ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

سٹرنگ تھیوری سمجھنے سے پہلے کچھ تیاری (پہلی قسط)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اکیسویں صدی کائنات کی حقیقت جاننے کے حوالے سے سابقہ تمام صدیوں پر سبقت لے جانے والی ہے۔
آئن سٹائن نے جس نئے جہان کو دریافت کیا تھا وہ محض ایک کنویں کی کہانی ہے۔ جس میں ایک مینڈک رہا تھا کرتا۔ اور ایک دن ایسا ہوا کہ باہر کی دنیا کا ایک مینڈک پھُدکتا پھُدکتا غلطی سے اُس کنویں میں جاگرا۔ کنویں میں جو مینڈک موجود تھا۔ اس نے باہر سے آنے والے مینڈک سے پوچھا،
’’میاں! تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘
نووارد مینڈک نے جواب دیا،
’’دنیا سے‘‘
کنویں کے مینڈک نے نہایت حیرت کے ساتھ اُس سے پوچھا،
’’دنیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘
تب نووارد مینڈک نے اُسے بیرونی دنیا کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ اُس نے بڑی محنت کی لیکن کنویں کے مینڈک کو ذرا بھی سمجھ نہ آئی ۔ کیونکہ وہ تو پیدا ہی اُسے کنویں میں ہوا تھا اور وہیں جوان ہوکر بزرگ اور دانا مینڈک بن چکا تھا۔ میزبان مینڈک نے اپنے تئیں اِس طرح سمجھنے کی کوشش کی کہ اُس نے کنویں کی ایک دیوار سے لمبی چھلانگ لگائی اور دیوار سے دو فُٹ دور جاگر۔ تب اِس نے اِس دوفٹ کے فاصلے کے بارے میں مہمان مینڈک سے پوچھا،
’’بھائی! کیا دنیا اِتنی بڑی ہوگی؟‘‘
مہمان مینڈک نے نفی میں سرہلایا اور کہا کہ، ’’نہیں وہ اِس سے بہت زیادہ بڑی ہے‘‘۔ میزبان مینڈک نے دوبارہ دوفٹ کی چھلانگ لگائی اور پھر پوچھا۔ مہمان مینڈک کا جواب بدستور وہی تھا۔ میزبان مینڈک اِسی طرح چھلانگیں لگاتا اور پوچھتا رہا اور نووارد مینڈک ہر بار نفی میں سرہلاتا رہا۔ یہاں تک کہ میزبان مینڈک کنویں کی ایک دیوار سے دوسری دیوار تک جاپہنچا۔ تب اُس نے پوچھا، ’’دیکھو! اب تو میں نے اپنی دنیا کا تمام تر علاقہ (ڈایامیٹر) طے کرلیا ہے۔ کیا اِس سے بھی بڑی ہے تمہاری بیرونی دنیا؟‘‘ نووارد مینڈک کا جواب بدستور نفی میں دیکھ کر میزبان مینڈک غصےسے بولا،
’’یہ ہوہی نہیں سکتا۔ اِس سے بڑی دنیا کا کوئی وجود نہیں۔ تمہارا نظریہ فقط ایک نظریہ ہے اور میرے لیے ایک مفروضے سے زیادہ اِس کی کوئی اہمیت نہیں‘‘۔
آئن سٹائن سے بہت پہلے، گیلیلو کے زمانے میں ہم جس کنویں میں رہتے تھے۔ وہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں سٹرنگ تھیوری کی اپنے تئیں آسان الفاظ میں وضاحت پیش کروں۔ میں چاہتاہوں کہ انسان کے فہم ِ منطقی کے لیے ایک جہان سے دوسرے جہان کا تصور کس قدر مشکل ہوسکتاہے اس کی ایک جھلک اپنے قارئین کو دکھاؤں۔
گیلیلیو کے وقت تک ہم زمین کو پوری کائنات کا مرکز سمجھتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ سورج بھی اور پوری کائنات کے تمام ستارے سیارے بھی ہماری زمین کا طواف کرتے ہیں۔ ہمارے ایسا سوچنے کی وجہ نہایت معقول اور خالص سائنسی تھی۔ کیونکہ دن میں ہم سورج کو دیکھتے تھے کہ وہ مشرق سے نکل کر زمین کے گرد گھومتاہوا شام کو غروب ہوجاتاہے اور پھر جب رات ہوتی ہے تو لاکھوں ستارے ہماری زمین کے گرد گھومنا شروع کردیتے ہیں۔
