ہماری کائنات
اکیلی نہیں
۔۔
(سٹرنگ تھیوری،
حصہ دوم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: میری دانست
میں اس سے پہلا مضمون، ’’سٹرنگ تھیوری سمجھنے کی کچھ تیاری‘‘ پہلے پڑھ لینا ضروری
ہے۔
۔۔۔۔
سٹرنگ تھیوری کی
جادُونگری میں سب سے زیادہ دلچسپ یہ نظریہ ہے کہ ہماری کائنات اکیلی نہیں ہے۔ بلکہ
کائناتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔ہماری کائنات
جسے ہم کبھی ’’یونی ورس‘‘ کہا کرتے تھے اب مزید یونیورس کہلانے کی حقدار نہیں ہے۔
اب ہمیں چاہیے کہ ہم ایک نیا لفظ استعمال کریں اور وہ ہے، ’’ملٹی ورس‘‘، جس کا
مطلب ہے ،
’’بہت سی کائناتوں
کا مجموعہ‘‘۔
اِن بہت سی
کائناتوں میں ایسی بھی ہیں جو ہماری کائنات سے بالکل مختلف ہیں اور وہاں فزکس کے
قوانین بھی بالکل مختلف ہیں۔
ان میں ایسی بھی
ہیں جوبالکل ہماری کائنات سے ملتی جلتی ہیں اوراُن میں بھی ایسی ہی کہکشائیں، ایسے
ہی ستارے اور سیارے ہیں۔ ان میں بعض کائناتیں ہماری کائنات کے ہوبہو مشابہہ بھی
ہیں۔ ہُوبہُو مشابہہ اس طرح کہ اُن میں نہ صرف ہماری زمین جیسی زمین ہے بلکہ وہاں
ہم بھی ہیں۔ بالکل ایسے جیسے یہاں ہم ہیں۔مثلاً اگر میں اِس کائنات میں ادریس
آزاد ہوں اور ایک لکھاری ہوں تو ایک اور کائنات ہے جس میں ، میں ٹرک ڈرائیور ہوں۔
اسی طرح ایک اور کائنات جس میں، میں کلرک ہوں۔ اسی طرح ایک اور کائنات ہے جس میں
مَیں باغبان ہوں۔جس قدر امکانات ہیں ، اتنی ہی کائناتیں ہیں۔ ہرکائنات حقیقی ہے
اور یہ سب کائناتیں ایک دوسرے کے پڑوس میں اس طرح موجود ہیں جیسے ایک کتاب کے
اوراق آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔
ملٹی ورس، بہت سی
کائناتوں کا مجموعہ ہے۔کیا ہم ایک کائنات سے دوسری میں سفر کرسکتے ہیں؟
گریوٹانز وہ
سٹرنگز ہیں جن کی مدد سے ہم ایک کائنات سے دوسری کائنات تک سفر کرسکتے ہیں۔
گریوٹانز ، گریوٹی کی سٹرنگز ہیں۔ آنے والے کل میں شاید ہم ایک ایسا ٹیلیفون
بنانے میں کامیاب ہوجائیں جس کا نام ہو، ’’گریوٹی فون‘‘ ۔ ہم اس فون کے ذریعے
دوسری کائنات میں کال کرسکنے کے قابل ہونگے۔ اگر وہ دوسری کائنات ہماری کائنات کے
مشابہہ ہوئی تو ہم اس میں اپنے آپ کو بھی کال کرسکتے ہیں۔
فرض کریں ایک
کائنات میں، آپ پروفیسر ہیں اور دوسری متوازی کائنات میں آپ وزیراعظم ہیں تو آپ
اپنے پروفیسر ورژن آف پرسنیلٹی سے اپنے وزیراعظم ورژن آف پرسنیلٹی کو کال
