کوانٹم مکینیکس
کائنات کا تصور جب بھی کسی جستجو کے شوقین انسان کے زہن میں آتا ہے تو پر اثراریت کا ایک جہاں اس کے اندر ایک ڈیرہ ڈال لیتا ہے،پھر وہ اپنی پراثرار جستجو کی تسکین کے لیے کبھی ریاضی کی سخت جان مساواتوں کا عاشق بننا پسند کرتا ہے تو کبھی طبیعیات کے خشک قوانین کو وہ اپنی پیاس کی تسکین کا زریعہ بنا لیتا ہے۔کبھی وہ ایٹم جیسے حقیر زرے کو اپنی کل کائنات سمجھتا ہے تو کبھی وہ اس عظیم کائنات کو حقیر زرے کا رتبہ دے کر اس کے مقام پیدائش سنگولےریٹی تک جا پہنچتا ہے۔یہی انسان کا جنون ہے جو اسے نیلز بوہر،آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن بنادیتا ہے۔ انسان فطری طور پر پراثرار چیزوں کو پسند کرتا ہے پھر ان کی کھوج کے لیے راستے میں آنے والی دشواریوں کو پس پشت ڈال کر بس اپنی جبلت کی تسکین کرتا ہے۔بے جا الزامات کی وجہ سے زندہ جلا دیا جانے والا گیورنادو برونو ہو یا ایک گندی سی جھگی میں پیدا ہونے والا اور دنیا کو الیکٹرو میگنٹزم ،الیکٹرو میگنیٹک انڈکشن اور مزید کئی نئے تصورات سے متعارف کروانے والا عظیم سائنسدان مائیکل فیراڈے ہو،آئزک نیوٹن ہو یا آئن اسٹائن،نیلز بوہر ہو یا میکس پلانک،سب ہی اس راہ کے مسافر ہیں۔کچھ واقعات یا تجربات ایسے ہوتے ہیں جو صرف عام لوگوں کو ہی پراثرار اور عجیب معلوم ہوتے ہیں۔لیکن کچھ تجربات ایے بھی ہوتے ہیں جو سائنس کے بڑے بڑے دماغوں کو بھی چکرا کر رکھ دیتے ہیں اور ان کے لیے ان مظاہرکی ایک مکمل توجیہہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔کوانٹم مکینکس ایسے بہت سے تجربات کا گڑھ سمجھی جاتی ہے جس نے آج تک دنیاکو حیران و پریشان کیا ہوا ہے۔
انسان پوری کائنات کا سائنسی مطالعہ کرتے وقت اس کائنات کو دو حصوں میں بانٹ دیتا ہے۔ایک میں وہ کائنات کے بہت بڑے اجسام ،ان کی حرکت اور ان کو چلانے والے قوانین کا مطالعہ کرتا ہے جیسے ستاروں سیاروں اور کہکشاؤں کی حرکت اور ان کے مربوط نظام کے پیچھے چھپے قدرتی قوانین کا مطالعہ جسے "کلاسیکل فزکس" کہا جاتا ہے۔کلاسیکل فزکس نیوٹن کے حرکت کے قوانین کی بنیاد پر کھڑی ہے جس میں بڑے اجسام کی حرکات کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جاتا ہے۔کلاسیکل فزکس جب ایٹم اور اٹامک پارٹیکلز کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو اپنا اثر کھو دیتی ہے کیونکہ وہ اٹامک پارٹیکلز کی حرکت و قوانین جو روشنی کی سپیڈ سے حرکت کرتےہیں ان کو بیان نہیں کر سکتی۔ دوسرے حصے میں انسان اس دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے جو بہت ہی چھوٹی دنیا ہے۔ایٹم کی دنیا اور اس ایٹم میں موجود مزید چھوٹی دنیاؤں کا مطالعہ و مشاہدہ۔بڑی سطح پر کائنات میں جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں ان کے پیچھے چھپے قوانین کی دریافت کی شروعات گلیلیو اور نیوٹن نے کردی تھی اور بیسویں صدی کے آخر تک انسان کائنات کے بڑے اجسام کی حرکات و قوانین کے متعلق بہت کچھ جان چکا تھا۔