آپ آج بھی رات میں ستاروں کو غور سے دیکھیں تو آپ کو یہی محسوس ہوگا کہ سارے ستارے زمین کے گرد گردش کررہے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ گیلیلو کے ہاتھ کسی طرح لینز (عدسہ) لگ گیا۔ عدسہ کو کون نہیں جانتا۔ یہ ایک معمولی سا شیشہ ہوتاہے، بس ذرا سا رگڑا ہوا ہوتاہے۔ ہم اپنی عینکوں میں اکثر یہی لینز استعمال کرتے ہیں اس لیے ہمارا بچہ بچہ اس سے واقف ہے۔ سب سے پہلی بار جب یہ لینز گیلیلیو نے کامیابی سے رگڑ لیا تو اسے دور کی باریک چیزیں اِس لینز کی مدد سے بڑی بڑی ہوکر نظر آنے لگیں۔
بس پھر کیا تھا۔ گیلیلیو کو مزہ آگیا۔ اُس نے ایک سے بہتر ایک دور بین بنائی اور بظاہر اُسے اپنے دَور کی جنگوں میں استعمال کرنے کے لیے بنانے لگا۔ دشمن کو آپ پہلے نظر آئیں، اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ دشمن کو اُس کے دیکھنے سے پہلے دیکھ لیں۔ یہ تھی بنیادی وجہ جب عدسوں کو عدسوں کے ساتھ جوڑ کر گیلیلیو نے دوربینیں بنانا شروع کیں۔
لیکن جلد ہی اُسے آسمان کو دیکھنے کا خیال آیا اور اِس خیال کے آتے ہی دنیا ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ ہم سب ایک جہان سے دوسرے جہان میں داخل ہوگئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد اُسے حیرت کا پہلا جھٹکا لگا۔ اگر ہم غور کریں تو ننگی آنکھ سے ہمیں رات کے وقت پانچ ستارے باقیوں سے بڑے نظر آتے ہیں۔ اور اگر ہم مزید غور کریں تو یہ پانچ ستارے باقی ستارں سے حرکت میں بھی تیز معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے باقی ستارے قدرے آہستگی سے زمین کے گرد گھوم رہے ہوں اور یہ پانچ ستارے قدرے تیزی سے۔
ان میں سے ہر ستارہ دراصل ستارہ نہیں ہے بلکہ سیارہ ہے۔ سیارے کو یونانی زبان میں پلینٹ کہتے ہیں جس کا معنیٰ ہے ’’ڈھونڈنے والا‘‘ ، ’’تلاش کرنے والا‘‘۔ مثال کے طور پر ان میں سے ایک سیارہ ’’زہرہ‘‘ جسے ہم وینس کے نام سے جانتے ہیں غروبِ آفتاب کےوقت شفق کے ساتھ ہی طلوع ہوتاہے۔ مریخ یاقوت جیسے روشن سُرخ رنگ میں چمکتاہے۔
مشتری اور زحل اپنے اردگرد کی ہرشئے کو چمکانے لگتے ہیں۔ آج ہم یہ بات جانتے ہیں کہ یہ سیارے بھی ہماری زمین کی طرح ہیں اور خود سورج کی طرح چمکتے ہوئے ستارے نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات ہم آج جانتے ہیں۔ سولہ سو نو 1609میں یہ بات گیلیلیو کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں تھی۔ گیلیلیو کے زمانے میں گیلیلیو سمیت ہرکوئی یہی سمجھتا تھا کہ یہ صرف ستارے ہیں، جو چمکتے ہیں اوررات کو زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ کیونکہ ہماری زمین ہی پوری کائنات کا مرکز ہے۔