ملاسکتے ہیں۔اگر ہم نے کبھی گریوٹی کی سٹرنگز یعنی گریوٹانز کو لیبارٹری میں ٹریس
کرلیا تو شاید اس کے بعد ہم اس قابل ہوسکیں کہ ایک کائنات سے دوسری کائنات کے ساتھ
رابطہ یا سفر کرنے کے اہل ہوجائیں۔ تب ہم اپنے آپ کے کئی ورژنز سے مل سکیں گے۔
مثال کے طور پر آپ ہماری اِس کائنات میں ایک پولیس مین ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ
آپ پولیس مین کی بجائےکچھ اور ہوتے تو آپ اپنی پیرالل یونیورسز کے بہت سے ورژنز
میں سے اپنی پسند کا ورژن منتخب کرسکتے ہیں۔
یعنی آپ ایک کلرک
سے اچانک ایک سائنس دان بن سکتے ہیں۔ بس آپ کو فقط اتنا کرنا ہوگا کہ گریوٹی کی
سٹرنگز یعنی گریوٹانز پر سوار ہوکر ایک کائنات سے دوسری کائنات تک سفر کرنا
ہوگا۔یافرض کریں چند سال پہلے آپ کا کوئی بہت ہی پیارا رشتہ آپ سے بچھڑ گیا ہے
اور اس کی موت کا غم آپ کے دل سے نہیں جارہا۔تو آپ لازمی طور پر چاہیں گے کہ آپ
واپس اُنہی دنوں میں چلے جائیں جب آپ کا پیارا زندہ تھا۔گریوٹانز کی دریافت اور
اُن پر قابوپانے کےبعد ایسا کرنا بہت آسانی سے ممکن ہوگا۔آپ اپنی یونیورس سے سفر
کرینگے اور چند سال پہلے والی پیرالل یونیورس میں چلے جائینگے۔ جہاں آپ کا پیارا
رشتہ زندہ و جاوید ہنستا مسکراتا موجود ہوگا اور آپ اس سے مل سکیں گے۔
صرف اتنا ہی نہیں
سٹرنگ تھیوری طلسم ِ ہوشربا کا دوسرا نام ہے۔ سٹرنگ تھیوری سے پہلے ہم فقط آئن
سٹائن کے کنویں میں رہتے تھے۔ جو ایک بہت چھوٹا کنواں ہے۔ آئن سٹائن کی جنرل
تھیوری آف ریلیٹوٹی ہمیں جب کائنات کی ابتدأ کی طرف لے جاتی ہے تو بگ بینگ سے
پہلے کی کچھ خبرنہیں دے سکتی۔
سٹرنگ تھیوری جہاں
ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کائنات کے کناروں سے باہر نکل کر دیکھو تو ہرطرف کائناتیں ہی
کائناتیں بکھری ہیں وہاں یہی سٹرنگ تھیوری ایک مقام پر بہت ہی عجیب و غریب ہوجاتی
ہے اور وہ یہ کہ ہماری کائنات کا کنار ےسپیس میں دُور ، کہیں بہت ہی دُور یعنی اربوں
نُوری سال کے فاصلوں تک دُور موجود نہیں ہیں۔ بلکہ ہماری کائنات کے کنارے کہیں بھی
ہوسکتے ہیں۔ کہیں بھی ہم اپنی کائنات سے نکل کر کسی دوسری کائنات میں داخل ہوسکتے
ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اِس وقت جس کمرے میں بیٹھے یہ مضمون پڑھ رہے ہیں اِسی