لیکن اس دنیا کے متعلق جاننا ابھی بہت کچھ باقی تھا جو ہماری آنکھوں سے اوجھل تھی۔ایٹم کیا ہے؟یہ کیسے کام کرتا ہے؟اس کی ساخت کیسی ہے؟الیکٹرون پروٹون نیوٹرونز کیا ہیں اور ایٹم جیسے چھوٹے سے زرے میں کن قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔ابھی ان زرات کی مکمل توجیہہ بیان نہیں کی جا سکی تھی کہ بیسویں صدی میں سائنسدانوں نے بہت سارے مزید چھوٹے زرات دریافت کیے۔پروٹانز اور نیوٹرونزجن زرات سے بنے تھے وہ بھی دریافت کیے گئے جنہیں کوارکس کا نام دیا گیا ۔کوارکس کی بھی آگے سے کئی قسمیں تھیں۔لیپٹانز دریافت کیے گئے۔یہ تمام چھوٹےزرات اتنے زیادہ تھے کہ انہیں ان کی خصوصیات کی بنیاد پر ایک مربوط نظام میں تشکیل دینے کی ضرورت پیش آئی۔بعد میں ان زرات کو ایک مربوط نظام میں تشکیل دیا گیا جسے "سٹینڈرڈ ماڈل آف پارٹیکل فزکس " کہا جاتا ہے۔
ایٹم کے اندر موجود ان زرات کی دنیا کیسے کام کرتی تھی اور کن قوانین کی پابند تھی؟یہیں سے اس دنیا کی کھوج شروع ہوئی اور اس دنیا کی تحقیق میں بہت سی تھیوریز وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتی رہیں۔چھوٹی دنیا کے اس مطالعے کو "کوانٹم مکینکس" کا نام دیا گیا۔کوانٹم مکنیکس آپکو یہ بتاتی ہے کہ جب آپ اپنے ارد گرد کی اس دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو آپ کو وہ بلکل ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی وہ ہے۔لیکن جیسے ہی آپ اپنی نظروں کو پھیرتے ہیں تو اردگرد کی وہ دنیا جو پہلے آپ دیکھ رہے تھے اب وہ ویسی نہیں رہی بلکہ اب وہ کسی اور شکل میں ڈھل چکی ہے۔مثال کے طور پر اگر آپ سڑک پر راستے میں جا رہے ہیں تو آپ لوگوں کو دیکھیں گے،گاڑیوں کو دیکھیں گے لیکن جیسے ہی آپ اپنا چہرہ دوسری طرف کریں گے تو وہ دنیا جسے آپ پہلے دیکھ رہے تھے اب وہ ویسی نہیں ہے بلکہ کسی اور شکل میں ڈھل چکی ہے۔قدرت کے اس عجیب و غریب مظہر کی کھوج بیسویں صدی میں سائنسدانوں نے لگائی جب انہوں نے مشہور زمانہ "ڈبل سلٹ ایکسپیریمینٹ" کیا۔ اس تجربے کے بعد سائنسدان یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ کائنات کہ بارے میں ابھی تک ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ تجربہ کیا تھا اور کیسے کیا گیا؟