گیلیلیو نے سب سے پہلے چاند کو دیکھا۔ اُس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام اجرام ِ فلکی حسنِ کامل کی مثال ِ کامل ہیں۔ لیکن گیلیلو نے جب چاند میں بڑے بڑے گڑھے اور وادیاں اور جغرافیاں علامتیں دیکھیں تو اُس کے ہوش اُڑ گئے۔ اس اجرام فلکی میں پہلا ایسا نجم نظر آیا جس پر زمین کی طرح کے نشانات تھے۔ وہ سوچ میں پڑگیا۔ یہ چاند جسے آسمانوں کا شہزادہ مانا جاتاہے کیا زمین کی طرح کی کوئی چیز ہے؟
ایک لمحے کو سوچیے تو! ایک شخص جو زمین کو کسی سیارے کی طرح گول نہیں سمجھتا۔ اس ایک شہادت سے اپنی زمین کو اچانک کیسے کروی (سفریکل) سوچ سکتا تھا؟ اور اب امیجن کیجیے! کہ کسی انسان کا منطقی فہم کسی ایک جہان کے تصور سے کسی دوسرے جہان کو تصور کرنے کے لیے کیسے راضی ہوسکتاہے؟
چاند پر وادیوں اور گھاٹیوں کے گہرے ثبوت دیکھنے کے باوجود بھی گیلیلو زمین کے بارے میں یہ قیاس کرنے سے قاصر تھا کہ یہ کوئی کروی شکل کا سیارہ ہوسکتی ہے۔ چاند کے بعد گیلیلیو نے مشتری (جیوپٹر) کا مشاہدہ شروع کیا۔ اور اس نے دیکھا کہ جیوپٹر رات کو اچانک پھیل جاتاہے۔ وہ حیران ہوا۔ مزید غور پر کرنے پر پتہ چلا کہ جیوپٹر نہیں پھیلتا بلکہ اس کے اطراف میں کچھ چھوٹے چھوٹے ستارے ہیں جو اس کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ اس نے کئی راتوں میں اُن ننھے ستاروں کی حرکت نوٹ کی تو معلوم ہوا کہ وہ اُس بڑے موٹے ستارے کے گرد گھوم رہے ہیں۔ دور سے سب کچھ ٹُو ڈامینشنل یعنی کسی فلم کی طرح نظر آرہا تھا۔ صرف ان کی حرکات کو نوٹ کرکرکے گیلیلو نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ضرور جیوپٹر کے گرد گھوم رہے ہیں۔
تب وہ بہت بری طرح چونکا۔ اس نے سوچا، ’’تو گویا یہ ننھے ستارے نہیں بلکہ جیوپٹر کے چاند ہیں۔ جیسے ہماری زمین کا چاند ہے؟ اور کیا جیوپٹر کوئی زمین ہے؟
میں جب یہ سوچتاہوں کہ گیلیلیو نے اس وقت کس طرح سوچا ہوگا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ میں ہوتا تو ضرور یہ سوچتا کہ میں نے دوسری دنیا دریافت کرلی ہے اور بس چند ہی دن کی بات ہے، میں وہاں کے لوگوں سے بات چیت کرنے کے قابل ہوجاؤنگا۔
گیلیلیو نے اپنی اِس دریافت کا اعلان کرنے میں دیر نہ کی اور وہ چند ہی دن میں وہ پوری دنیا کا سب سے باخبر انسان سمجھا اور مانا جانے لگا۔ گیلیلو کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ لیکن اگلا مرحلہ اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا۔ جس سے خود گیلیلیو ابھی واقف نہیں تھا۔ اگلا دھماکہ یہ تھا جب اس نے وینس یعنی زہرہ کا مشاہدہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ وینس ہمارے چاند کی طرح ہر رات تھوڑا سا شیڈ بدلتاہے۔ وہ پہلے ہلال ہوتاہے پھر آدھے چاند جیسا اور پھر پورے چاند جیسا ہوجاتاہے اور اسی طرح پھر وہ واپس چھوٹا ہونے لگتاہے۔ پہلے آدھے چاند جیسا اور پھر ہلال جیسا ہوجاتاہے۔ جیسے کسی محبوب کا اُترا ہوا ناخن۔ گیلیلیو تقریباً پاگل ہوتے ہوتے بچا۔ یہ دھچکا بہت بڑا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وینس یقیناً سورج کے گرد گردش کررہا ہے۔ تب پہلی بار زمین پر موجود کسی انسان کو پتہ چلا کہ ہم کائنات کا مرکز نہیں ہیں بلکہ ہم تو خود وینس کی طرح سورج کے گراد گرد حرکت کررہےہیں۔ یہ دھچکا جہاں گیلیلیو کے لیے علم دریافت کرنے کی سچی خوشی کا باعث تھا وہاں گیلیلیو سمیت تمام انسانوں کے لیے بے پناہ دُکھ کا باعث بھی تھا کہ وہ کائنات میں بالکل بھی مرکزی حیثیت نہیں رکھتے۔