کمرے میں کئی کائناتیں ہوسکتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس وافر مقدار میں گریوٹانز موجود
ہوں تو آپ اپنے کمرے سے ہی سفرکرکے کسی اور کائنات میں داخل ہوسکتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام
مفروضے وہ ہیں جو سٹرنگ تھیوری نے باقاعدہ ریاضیاتی کلیوں کے بعد اخذ کیے اور
ماہرین ِ فزکس کی اکثریت کو یقین ہے کہ ایسا ایک دن ہوکر رہیگا۔ ’’سٹیون وائن
برگ‘‘ وہ سائنس دان ہے جس نے ڈاکٹرعبدالسلام کے ساتھ مشترکہ نوبل پرائز لیاتھا ۔
اسی سائنسدان نے ایٹم کےسٹینڈرڈ ماڈل کا نام ، ’’سٹینڈرڈ ماڈل‘‘رکھا ۔
سٹیون وائن برگ کے
بقول ،
’’جتنی مضبوط
سٹرنگ تھیوری کی میتھ ہے۔ اتنی مضبوط آج تک کسی تھیوری کی میتھ نہیں رہی۔اس سے
قبل ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میتھ اتنی مضبوط ہو اور نتائج ویسے نہ نکلیں جیسے میتھ
نے بتائے‘‘
اِس وقت دنیا کی
دو بڑی لیبارٹریز’’فرمی لیب‘‘ اور ’’سرن لیب‘‘ جہاں ایٹم کے دیگر بہت سے پہلوؤں کو
سمجھنے اور اس کے رازوں کو افشأ کرنے میں مصروف ہے وہاں اس کے بڑے مقاصد میں ایک
یہ بھی ہے کہ گریوٹانز دریافت کیے جائیں۔ماہرین ِ فزکس کو بھرپور اُمید ہے کہ آنے
والے چند سالوں میں وہ گریوٹانز ضرور دریافت کرلینگے۔ اس پر مستزاد گریوٹیشنل ویو
کی دریافت ہے ۔ جس نے گریوٹی کے موضوع کو اور زیادہ دلچسپ اور اہم بنادیاہے۔
سٹرنگ تھیوری کا
دوسرا دلچسپ ترین پہلُو یہ ہے کہ اس کے مطابق مکان کی جہات یعنی سپیس کی ڈائمینشنز
صرف تین نہیں ہیں بلکہ دس ہیں۔ہم اپنے طور پر جانتے ہیں کہ ہم تھری ڈائمینشنل
ہستیاں ہیں۔ تھری ڈائمینشنز کو فارسی میں شش جہات کہا جاتاہے۔ سب سے پہلے ایک
مسلمان سائنس دان ابن الھیثم نے دنیا کو بتایا تھا کہ سپیس یعنی مکان کی جہات چھ
اور ڈائمینشنز تین ہیں۔
یہ ڈائمینشنز کیا
ہوتی ہیں؟ ہم جب ایک کاغذ پر ایک لائن لگاتے ہیں تو وہ ’’ون ڈائمنشنل‘‘ ہوتی ہے۔
جب ہم کسی کاغذ پر
کوئی مثلث یا مربع یا کوئی تصویر بناتے ہیں تو وہ ٹُوڈائمنشنل ہوتی ہے۔ایک وائٹ
بورڈ پر لگائی گئی تمام لائنیں ون ڈائمنشنل اورتمام تصویریں یا مثلثیں یا مربعے
وغیرہ ٹُوڈائمینشل آبجیکٹ ہوتے ہیں۔ تھری ڈائمینشل اشیأ کو کاغذوں پر نہیں بنایا
جاسکتا۔ کیونکہ یہ حقیقی دنیا کی اشیأ ہیں۔ جیسے کہ چائے کا کپ جو میز پر پڑاہے۔
یا میں یا آپ یا ہمارا کمرہ۔ یہ سب تھری ڈائمنشنل اشیأ ہیں۔