اس ایکسپیریمینٹ کو دو طریقوں سے کیا گیا۔پہلے طریقے میں پہلے کومینٹ میں تصویر کو دیکھیے جس میں ایک پلیٹ ہے اور اس پلیٹ میں ایک سلٹ ہے جو پانی میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس سلٹ میں سے پانی کی ویو گزر کر پیچھے ایک بڑی پلیٹ سے ٹکرا کر ایک سیدھی لائن کا نشان بنا رہی ہے۔پیچھے والی پلیٹ پر ویو کا نشان بلکل درمیان میں اس لیے بن رہا ہے کہ ویو کی شدت ویو کے درمیان میں زیادہ ہوتی ہے۔اسی تجربے میں اب ایک کی بجائے دو سلٹس استعمال ہونگی ۔اب دوسرے کومینٹ میں تصویر دیکھیں جس میں چھوٹی پلیٹ پر دو سلٹس ہیں اور ان سلٹس میں سے پانی کی ویو گزر رہی ہے۔جب پانی کی ویو دو سلٹس میں سے گزرتی ہے تو وہ دو چھوٹی ویوز میں تقسیم ہوجاتی ہے۔پھر وہ دونوں ویوز ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بعض مقامات پرکنسٹرکٹیو انٹرفیرینس کرتی ہیں۔ویوز مل کر جہاں کنسٹرکٹیو انٹر فیرنس کرتی ہیں وہاں ویو کی مجموعی شدت زیادہ ہوجاتی ہے اور پھر دونوں ویوز مل کر پیچھے والی پلیٹ پر ان مقامات پر نشان چھوڑتی ہیں جہاں ویو ز کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔اب یہاں پہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ نشان سیدھی لائن کی صورت میں پوری پلیٹ پر برابر جگہوں پر موجود ہٰیں ۔یہ ایک ویو کے دو مختلف رویے ہیں جب وہ پہلے ایک اور پھر دو سلٹس کے استعمال کی وجہ سے دکھاتی ہے۔
اب اسی تجربے میں پانی کی بجائے مادے کا ایک پارٹیکل یعنی الیکٹرون استعمال کیا جائے گا جو کہ ویو نہیں ایک زرہ ہے۔اب کومینٹ نمبر تین میں تصویر دیکھیے جس میں ایک الیکٹرون گن ہے جو الیکٹرونز کو سلٹ میں سے فائر کر رہی ہے۔الیکٹرونز کی وہ دھار سلٹ میں گزر کر پیچھے والی پلیٹ پر ایک سیدھی لائن کی صورت میں ایک نشان چھوڑ رہی ہے ۔
اب اسی تجربے میں ایک سلٹ کی بجائے دو سلٹس استعمال کی جائیں گی۔سائنسدانوں نے جب الیکٹرونز کی دھار کو دو سلٹس میں سے گزارا جو کہ آپ کومینٹ نمبر چار کی تصویر میں دیکھ سکتے ہیں تو یہاں سائنسدانوں کو دھچکا لگا کہ الیکٹرونز جو کہ زرات ہیں وہ اب ویو کا رویہ دکھاتے ہوئے پیچھے والی پلیٹ پر ٹکرا کر لائنز کا وہی پیٹرن دکھا رہے تھے جو کہ پہلے ایک ویو دکھا رہی تھی۔ مادے کا ایک زرہ ویو کا رویہ کیوں دکھا رہا تھا؟یہ کیسے ممکن تھا کہ مادے کا ایک زرہ ایک ہی وقت میں ایک زرہ بھی ہو اور ویو بھی؟
سائنسدانوں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ الیکٹرونز سلٹس سے گزر کر آپس میں ٹکرا رہے ہوں جس کی وجہ سے ویو کا انٹرفیرینس دکھارہے تھے۔اس شک کو نکالنے کے لیے انہوں نے اب ایک ایسی گن کا استعمال کیا جو ایک وقت میں ایک ہی الیکٹرون فائر کر رہی تھی۔گن فائرنگ پر لگا کرکافی دیر بعد سائنسدانوں نے جب دیکھا تو ابھی بھی لائنزکا وہی پیٹرن بن رہا تھا جو پہلے تھا۔الیکٹرونز ابھی بھی ویو نیچر ہی دکھا رہے تھے۔سلٹس میں سے گزرنے سے پہلے آخر الیکٹرونز کے ساتھ آخر کیا ہو رہا تھا جو وہ اپنی نیچر کو بار بار بدل رہے تھے۔