منگل، 9 جنوری، 2018

11:16 PM


چڑیاں، ہاتھی اور سائنس
اظہار اثر

خدا نے انسان کو شعور اسی لیے دیا ہے کہ وہ عقل سے کام لے کر فطرت کے رموز سمجھ سکے۔ اسی کوشش کو سائنس کہا جاتا ہے جس کے ذریعے آج انسان فطرت کے ایسے ایسے رازوں کا انکشاف کر چکا ہے کہ آج دس ہزار سال پہلے کا انسان جن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میڈیکل سائنس، خلائی سائنس، برقی قوت چند ایسی چیزیں ہیں جنہوں نے انسان کی زندگی کو ہزار درجہ بہتر بنا دیا ہے۔ سائنس نے ہی آج کے انسان کو یہ بتایا کہ نباتات یعنی پیڑ پودوں میں بھی جان ہوتی ہے وہ بھی دکھ اور سکھ محسوس کرتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر کھیتوں پر مسلسل موسیقی کی تانیں گونجتی رہیں تو پودے زیادہ جلدی بڑھنے لگتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پیڑ پودے اس موسیقی سے خوش ہوتے ہیں یا کم از کم موسیقی کی لہریں ان کے اندر نشوونما کی قوت بڑھا دیتی ہیں۔ سائنس دان جانوروں کی آوازوں کو سمجھنے اور ان سے بات چیت کرنے کا طریقہ تلاش کررہے ہیں۔ آپ نے شاید سنایا پڑھا ہو کہ ڈولفن نام کی ایک مچھلی انسانوں کی بات سمجھ کر ان کی دوست بن جاتی ہے۔ ڈولفن گاتی ہے، گیند کھیلتی ہے، ننھے بچوں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر پانی میں تیرانے بھی لے جاتی ہے اور بچے کو ڈوبنے نہیں دیتی۔ کچھ عرصہ قبل سائنس دانوں نے ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے بلبل جیسی خوش نما آواز والی ایک چھوٹی سی چڑیا کے گھونسلے کے قریب بہت حساس مائیکرون فون فٹ کر دیے اور وہ ان چڑیوں کی آواز ریکارڈ کرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے ان آوازوں کی ایڈیٹنگ کی۔ یعنی طرح طرح کی آوازوں کے الگ الگ گروپ بنا دیے۔ اس کے بعد انہوں نے ان چڑیوں کے گھونسلوں کے پاس جا کر ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے وہ آوازیں پیدا کیں۔ ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کہ بہت سی چڑیاں اس مقام پر جمع ہو کر اس چڑیا کی تلاش کرنے لگیں جس کی وہ آواز سن رہی تھیں تبھی انہوں نے ٹیپ ریکارڈ کی آواز سے سمجھ لیا تھا کہ کوئی ان کی ساتھی بلا رہی ہے۔ پھر سائنس دانوں نے انہی آوازوں میں سے دوسری آوازیں لاوڈ سپیکر پر بجائیں تو تمام چڑیاں اڑ کر دور چلی گئیں اور غل مچانے لگیں۔ اس سے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ پہلی قسم کی آوازیں ہم جولی چڑیوں کو بلانے کے لیے تھیں اور دوسری قسم کی آوازیں کسی خطرے کا سگنل تھیں جنہیں سن کر سب چڑیاں خطرے سے ہوشیار ہو گئیں۔ اسی طرح کے تجربات سے سائنس دانوں کو یقین ہو گیا کہ جانور بھی مختلف قسم کی آوازیں نکال کر آپس میں بات چیت کرتے ہیں یا کم از کم اپنا مفہوم اپنے ہم نسل جانوروں تک پہنچا دیتے ہیں۔آپ نے شاید یہ بھی سنا ہو کہ کتا الٹرا سونک آوازیں سن سکتا ہے۔ الٹرا سونک وہ آوازیں کہلاتی ہیں جو انسان کے کان نہیں سن سکتے۔ سائنس دانوں کو تجربات سے پتہ چلا ہے کہ بہت سے جانور الٹرا سونک آوازوں کے ذریعے آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ یہ دریافت اتفاقیہ طور پر ہوئی تھی۔ ایک بار کچھ سائنس دان بہت حساس آلوں سے فضا میں آواز کی لہروں کی تھرتھراہت ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہاتھیوں کا ایک جھنڈ ایک طرف سے بھاگتا ہوا آیا۔ پھر وہ جھنڈ ایک دم ایک طرح رک گیا جیسے کسی کمانڈر نے مارچ کرتی فوج کو رک جانے کا حکم دے دیا ہو۔اس وقت سائنس دانوں نے الٹرا سونک لہریں محسوس کرنے والے آلے کی سوئیوں میں عجیب طرح کی تھرتھراہٹ محسوس کی۔ پھر اس تھرتھراہٹ میں ایک دم تبدیلی ہوئی اور تمام ہاتھی گھوم کر ایک دوسری سمت چل دیے۔ اس بات سے سائنس دانوں نے سمجھ لیا کہ ہاتھی الٹرا سونک آوازوں سے آپس میں باتیں کرتے ہیں اور سب سے آگے چلنے والا ہاتھی باقی ساتھیوں کو کمانڈر کی طرح احکامات دیتا رہتا ہے۔ سائنس دانوں نے ان آوازوں کو سمجھنے کی کوشش شروع کر دی اور ہاتھیوں کے جھنڈ کا پیچھا کرکے ان کی خاموش آوازوں کی لہروں کو حساس آلوں پر ریکارڈ کرنے لگے۔ الٹرا سونک آوازوں کی لہریں اتنی چھوٹی یا بڑی ہوتی ہیں کہ انسانی کان محسوس نہیں کر سکتے۔ لیکن حساس آلوں نے ان لہروں کو ریکارڈ کر لیا۔ ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ ہونے پر بھی یہ آوازیں انسانی کان نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ سائنس دانوں نے سوچا کہ ٹیپ ریکارڈر کو اگر تیزی سے چلایا جائے تو شاید یہ آوازیں سنی جا سکیں۔ اس خیال پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے ٹیپ ریکارڈ کو تیز چلایا تو واقعی سپیکر پر بہت مدھم آوازیں اس طرح سنائی دینے لگیں جیسے کوئی جانور رک رک کر ''ہوں ہوں'' کر رہا ہو۔ ان آوازوں میں ایک خاص وقفہ تھا اور آوازیں لمبی اور چھوٹی بھی تھیں۔ یعنی یہ ایک طرح کی زبان تھی جو ہاتھی آپس میں بات چیت کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے سائنس دانوں نے ہاتھیوں کے ایک بھاگتے ہوئے جھنڈ کو دیکھ کر اپنے ٹیپ ریکارڈر سے وہ لہریں نشر کیں۔ اور وہ دیکھ کر ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ وہ لہریں محسوس کرتے ہی ہاتھیوں کا جھنڈ ایک دم رک کر حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ سائنس دانوں نے اس کے بعد دوسری قسم کی لہریں نشر کیں۔ ان لہروں کے پھیلتے ہی ہاتھی یکایک گھومے اور دوسری طرف کو دوڑنے لگے۔ اس تجربہ سے یہ بات یقینی ہو گئی کہ ہاتھی الٹرا سونک آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں یا ہدایت دیتے ہیں۔

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