گیلیلیو کی کہانی کو طویل کردینے کے لیے معذرت خواہ ہوں لیکن اس طرح میں یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ انسان کو ایک مخصوص قسم کا فہم ِ منطقی عطا ہوا ہے۔ وہ اشیأ کے بارے میں غو رکرتاہے تو اس کے غور کرنے کی قدرتی حدود ہیں جسے کانٹیئن مینٹل فیکلٹیز کے طور پر بھی دیکھا جاسکتاہے۔ گیلیلیو اس وقت جو کہہ رہا تھا آج ہم اس کا ٹھیک ٹھیک تصور نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اس وقت کے لوگوں کے دماغ میں اس بات کا سما جانا ہی انتہائی مشکل تھا کہ زمین پیروں کے نیچے بچھا ہوا کوئی فرش نہیں بلکہ ایک گول گول گیندہے جو بہت چھوٹی سی ہے اور آسمانوں میں تیر رہی ہے۔
پھر کیا ہوا؟ دنیا ایک نئے جہان میں داخل ہوئی۔ اب پورے نظام ِ شمسی کے بارے میں غور کیا جانے لگا۔ اور تب ایک نیا جہان ڈیولپ ہوا جو یہ تھا کہ ہمارا نظام ِ شمسی،ہمارا سُورج، ہمارے سیارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہی پوری کائنات ہیں۔ باقی تمام ستارے بھی ہمارے نظام شمسی کا ہی حصہ ہیں۔ دیکھا؟ نیا کانسیپٹ ایک قدرے بڑا کنواں تھا۔ خیر 1920 تک انسان یہ سمجھتے تھے کہ تمام معلوم کائنات صرف ایک ہی کہکشاں پر مشتمل ہے جو کہ ہماری کہکشاں ہے۔ جسے ہم ملکی وے کے نام سے جانتے ہیں۔ ہبل نے ایک بڑی دُور بین کی ایجاد کے بعد پہلی بار دنیا کو بتایا کہ ہماری کہکشاں کے علاوہ بھی بے شمار کہکشائیں ہیں۔ جو ہم سے بہت دور ہیں اور تمام کہکشائیں تیزی سے ایک دوسرے سے دور بھاگتی جارہی ہیں۔ یعنی ابھی ہمیں یہ جانے ہوئے کہ ہماری کہکشاں کے علاوہ بھی اربوں کہکشائیں ہیں پوری ایک صدی بھی نہیں گزری۔ اس پر مستزاد کائنات کے بارے میں نیوٹن کے اکتشافات تھے جو قوانین کی شکل میں ہمارا بچہ بچہ پڑھ چکا تھا اور انسانوں کی نئی نسلیں پوری طرح اُس ساخت کے بارے میں حتمی طور پر مطمئن ہوچکی تھی جو ہمیں ہمارے آباؤاجداد نے پڑھائی، سکھائی اور سمجھائی
تب آئن سٹائن نے آکر ایک اور جہان کے دروازے کھول دیے۔ آئن سٹائن نے کائنات کی نئی ساخت پیش کی۔ گریوٹی کی نئی تھیوری پیش کی۔ یوکلیڈین جیومیٹری کے بنیادی تصورات پر گہری چوٹ پڑی۔ نیوٹن کی فزکس اور مختلف مظاہر کی تعریفوں کو بدل ڈالا۔ یہاں میں ایک منٹ کا وقفہ لینا چاہتاہوں۔