اب سائنسدانوں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ سلٹس سے گزرنے سے پہلے الیکٹرونز اپنی نیچر کیسے اور کیوں بدل رہے تھے انہوں نے سلٹس کے بلکل ساتھ ایک کیمرہ لگا دیا تا کہ وہ الیکٹرونز کے اس غیر معمولی رویے کا مشاہدہ کر سکیں۔لیکن اس بار جو انہوں نے دیکھا اس نے سائنسدانوں کے ہوش اڑا دیے۔اب الیکٹرونز اپنی پارٹیکل نیچر دکھا رہے تھے اور سلٹس میں سے گزرنے کے بعد پیچھے والی پلیٹ پر انہی دو جگہوں پر نشان چھوڑ رہے تھے جو دو سلٹس میں سے نظر آرہی تھیں۔ کومینٹ نمبر پانچ کا امیج دیکھیے۔الیکٹرونز کا جب کسی آبزرونگ ٹول کے زریعے مشاہدہ کیا جاتا تو وہ پارٹیکل نیچر دکھاتے اور جب آبزرور کو ہٹا لیا جاتا تو وہ ویو نیچر دکھانا شروع کر دیتے۔الیکٹرونز جو کہ زرات ہیں انہیں کیسے پتا چل رہا تھا کہ انہیں کوئی دیکھ رہا ہے؟سائنسدانوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ آبزرونگ ٹول کو ئی الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ نا پیدا کرے،لیکن ہر بار الیکٹرونز آبزرور کے زریعے مشاہدہ کیے جانے پر اپنی نیچر بدل لیتے جیسے انہیں پتا چل رہا تھا کہ انہیں کوئی دیکھ رہا ہے۔
یہ ایک ایسی عجیب و غریب کھوج تھی جو اب تک پوری سائنسی دنیا کے لیے سر درد کا باعث بنی ہوئی ہے کہ مادے کا زرہ کیسے جان سکتا ہے کہ کوئی اسے دیکھتا ہے۔ہم سب اور یہ دنیا ایٹمز اور الیکٹرونز سے مل کر بنی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کائنات کی ہر شے ہر انسان اور جاندار ہر دکھائی دینے والا قدرتی مظہر دکھائی دینے پر کچھ اور ہے اور نا دکھائی دینے پر وہ کسی اور صورت میں خود کو بدل چکا ہے۔یہ تو کوانٹم مکینکس کاایک پراثرار مظہر ہے جس نے ابھی تک دنیا کو چکرا کے رکھا ہوا ہے۔اس کے علاوہ بھی کوانٹم مکینکس کے دو اور اصول ایسے ہیں جو بلکل ایسے ہی عجیب ہیں۔کوانٹم اینٹینگلمینٹ اور کوانٹم سپر پوزیشن۔آئن اسٹائن کہتا تھا حقیقت کبھی خود کو بدل نہیں سکتی چاہے اسے کوئی دیکھ رہا ہو یا نا دیکھ رہا ہو ،یہ مستقل ہے۔لیکن کوانٹم مکینکس کے ان عجیب مظاہر فطرت کی بنیاد پر ہی آئن اسٹائن نے یہ بھی کہا تھا کہ:
"ہمارے پاس حقیقت کی دو متضاد تصویریں ہیں،کائنات کی اصل حقیقت کیا ہے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔"
اور نیلز بوہر نے کہا تھا:
'اگر کوانٹم مکینکس نے ابھی تک آپ کو حیران نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اسے سمجھا ہی نہیں"
نوٹ:
اس آرٹیکل میں تحقیقی غلطی کا امکان موجود ہو سکتا ہے۔برائے مہربانی اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس کی طرف نشاندہی ضرور کیجیے گا۔شکریہ
عمر رضا