کیونکہ یہ کاغذ پر
بنی ہوئی تصویریں نہیں ہیں بلکہ ان میں موٹائی یا گہرائی بھی ہے جو کاغذ پر نہیں
بنائی جاسکتی ۔ حتیٰ کہ جب ہم ٹی وی دیکھتے ہیں تو تب بھی ٹی وی کی سکرین ٹو
ڈائمینشنل کاغذ کی سطح کی طرح ہوتی ہے اور اس میں نظر آنے والی تصویریں بھی
ٹوڈائمنشنل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں موٹائی یا گہرائی نہیں ہوتی۔یہ ہماری تین
ڈائمینشنز ہیں۔ جن کے ہم خود بنے ہوئے ہیں اور ہمارا یہ کمرہ بناہواہے۔ ان
ڈائمینشنز کو ایکس ، وائی اور زیڈ کی علامتوں سے ظاہر کیا جاتاہے۔
سٹرنگ تھیوری کا
کہناہے کہ ہم صرف تین ڈائمینشنز کو محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ ہم انسان ہیں اور ہم
بہت بڑے بڑے ہیں۔جبکہ اِن تین کے علاوہ سات اور ڈائمینشنز بھی ہیں۔ یہ ڈائمینشنز
بھی سپیس یعنی مکان کی ہی ہیں۔سٹرنگ تھیوری کے بقول مکان کی کُل دس ڈائمنشنز ہیں،
جبکہ ٹائم کی گیارھویں ڈائمنشن کو ملا کر ہم اپنی معلوم کائنات کی ساخت مکمل کرتے
ہیں۔ہم انسانوں کو یہ بڑی بڑی تین ڈائمنشنز نظر آتی ہیں لیکن سپیس کی باقی سات
ڈائمینشنز ہمیں کیوں نظر نہیں آتیں؟ کیونکہ وہ سات ڈائمنشنز بہت ہی باریک ہیں۔ وہ
اتنی باریک ہیں کہ ہمارے بس میں نہیں کہ ہم اُن ڈائمنشنز کو کبھی دیکھ سکیں۔ان
اضافی ڈائمنشنز کو ایکسٹراڈائمنشنز بھی کہا جاتاہے۔
جب ہم مکان (سپیس)
کو بہت ہی باریک سطح پر جاکر دیکھیں تو وہاں دنیا مختلف ہے۔اس بات کو سمجھانے کے
لیے ماہرین ِ فزکس تھیوڈور کلوزا کی پیش کردہ مثال سے ہی کام لیتے ہیں۔ کلُوزا نے
ایکسٹراڈائمنشن کو منطقی طور پر گرفت میں لانے کے لیے جو تصور قائم کیا تھا وہ ایک
مثال ہے۔ اور اِس طرح ہے،
’’ہم اپنے کمرے کی
کھڑکی سے باہر دیکھیں تو دور بجلی کے کھمبوں کو ملانی والی تاریں ہمیں بہت باریک
سی لکیروں کے طور پر نظر آتی ہیں۔ یہ باریک لکیریں بالکل ویسی ہیں جیسی کسی کاغذ
پر لگائی گئی ون ڈائمنشنل لائنز۔ ہم اپنے کمرے کی کھڑکی سے بجلی کی اُس تار کی موٹائی
کو نہیں دیکھ سکتے۔اگر وہاں بجلی کی اُس تار پر ایک چیونٹی چل رہی ہے تو وہ ہمیں
یہاں سے نظر نہیں آسکتی۔
فرض کریں کہ ہم
وہاں چلے جاتے ہیں۔ یعنی بجلی کی تار کے پاس جاتے ہیں اور وہاں جاکر دیکھتے تو
ہمیں ایک چیونٹی نظر آتی ہے جو تار پر چل رہی ہے۔ چیونٹی جانتی ہے کہ وہ دو اطراف