(اب اگر کوئی کہے کہ سائنس تو بدلتی رہتی ہے۔ آج ایک نظریہ درست ہے تو کل وہ غلط ثابت ہوجاتاہے تو یہ کس قدر جاہلانہ بات ہوگی؟ ماضی کے تجربات اور بڑھتے ہوئے علم سے صاف نظر آرہاہے یہ انسانی منطقی فہم ہے جو زیادہ بڑی حقیقت کو ہضم کرنے کا اہل نہیں ہوتا اور اس لیے اسے کوئی چیز پہلے پہل چھوٹی اور بعد میں بڑی ہوکر نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بقول کانٹ یہ مینٹل فیکلٹیز ہیں۔ جب ہم خود پہلے ہی سے کسی باریک بات کو سمجھنے کے اہل نہیں ہوتے تو اس میں سائنس کا کیا قصور؟۔ سائنس نے ہمیشہ ایک ہی ڈائریکشن میں سفر کیا ہے اور وہ ہے پہلے سے بڑھ کر حقیقت کی تصویر کشی کرنا۔ پچھلے کمزور منطقی فہم سےبڑھ کر نئے طاقتور منطقی فہم کا حصول سائنس کا لٹرلی عمل رہا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوتاہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اِن سے بڑے حقائق آج بھی بڑے منطقی فہم کے لیے منتظر پڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ کب کوئی آئے اور کب کوئی ان کے چہرے سے پردے ہٹادے۔
سائنس کبھی غلط نہیں ہوتی اور نہ ہی خود کو بدلتی ہے۔ یہ ہم ہیں جو خود کو بدلتے ہیں۔ ہمارے آلات بدلتے ہیں تو ہمارے خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔ جوں جوں آلات اور حواس کو استعمال کرنے کی صلاحیت بڑھتی جائے گی ہمارا فہم و ادراک زیادہ باریک اور زیادہ نہ سمجھنے والی اشیأ کو سمجھنا بھی شروع کردیگا۔ مجھے ہروہ شخص تنگ نظر لگتاہے جو ’’غیب‘‘ کی بعض شکلوں کے بارے میں کسی مذہبی شدت پسند کی طرح سخت ہے اور ان کے وجود سے انکار کرتاہے۔ وہ ایسا سخت ہے کہ اشد قسوہ)
خیر! آئن سٹائن کے نظریات کو تو اب تک بھی عام انسان کا منطقی فہم سمجھنے سے قاصر ہے۔ جو سنتاہے صرف حیران ہوکر منہ تکنے لگتاہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی میں ٹائم ڈائلیشن واقع ہوتاہے، یا مکان کی لمبائیاں سُکڑنے لگتی ہیں یا اشیأ میں مادے کی مقدار بڑھنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو یہ باتیں سن کر سامعین صرف منہ تکتے ہیں۔ عام سادہ ذہن کو محنت کرکے بھی سمجھانا بے حد مشکل ہے کہ یہ سب کیا کہانی ہے؟ ابھی حال ہی میں گریوٹیشنل ویو کی دریافت پر یہ بات اور بھی کھل کر سامنے آئی کہ تیسری دنیا کا ایک عام شہری تو درکنار پہلی دنیا کے طلاب ِ علم تک کو کچھ اندازہ نہیں کہ یہ ویو فی الحقیقت کیا چیز ہے؟ ہزار میں سے نناوے آوازوں نے وہ جملہ بولا جو اُسی وقت بول دیا گیا تھا جب ایک صدی قبل یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ ایسی کوئی ویو بھی ہوسکتی ہے۔ اور وہ جملہ یہ تھا،
’’گریویٹیشنل ویو اتنی کمزورہے، اتنی کمزورہے کہ اس کے فورس ہونے کا ذکر ہی فضول ہے‘‘
لیکن یہ بات درست نہیں۔ فی الحقیقت گریوٹیشنل فورس سب سے زیادہ طاقتور فورس ہے۔لیکن یہ بات کہ گریویٹیشنل فورس سب سے کمزور ہے، ’’ قدیم فزکس‘‘ یعنی 1968 سے پہلے تک درست تھی۔ سٹرنگ تھیوری کے بعد سے یہ خیال بدل گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں یہ فورس ابھی تک سب سے کمزور فورس معلوم ہوتی ہے۔ سٹرنگ تھیوری کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ گریوٹی کی فورس کا زیادہ بڑا حصہ ہماری تھری ڈائمینشل دنیا سے نکل کر ایکسٹرا ڈائمینشنز(نچلی ڈائمینشنز) میں کُود جاتاہے۔ سٹرنگ تھیوری ، آئن سٹائن کی فزکس سے بالکل مختلف جہان ہے۔ آئن سٹائن ہماری اُنگلی پکڑ کر ہمیں کائنات کے آغاز یعنی بگ بینگ تک چھوڑ آتاہے، یا زیادہ سے زیادہ کائنات کی دوسری حد یعنی بلیک ہول تک۔