کائنات کا تصور جب بھی کسی جستجو کے شوقین انسان کے زہن میں آتا ہے تو پر اثراریت کا ایک جہاں اس کے اندر ایک ڈیرہ ڈال لیتا ہے،پھر وہ اپنی پراثرار جستجو کی تسکین کے لیے کبھی ریاضی کی سخت جان مساواتوں کا عاشق بننا پسند کرتا ہے تو کبھی طبیعیات کے خشک قوانین کو وہ اپنی پیاس کی تسکین کا زریعہ بنا لیتا ہے۔کبھی وہ ایٹم جیسے حقیر زرے کو اپنی کل کائنات سمجھتا ہے تو کبھی وہ اس عظیم کائنات کو حقیر زرے کا رتبہ دے کر اس کے مقام پیدائش سنگولےریٹی تک جا پہنچتا ہے۔یہی انسان کا جنون ہے جو اسے نیلز بوہر،آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن بنادیتا ہے۔ انسان فطری طور پر پراثرار چیزوں کو پسند کرتا ہے پھر ان کی کھوج کے لیے راستے میں آنے والی دشواریوں کو پس پشت ڈال کر بس اپنی جبلت کی تسکین کرتا ہے۔بے جا الزامات کی وجہ سے زندہ جلا دیا جانے والا گیورنادو برونو ہو یا ایک گندی سی جھگی میں پیدا ہونے والا اور دنیا کو الیکٹرو میگنٹزم ،الیکٹرو میگنیٹک انڈکشن اور مزید کئی نئے تصورات سے متعارف کروانے والا عظیم سائنسدان مائیکل فیراڈے ہو،آئزک نیوٹن ہو یا آئن اسٹائن،نیلز بوہر ہو یا میکس پلانک،سب ہی اس راہ کے مسافر ہیں۔کچھ واقعات یا تجربات ایسے ہوتے ہیں جو صرف عام لوگوں کو ہی پراثرار اور عجیب معلوم ہوتے ہیں۔لیکن کچھ تجربات ایے بھی ہوتے ہیں جو سائنس کے بڑے بڑے دماغوں کو بھی چکرا کر رکھ دیتے ہیں اور ان کے لیے ان مظاہرکی ایک مکمل توجیہہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔کوانٹم مکینکس ایسے بہت سے تجربات کا گڑھ سمجھی جاتی ہے جس نے آج تک دنیاکو حیران و پریشان کیا ہوا ہے۔
انسان پوری کائنات کا سائنسی مطالعہ کرتے وقت اس کائنات کو دو حصوں میں بانٹ دیتا ہے۔ایک میں وہ کائنات کے بہت بڑے اجسام ،ان کی حرکت اور ان کو چلانے والے قوانین کا مطالعہ کرتا ہے جیسے ستاروں سیاروں اور کہکشاؤں کی حرکت اور ان کے مربوط نظام کے پیچھے چھپے قدرتی قوانین کا مطالعہ جسے "کلاسیکل فزکس" کہا جاتا ہے۔کلاسیکل فزکس نیوٹن کے حرکت کے قوانین کی بنیاد پر کھڑی ہے جس میں بڑے اجسام کی حرکات کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جاتا ہے۔کلاسیکل فزکس جب ایٹم اور اٹامک پارٹیکلز کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو اپنا اثر کھو دیتی ہے کیونکہ وہ اٹامک پارٹیکلز کی حرکت و قوانین جو روشنی کی سپیڈ سے حرکت کرتےہیں ان کو بیان نہیں کر سکتی۔ دوسرے حصے میں انسان اس دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے جو بہت ہی چھوٹی دنیا ہے۔ایٹم کی دنیا اور اس ایٹم میں موجود مزید چھوٹی دنیاؤں کا مطالعہ و مشاہدہ۔بڑی سطح پر کائنات میں جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں ان کے پیچھے چھپے قوانین کی دریافت کی شروعات گلیلیو اور نیوٹن نے کردی تھی اور بیسویں صدی کے آخر تک انسان کائنات کے بڑے اجسام کی حرکات و قوانین کے متعلق بہت کچھ جان چکا تھا۔