میں یعنی آگے پیچھے سفر کرسکتی ہے یا تار کی گولائی پر کلاک وائز یا اینٹی کلاک
وائز ، گول گول گھوم سکتی ہے۔ہماری لیے یہ ڈائمنشن پہلے موجود نہیں تھی۔ ہم نے پاس
جاکر دیکھا تو معلوم ہوئی۔ لیکن چیونٹی کے لیے ایک ٹُو ڈائیمنشنل سطح موجود تھی
اور وہ اپنے حساب سے اُس پر دوطرح کی حرکت کرسکتی تھی۔ تار کی گولائی کے گرد
گھومتے رہنا یا آگے پیچھے سفر کرنا‘‘۔
جب ہم سپیس کا اسی
طرح باریکی سے جاکر جائزہ لیتے ہیں تو نہایت چھوٹی سطح پر سپیس کی ڈائمنشنز اسی
طرح کچھ اور بھی ہیں۔سپیس کو باریک سے باریک دیکھنا ہمارے لیے ممکن نہیں لیکن اگر
ہم بہت چھوٹے ہوتے تو ہم ان ڈائمنشنز میں حرکت کرسکتے تھے۔ ہم بہت بڑے ہیں اس ل
ہمیں محسوس ہونے والی ڈائمنشنز تین ہیں یعنی ایکس ، وائی اور زیڈ۔
بہت باریک چیونٹی
کے لیے تین سے زیادہ ڈائمنشنز میں سفر کرنا بھی ممکن ہے۔ لیکن یہ چیونٹی کتنی
باریک ہونی چاہیے؟ سٹرنگ تھیوری کے مطابق یہ حد سے زیادہ باریک چیونٹی ہوگی۔ یعنی
ہمارا اور چیونٹی کا جو فرق ہے۔ پھر ایک چیونٹی اور ایک بیکٹیریا کا جو فرق ہے اور
پھر ایک بیکٹیریا اور وائرس کا جو فرق ہے اور پھر ایک وائرس یا ایٹم کا جو فرق ہے
اور پھر ایک ایٹم یا پروٹانز کا جو فرق ہے۔ ایسا ہی فرق اسی طرح باریک سے باریک
ہوتا چلا جاتاہے۔ ایک پروٹان میں ، کوارکس نامی ذرّات ہوتے ہیں۔
سٹرنگ تھیوری کا
کہنا ہے کہ اُن کوارکس نامی ذرات کے اندر سٹرنگز ہوتی ہیں۔جو سپیس کی ٹوٹل دس
ڈائمنشنز میں حرکت کرتی ہیں۔ یہ سٹرنگز اس قدر چھوٹی ہوتی ہیں کہ ہم ان کو تصور
میں لانے کے لیے ایک مثال اس طرح قائم کرسکتے ہیں۔
فرض کریں کہ ایک
ایٹم اتنا بڑا ہوگیا ہے جتنا بڑا ہمارا نظام ِ شمسی ہے۔ تب نظامِ شمسی میں زمین
ایک سیارہ ہے اور زمین پر کوئی ایک درخت جتنا چھوٹاہوسکتاہے یہ سٹرنگز اتنی چھوٹی
ہوتی ہیں۔ یہ سٹرنگز ہروقت وائبریٹ کرتی رہتی ہیں۔ یہ دراصل انرجی کی سٹرنگز ہوتی
ہیں۔ان میں انرجی بڑھتی یا کم ہوتی رہتی ہے۔
عام زبان میں معنی
کے اعتبار سے، ایک سٹرنگ دھاگہ نما یا ریشہ نما آبجیکٹ ہوتاہے۔ ہم چاہیں تو ایک
رسّی کو بھی سٹرنگ کہہ سکتے ہیں لیکن عام طور پر باریک ریشوں کو سٹرنگز کہا
جاتاہے۔ لیکن جس قسم کی سٹرنگز کو ہم امیجن کررہےہیں ان کے لیے بہتر ہے کہ ہم عام
"ربربینڈ" کو تصور میں لائیں۔ عام ربربینڈز ہرطرح کی ہوتی ہیں۔ ایسی بھی
