تاگے لچکدار ہیں۔ اوپرنیچے، دائیں بائیں اور آگے پیچھے۔ سپیس ٹائم فیبرک کے شش جہات ہیں، یہی اوپرنیچے، دائیں بائیں، آگے پیچھے۔ جس سے تین خطوط بنتے ہیں۔ جنہیں تین ابعاد یا تھری ڈائیمنشنز کہا جاتا ہے۔فیبرک کے تاگے نظر نہیں آتے۔ یہ نظر نہ آنے والے ریشے ہیں۔ جو صرف مکان اور زمانے سے مل کر بنے ہیں۔ یہ مادی ذرات سے بنے ہوئے نہیں ہوتے۔ پوری کائنات اسی سپیس ٹائم فیبرک سے بنی ہوئی ہے۔
سپیس ٹائم فیبرک ربڑ کی طرح سے لچکدار ہوتی ہے۔ کھنچنے پر پھیل جاتی ہے، چھوڑنے پر سُکر جاتی ہے۔اس سے بھی زیادہ اچھا ہو اگر آپ اُسے سمندر کے پانی کی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ یعنی پلپلا اور دباؤ کے ساتھ شکل بدلنے والا۔ جس کی شکل میں ہوا کے ایک جھونکے سے بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ یعنی لہریں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ ایسی ہی لہریں سپیس ٹائم فیبرک کے تاگوں میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سپیس ٹائم فیبرک کی اس موجی حرکت کی وجہ سے کبھی کبھی بڑی امواج (ٹائڈز) پیدا ہوتی ہیں۔
سپیس ٹائم فیبرک کی ایسی حرکت جس میں دوردراز کی دو بڑی موجیں یکدم ایک دوجے کے پاس آجائیں اور ایک دوسرے کو چھونے لگیں تو ایک موج کی چوٹی سے دوسری موج کی چوٹی تک چھلانگ لگانا آسان ہوتا ہے۔ اگر یہی فاصلہ سپیس ٹائم فیبرک میں ویسے چل کریعنی سفرکرکے طے کیا جاتا تو لاکھوں سال کا بھی ہوسکتاہے۔یوں گویا اس جمپ سے ہم ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں ، یا ایک کائنات سے دوسری کائنات میں خاصے بڑے اور واضح فرق کے ساتھ داخل ہوسکتے ہیں۔سمندر یادریا کے پانی کی طرح سپیس ٹائم فیبرک میں بھی بھنورپڑتے رہتے ہیں۔ ایسے بھنور ''وارم ہولز'' کہلاتے ہیں۔
جس طرح سمندر کے پانی میں پڑنے والے گرداب یا بھنور میں لکڑی کا ایک ٹکڑا پھینکنے سے ، وہ ٹکڑا نیچے تہہ کی طرف یعنی بھنور کے اندرچلا جاتا ہے بالکل اسی طرح سپیس ٹائم فیبرک کے بھنور میں گرنے والا مادہ بھی بھنور کے اندر چلا جاتا ہے۔ اور جب وہ دسرے سرے سے باہر نکلتا ہے تو اس کے لیے دنیا ہی اور ہوتی ہے۔ یعنی بالکل نیا زمان و مکاں۔
مادہ کیا ہے؟ چھوٹے سے چھوٹے ذرے کا مشاہدہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ مادہ اپنی انتہائی باریک سطح پر چھوٹے چھوٹے ذرات نہیں …..بلکہ چھوٹے چھوٹے تاگے ہیں، یا ریشے، جنہیں فزکس کے ماہرین سٹرنگز کہتے ہیں۔ یہ سٹرنگز، کسی ایٹم کے پروٹانز یا نیوٹرانز میں موجود مزید چھوٹے ذرات ''کوارکس '' میں دریافت کی گئی ہیں۔ سرن لیبارٹریزاور فرمی لیبز میں یہی کام ہورہا ہے۔
ریاضی کے ماہرین نے کائنات کو سمجھنے کے لیے انہیں سٹرنگز میں سے ایک کو گریویٹانز فرض کیا ہے۔ یہ کشش ِ ثقل کی سٹرنگ ہے۔ اسے کلوز لوپ سٹرنگ کہا جاتا ہے۔ جیسے ربڑ بینڈ۔ باقی سٹرنگز اوپن لوپ سٹرنگز ہیں، جیسے کہ ٹوٹا ہوا ربر بینڈ۔ اوپن لوپ سٹرنگز سپیس ٹائم فیبرک کے ساتھ چِپکی ہوئی ہوتی ہیں۔ اوپن لوپ سٹرنگ کے دونوں اوپن سِرے سپیس ٹائم فیبرک کے ساتھ چپکے ہوئے ہونے کی وجہ سے ، یہ سٹرنگز سپیس ٹائم فیبرک سے آزاد نہیں ہوپاتیں۔ گریویٹانز کلوز لوپ سٹرنگ ہے، اس کے سرے نہیں ہیں۔ یہ ایک ربر بینڈ کی طرح سے ہے۔ چنانچہ یہ آزاد سٹرنگ ہے۔