لیکن اس دنیا کے متعلق جاننا ابھی بہت کچھ باقی تھا جو ہماری آنکھوں سے اوجھل تھی۔ایٹم کیا ہے؟یہ کیسے کام کرتا ہے؟اس کی ساخت کیسی ہے؟الیکٹرون پروٹون نیوٹرونز کیا ہیں اور ایٹم جیسے چھوٹے سے زرے میں کن قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔ابھی ان زرات کی مکمل توجیہہ بیان نہیں کی جا سکی تھی کہ بیسویں صدی میں سائنسدانوں نے بہت سارے مزید چھوٹے زرات دریافت کیے۔پروٹانز اور نیوٹرونزجن زرات سے بنے تھے وہ بھی دریافت کیے گئے جنہیں کوارکس کا نام دیا گیا ۔کوارکس کی بھی آگے سے کئی قسمیں تھیں۔لیپٹانز دریافت کیے گئے۔یہ تمام چھوٹےزرات اتنے زیادہ تھے کہ انہیں ان کی خصوصیات کی بنیاد پر ایک مربوط نظام میں تشکیل دینے کی ضرورت پیش آئی۔بعد میں ان زرات کو ایک مربوط نظام میں تشکیل دیا گیا جسے "سٹینڈرڈ ماڈل آف پارٹیکل فزکس " کہا جاتا ہے۔
ایٹم کے اندر موجود ان زرات کی دنیا کیسے کام کرتی تھی اور کن قوانین کی پابند تھی؟یہیں سے اس دنیا کی کھوج شروع ہوئی اور اس دنیا کی تحقیق میں بہت سی تھیوریز وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتی رہیں۔چھوٹی دنیا کے اس مطالعے کو "کوانٹم مکینکس" کا نام دیا گیا۔کوانٹم مکنیکس آپکو یہ بتاتی ہے کہ جب آپ اپنے ارد گرد کی اس دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو آپ کو وہ بلکل ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی وہ ہے۔لیکن جیسے ہی آپ اپنی نظروں کو پھیرتے ہیں تو اردگرد کی وہ دنیا جو پہلے آپ دیکھ رہے تھے اب وہ ویسی نہیں رہی بلکہ اب وہ کسی اور شکل میں ڈھل چکی ہے۔مثال کے طور پر اگر آپ سڑک پر راستے میں جا رہے ہیں تو آپ لوگوں کو دیکھیں گے،گاڑیوں کو دیکھیں گے لیکن جیسے ہی آپ اپنا چہرہ دوسری طرف کریں گے تو وہ دنیا جسے آپ پہلے دیکھ رہے تھے اب وہ ویسی نہیں ہے بلکہ کسی اور شکل میں ڈھل چکی ہے۔قدرت کے اس عجیب و غریب مظہر کی کھوج بیسویں صدی میں سائنسدانوں نے لگائی جب انہوں نے مشہور زمانہ "ڈبل سلٹ ایکسپیریمینٹ" کیا۔ اس تجربے کے بعد سائنسدان یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ کائنات کہ بارے میں ابھی تک ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ تجربہ کیا تھا اور کیسے کیا گیا؟