جو کلوز لوپ کی شکل میں ہوتی ہیں، جو پرانے دور کے سیٹھ اور بنیے نوٹوں کی گڈیوں
پر چڑھائی جاتے ہیں اور اوپن لوپ ربربینڈز بھی ہوسکتےہیں جیسے کوئی ٹوٹا ہوا ربر
بینڈ۔
سٹرنگز ہماری
کائنات بلکہ تمام کائناتوں کے بیسک بلڈنگ بلاکس ہیں ۔ان کی وائبریشن کسی میوزک کی
ٹون جیسی ہے۔جس طرح میوزک کی بے شمار نوڈز ہوتی ہیں، ایسے ہی ان سٹرنگز کی حرکت
سپیس کی دس ڈائمنشنز میں نہایت ہی عجیب و غریب ہوتی ہے۔
جاری
۔۔۔
نوٹ: مضمون پھر
لمباہوگیا۔ اس لیے ابھی اتنا ہی پوسٹ کررہاہوں۔ کل انشااللہ اس کا بقیہ حصہ پوسٹ
کرونگا۔ اگلے حصے میں ہم نے دیکھناہے کہ،
۱۔ سٹرنگ تھیوری
کا آئیڈیا کیونکر اور کیسے سائنسدانوں کے ذہن میں آیا؟
۲۔ سٹرنگز کو
تھیوری آف ایوری تھنگ کیوں کہا جاتاہے؟
۳۔ سٹرنگز میں
گریوٹان کی تلاش کیا معنی رکھتی ہے جبکہ آئن سٹائن نے گریوٹی کے بارےمیں صاف
بتادیا ہے کہ یہ سپیس ٹائم فیبرک میں مادے کی حرکت سے پیدا ہونے والی موجیں ہیں؟
۴۔ کون کون سے
سائنسدان سٹرنگزتھیوری کے بانی ہیں؟
۵۔متوازی کائناتوں
کے نظریے کو سٹرنگ تھیوری کے علاوہ کون کون سا سائنسی نظریہ سپورٹ فراہم کرتاہے؟
۶۔ سٹرنگز سے پہلے
سائنسدانوں کو ہرمہینے ایک نیا پارٹکل کیونکر نظر آجایا کرتاتھا؟
۷۔انرجی کی چار
فورسز ، سٹرانگ نیوکلئر، الیکٹرومیگانیٹک، ویک نیوکلئر اور گریوٹی کی فورس کا آپس
میں کیا تعلق ہے؟
۸۔ گریوٹانز
کیونکر ایک کائنات سے دوسری کائنات میں سفر کرجاتے ہیں۔
۹۔ گریوٹی کی اتنی
زیادہ فورس سٹرنگز تھیوری کے مطابق کہاں غائب ہوتی جارہی ہے اور کیوں؟
۱۰۔بگ بینگ سے
پہلے یا بلیک ہول کے بعد سٹرنگز ہمیں کیا کہانی سناتی ہیں؟
۱۱۔سٹرنگ تھیوری
سے ایم تھیوری کیسے بنی اور ایم تھیوری سے برین تھیوری کیسے بنی؟
۱۲۔ کوئی ایک
چھوٹی سی ممبرین (سٹرنگ کا نیا نام) توانائی بڑھ جانے کی وجہ سے پھیل کر کتنی بڑی
ہوسکتی ہے؟
۱۳۔ ایک چھوٹی سی
سٹرنگ توانائی بڑھ جانے کی وجہ سے اچانک بڑھ کر پوری کائنات جتنی بڑی کیسے ہوجاتی
ہے؟
۱۴۔ اس طرح کی
ممبرینز آپس میں ٹکراتی ہیں تو ایک سے زیادہ بگ بینگز کیسے پیدا ہوتے ہیں؟
یہ اور اس طرح کے
بہت سے سوال ابھی باقی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ اس بار مضمون خاصا لمبا ہے۔
دیکھتےہیں ، آپ احباب میں سے کس کس میں ہمّت ہے کہ آخر تک ساتھ چل سکیں۔
شکریہ
ادریس آزاد
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