ہماری کائنات جیسی انگنت کائناتییں ہیں۔ جنہیں فزکس کے ماہرین پیرالل یونیورسز کہتے ہیں۔ یعنی متوازی کائناتیں۔ یہ پیرالل یونیورسز ایک دوسرے کے پاس تہہ در تہہ موجود رہتی ہیں۔جیسے کسی کتاب کے ورق ایک دوسرے کے متوازی لیکن بہت نزدیک موجود رہتے ہیں۔
اگر ایک کائنات سے نکل کر آپ دوسری کائنات میں چلے جائیں تو آپ کو کچھ خاص فرق پتہ نہیں چلے گا۔ کیونکہ دوسری کائنات بھی ہماری کائنات جیسی ہوتی ہے،یعنی وہاں بھی ہم، ہماری فیملی ، ہمارا بزنس سب کچھ ویسا ہی ہوتا ہے۔ بس بہت تھوڑے سے فرق کے ساتھ ۔ فرق اتنا تھوڑا ہوتا ہے کہ ہم یہ نہیں جان پائیں گے کہ ہم دوسری کائنات میں چلے گئے ہیں یا نہیں۔ مثلاً ایک کائنات میں آپ سونے (نیند)سے پہلے تھے۔ آپ جب سو گئے تو اتفاقاً سپیس ٹائم فیبرک میں موجود وارم ہول کی وجہ سے آپ ایک کائنات سے دوسری میں شفٹ ہوگئے۔ آپ جاگے تو سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا، ماسوائے کہ آپ کو زکام لگا ہوا تھا، یا چھینکیں آنے لگیں یا والدہ نے کچھ کہہ دیا۔ بس اتنا سا فرق ۔ لیکن یہی تھوڑا تھوڑا فرق ان گنت اور لامتناہی کائناتوں کے سلسلے میں کسی دور دراز کے کونے میں جاکر اتنا زیادہ فرق بن جاتا ہے کہ الامان الحفیظ۔
مطلب یہ کہ آپ اپنے آس پاس کی کائناتوں میں ہر لمحہ بھی داخل ہوتے رہیں تو آپ کو فرق پتہ نہیں چلتا لیکن اگر اپنے آس پاس کی بجائے کسی دور دراز کی کائنات میں چلے جائیں تو آپ کو واضح فرق پتہ چلے گا۔ بہت دور دراز کی کائنات میں نہ بھی جائیں لیکن اپنے آس پاس کی کائنات کی بجائے دوچار تہیں چھوڑ کرکسی کائنات میں جائیں تو آپ کو حیرت ہوگی۔ کیونکہ ممکن ہے آپ ایک لمحے میں اپنی کائنات میں ہوں اور اگلے لمحے کوئی وارم ہول آپ کو ایسی کائنات میں لے جائے جہاں کوئی اچانک حادثہ ہوا پڑا ہو۔ فرض کریں کسی عزیز کی اچانک موت۔ تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ کہ ہائے ہائے یہ کیا ہوگیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ ہوا اتنا سا ہوگا کہ آپ کے دماغ میں موجود سپیس ٹائم فیبرک میں کوئی وارم ہول تھا جس نے آپ کو اُٹھا کر ایک کائنات سے دوسری میں پھنک دیا۔
سپیس ٹائم فیبرک میں اسقدر متواتر اور مسلسل موجی حرکت جاری رہتی ہے کہ وارم ہولز جیسی چیزیں عموماًً وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے بھی سپیس ٹائم فیبرک میں وارم ہول پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو سپیس ٹائم فیبرک میں کوئی کنکر پھینکنا ہوگا۔ تاکہ پانی کے تالاب کی طرح آپ کے سپیس ٹائم کا فیبرک بھی اپنی موجی حرکت اچانک تیز کردے یا موجوں کے بہاؤ کا رُخ تبدیل کردے۔ یوں جب کوئی بھنور پیدا ہوگا توآپ اُس میں کود سکتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اتفاقی طور پر پیدا ہوجانے والے بھنور یعنی وارم ہول میں جانے سے آپ اپنی مرضی کے ٹائم اور سپیس میں تو نہیں جاسکتے۔ اُس وقت تو آپ ''اتفاق ِ محض'' کی مرضی سے کسی بھی انجانے ٹائم اور سپیس میں چلے جائیں گے۔