اس ایکسپیریمینٹ کو دو طریقوں سے کیا گیا۔پہلے طریقے میں پہلے کومینٹ میں تصویر کو دیکھیے جس میں ایک پلیٹ ہے اور اس پلیٹ میں ایک سلٹ ہے جو پانی میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس سلٹ میں سے پانی کی ویو گزر کر پیچھے ایک بڑی پلیٹ سے ٹکرا کر ایک سیدھی لائن کا نشان بنا رہی ہے۔پیچھے والی پلیٹ پر ویو کا نشان بلکل درمیان میں اس لیے بن رہا ہے کہ ویو کی شدت ویو کے درمیان میں زیادہ ہوتی ہے۔اسی تجربے میں اب ایک کی بجائے دو سلٹس استعمال ہونگی ۔اب دوسرے کومینٹ میں تصویر دیکھیں جس میں چھوٹی پلیٹ پر دو سلٹس ہیں اور ان سلٹس میں سے پانی کی ویو گزر رہی ہے۔جب پانی کی ویو دو سلٹس میں سے گزرتی ہے تو وہ دو چھوٹی ویوز میں تقسیم ہوجاتی ہے۔پھر وہ دونوں ویوز ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بعض مقامات پرکنسٹرکٹیو انٹرفیرینس کرتی ہیں۔ویوز مل کر جہاں کنسٹرکٹیو انٹر فیرنس کرتی ہیں وہاں ویو کی مجموعی شدت زیادہ ہوجاتی ہے اور پھر دونوں ویوز مل کر پیچھے والی پلیٹ پر ان مقامات پر نشان چھوڑتی ہیں جہاں ویو ز کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔اب یہاں پہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ نشان سیدھی لائن کی صورت میں پوری پلیٹ پر برابر جگہوں پر موجود ہٰیں ۔یہ ایک ویو کے دو مختلف رویے ہیں جب وہ پہلے ایک اور پھر دو سلٹس کے استعمال کی وجہ سے دکھاتی ہے۔
اب اسی تجربے میں پانی کی بجائے مادے کا ایک پارٹیکل یعنی الیکٹرون استعمال کیا جائے گا جو کہ ویو نہیں ایک زرہ ہے۔اب کومینٹ نمبر تین میں تصویر دیکھیے جس میں ایک الیکٹرون گن ہے جو الیکٹرونز کو سلٹ میں سے فائر کر رہی ہے۔الیکٹرونز کی وہ دھار سلٹ میں گزر کر پیچھے والی پلیٹ پر ایک سیدھی لائن کی صورت میں ایک نشان چھوڑ رہی ہے ۔
اب اسی تجربے میں ایک سلٹ کی بجائے دو سلٹس استعمال کی جائیں گی۔سائنسدانوں نے جب الیکٹرونز کی دھار کو دو سلٹس میں سے گزارا جو کہ آپ کومینٹ نمبر چار کی تصویر میں دیکھ سکتے ہیں تو یہاں سائنسدانوں کو دھچکا لگا کہ الیکٹرونز جو کہ زرات ہیں وہ اب ویو کا رویہ دکھاتے ہوئے پیچھے والی پلیٹ پر ٹکرا کر لائنز کا وہی پیٹرن دکھا رہے تھے جو کہ پہلے ایک ویو دکھا رہی تھی۔ مادے کا ایک زرہ ویو کا رویہ کیوں دکھا رہا تھا؟یہ کیسے ممکن تھا کہ مادے کا ایک زرہ ایک ہی وقت میں ایک زرہ بھی ہو اور ویو بھی؟
سائنسدانوں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ الیکٹرونز سلٹس سے گزر کر آپس میں ٹکرا رہے ہوں جس کی وجہ سے ویو کا انٹرفیرینس دکھارہے تھے۔اس شک کو نکالنے کے لیے انہوں نے اب ایک ایسی گن کا استعمال کیا جو ایک وقت میں ایک ہی الیکٹرون فائر کر رہی تھی۔گن فائرنگ پر لگا کرکافی دیر بعد سائنسدانوں نے جب دیکھا تو ابھی بھی لائنزکا وہی پیٹرن بن رہا تھا جو پہلے تھا۔الیکٹرونز ابھی بھی ویو نیچر ہی دکھا رہے تھے۔سلٹس میں سے گزرنے سے پہلے آخر الیکٹرونز کے ساتھ آخر کیا ہو رہا تھا جو وہ اپنی نیچر کو بار بار بدل رہے تھے۔