چنانچہ ایک انسان کے لیے ایسا کرنا کہ وہ اپنی مرضی کے ٹائم اور سپیس میں چلاجائے خاصا مشکل کام ہے۔ اس کے لیے زمانے کی حرکت کے اُصولوں سے آشنا ہونا ازبس ضروری ہے۔ سپیس ٹائم فیبرک کی حرکت کو بدلنے کے لیے آپ نے عام مادی دنیا کا کنکر نہیں پھینکنا ہوتا بلکہ اس کے لیے آپ اپنے ذاتی لمحے کا استعمال نہایت ٹھیک اور ماہرانہ طریقے سے کرتے ہیں۔ آپ کے پاس وہ کنکر آپ کا ذاتی موجود لمحہ ہوتا ہے۔ آپ اگر اپنی اہمیت کی حقیقت سے واقف ہوجائیں تو آپ اپنے لمحے کی کی اہمیت سے بھی واقف ہوجائیں گے۔
یہ لمحہ ِ موجود ہی ہے جو آپ کے پاس واحد کنکر ہے سپیس ٹائم فیبرک میں پھینکنے کے لیے۔ اس سے آپ زمان و مکاں کی بُنت میں حرکت اور اس کی شکل میں تبدیلی لاتے ہیں، جس سے امواج پیدا ہوتی ہیں۔ آپ چاہیں تو اپنی مرضی کی موج پر چھلانگ لگا دیں، چاہیں تو کسی بھنور میں غوطہ زن ہوکر دوسرے زمان و مکاں میں جانکلیں۔
ہم آئے روز اپنی کائناتیں بدلتے رہتے ہیں ۔ پیرالل یونیورسز ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ خاص فرق پتہ نہیں چلتا۔ کبھی کبھی اپنے آس پاس کے زمان و مکاں میں کسی بڑی موجی حرکت کے باعث ہم زیادہ مختلف کائنات میں جاگرتے ہیں۔ اس وقت ہم حیرت زدہ تو ہوتے ہیں لیکن یہ پھر بھی نہیں جان پاتے کہ اصل میں ہماری دُنیا ہی بدل گئی ہے۔ فرکس کی رُو سے آپ اپنی کائنات بدلنے کے لیے ابھی تک سپیس ٹائم فیبرک کی اتفاقی طور پر پیدا ہوجانے والی موجی حرکت کے محتاج ہیں۔ لیکن فی الحقیقت آپ اپنے موجود لمحے کا صحیح استمعال کرکے اپنے لیے خود نیا جہان اب بھی چُن سکتےہیں۔ آپ کے سامنے بے شمار متوازی کائناتیں ہمہ وقت ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے پاس موجود واحد لمحے کا استعمال کس مہارت سے کرتے ہیں۔ اگر آپ ٹھیک چناؤ کرتے ہیں تو حرکتِ زمانہ (روح ِ عصر) آپ کو ''زمانہ ساز'' ، ''عہدساز'' وغیرہ وغیرہ جیسے القابات سے پکارتی ہے۔
گریویٹانز کو تسخیر کرنے کے بعد جب ماہرین ِ فزکس آلات ِ مادی کی مدد سے سپیس ٹائم فیبرک میں موجی حرکت پیدا کرکے آپ کو ایک کائنات سے دوسری میں لے جائیں گے تو شروع شروع میں انہیں اپنے نتائج پر نہایت مایوسی ہوگی۔ کیونکہ وہ پہلے پہلے نزدیکی کائناتوں کے سفر کو ترجیح دینگے جیسا کہ انہوں نے چاند کے سفر کو ترجیح دی تھی۔ اور نزدیکی کائناتیں تو ہماری کائنات سے بہت زیادہ مشابہہ ہیں۔ چنانہ مسافر واپس آکر جو اطلاع دے گا وہ ایسی ہوگی۔
مثلاً ایک شخص کو آلات کی مدد سے جب نزدیکی پیرالل یونیورس میں بھیجا جائے گا تو وہ وہاں ویسا ہی ہوگا جیسا کہ وہ جانے سے پہلے تھا۔ تبدیلی اتنی معمولی ہوگی کہ کوئی فرق پتہ نہیں چلے گا۔ اُسے اگر دوسری کائنات میں زکام لگا ہوا ہے تو بھی وہ اتنے معمولی فرق کو کوئی اہمیت نہیں دے گا۔ جبکہ لیبارٹری میں لیٹا ہوا بدن بظاہر بے ہوش ہوگا۔ اور یوں اہلِ فزکس کو شروع شروع میں اپنے نتائج پر خاصا دُکھ ہوگا۔ کافی عرصہ اسی گومگو میں گزر جائے گا۔ پھر وہ زیادہ بڑا بھنور پیدا کرکے کسی بڑی تبدیلی کی حامل کائنات میں بھیجنے کے تجربات کریں گے۔ تب جاکر کہیں ان پر منکشف ہوگا کہ سفر تو وہ پہلے بھی کررہے تھے لیکن وہ بالکل نزدیکی کائناتوں کا سفر ہونے کی وجہ سے قابل ِ گرفت نہیں تھا اور ہم مفت میں اپنے تجربات کو ناقص سمجھتے رہے۔ تب وہ ماضی اور مستقبل میں بھی سفر کرسکیں گے۔
ادریس آزاد

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