اب سائنسدانوں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ سلٹس سے گزرنے سے پہلے الیکٹرونز اپنی نیچر کیسے اور کیوں بدل رہے تھے انہوں نے سلٹس کے بلکل ساتھ ایک کیمرہ لگا دیا تا کہ وہ الیکٹرونز کے اس غیر معمولی رویے کا مشاہدہ کر سکیں۔لیکن اس بار جو انہوں نے دیکھا اس نے سائنسدانوں کے ہوش اڑا دیے۔اب الیکٹرونز اپنی پارٹیکل نیچر دکھا رہے تھے اور سلٹس میں سے گزرنے کے بعد پیچھے والی پلیٹ پر انہی دو جگہوں پر نشان چھوڑ رہے تھے جو دو سلٹس میں سے نظر آرہی تھیں۔ کومینٹ نمبر پانچ کا امیج دیکھیے۔الیکٹرونز کا جب کسی آبزرونگ ٹول کے زریعے مشاہدہ کیا جاتا تو وہ پارٹیکل نیچر دکھاتے اور جب آبزرور کو ہٹا لیا جاتا تو وہ ویو نیچر دکھانا شروع کر دیتے۔الیکٹرونز جو کہ زرات ہیں انہیں کیسے پتا چل رہا تھا کہ انہیں کوئی دیکھ رہا ہے؟سائنسدانوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ آبزرونگ ٹول کو ئی الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ نا پیدا کرے،لیکن ہر بار الیکٹرونز آبزرور کے زریعے مشاہدہ کیے جانے پر اپنی نیچر بدل لیتے جیسے انہیں پتا چل رہا تھا کہ انہیں کوئی دیکھ رہا ہے۔
یہ ایک ایسی عجیب و غریب کھوج تھی جو اب تک پوری سائنسی دنیا کے لیے سر درد کا باعث بنی ہوئی ہے کہ مادے کا زرہ کیسے جان سکتا ہے کہ کوئی اسے دیکھتا ہے۔ہم سب اور یہ دنیا ایٹمز اور الیکٹرونز سے مل کر بنی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کائنات کی ہر شے ہر انسان اور جاندار ہر دکھائی دینے والا قدرتی مظہر دکھائی دینے پر کچھ اور ہے اور نا دکھائی دینے پر وہ کسی اور صورت میں خود کو بدل چکا ہے۔یہ تو کوانٹم مکینکس کاایک پراثرار مظہر ہے جس نے ابھی تک دنیا کو چکرا کے رکھا ہوا ہے۔اس کے علاوہ بھی کوانٹم مکینکس کے دو اور اصول ایسے ہیں جو بلکل ایسے ہی عجیب ہیں۔کوانٹم اینٹینگلمینٹ اور کوانٹم سپر پوزیشن۔آئن اسٹائن کہتا تھا حقیقت کبھی خود کو بدل نہیں سکتی چاہے اسے کوئی دیکھ رہا ہو یا نا دیکھ رہا ہو ،یہ مستقل ہے۔لیکن کوانٹم مکینکس کے ان عجیب مظاہر فطرت کی بنیاد پر ہی آئن اسٹائن نے یہ بھی کہا تھا کہ:
"ہمارے پاس حقیقت کی دو متضاد تصویریں ہیں،کائنات کی اصل حقیقت کیا ہے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔"
اور نیلز بوہر نے کہا تھا:
'اگر کوانٹم مکینکس نے ابھی تک آپ کو حیران نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اسے سمجھا ہی نہیں"
نوٹ:
اس آرٹیکل میں تحقیقی غلطی کا امکان موجود ہو سکتا ہے۔برائے مہربانی اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس کی طرف نشاندہی ضرور کیجیے گا۔شکریہ
عمر رضا
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