بلیک ہول کے بعد کیا ہے؟ یا بِگ بینگ سے پہلے کیا ہے؟ اس سوال کا جواب صرف سٹرنگ تھیوری کے پاس ہے۔ جس طرح ہم علم کے گزشتہ جہانوں کے متعلق اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ان کے لیے بھی اپنے اپنے وقت پر انسان کا فہم ِ منطقی تیار نہیں تھا۔ بعینہ اسی طرح سٹرنگ تھیوری کے عجائب و غرائب کے لیے بھی ابھی اچھا خاصا ذہین فطین انسانی دماغ اور اُس کا منطقی فہم تیار نہیں ہے۔ابھی تو آئن سٹائن کے جہانِ علم کا کماحقہُ ادراک باقی ہے۔ سٹرنگ تھیوری تو آئن سٹائن سے بہت آگے کی بات ہے۔
سٹرنگ تھیوری کو سمجھنے کے لیے ہم پہلے فزکس کی بنیادی فورسز کے بارے میں تھوڑا سا تعارف حاصل کرلیں تو آسانی رہیگی۔فزکس میں کُل چار قسم کی فورسز ہیں۔
۱۔ سٹرانگ نیوکلئر فورس بہت طاقتور فورس ہے۔
۲۔ الیکٹرومیگانیٹک فورس نہ زیادہ طاقتور ہے نہ زیادہ کمزور۔
۳۔ ویک نیوکلئر فورس بہت کمزور فورس ہے۔
۴۔ چوتھی اور آخری قسم گریوٹیشنل فورس کی ہے۔
جو تجربے کی رُو سے سب سے زیادہ کمزور فورس ہے۔
یہ چار بنیادی فورسز ہیں۔ ان کا تعارف کچھ اس طرح ہے۔
سٹرانگ نیوکلئر فورس وہ طاقت ہے جو کسی ایٹم کے ’’نیوکلی اس‘‘ کو ایک جگہ جوڑ کر رکھتی ہے۔ کسی بھی ایٹم کے ’’ نیوکلی اس‘‘ میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں۔یہ ذرات ایک ہی جگہ جم کر کیوں ٹِکے رہتے ہیں؟ نیوکلیس کو چھوڑ کر کسی طرف کو نکل کیوں نہیں جاتے؟ کیونکہ ان ذرات کو آپس میں باندھ کر رکھنے کے لیے توانائی کے کچھ بہت چھوٹےذرات بڑا زور لگاتے ہیں۔ اُن ذرات کا نام ہے ، ’’ گلُو آنز‘‘۔ یہ سٹرانگ نیوکلئر فورس کے پارٹکلز ہیں۔
یہاں ایسے قارئین کے لیے جو طبیعات کے باقاعدہ طالب علم نہیں ہیں، میں تھوڑی دیر رُک کر پارٹکلز کی ایک چھوٹی سی کہانی سناتاہوں۔ مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرّے کو ایٹم کہتے ہیں۔ ایٹم بنیادی طور پر تین ذرّات کا مجموعہ ہے۔
۱۔ الیکٹران
۲۔ پروٹان
۳۔ نیوٹران
یہ تینوں مادے کے ذرّات ہیں۔ مادے کے ذرات سے مراد ٹھوس ، مائع ، گیس کے ذرّات ۔ یہ وہی مادہ ہے جو ہمارے آس پاس بکھراپڑا ہے۔ جس کے ہم خود بنے ہوئے ہیں۔ جس سے کائنات کی ہرنظر آنے والی شئے بنی ہے۔ مادے کے ذرّات کی طرح ، توانائی کے ذرّات بھی ہوتے ہیں۔ آپ نے جس طرح الیکٹران ، پروٹان اور نیوٹران کا نام سنا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ نے ’’فوٹان‘‘ کا نام سناہوگا۔ فوٹان روشنی کا ذرّ ہ ہے۔ روشنی مادہ نہیں ہے۔ گویا اگر مادی ذرّات ہوتے ہیں تو غیر مادی ذرّات بھی ہوتے ہیں۔ بالفاظ ِ دگر توانائی کے بھی ذرّات ہوتے ہیں۔
خیر! تو گلوآنز بھی فوٹانز کی طرح غیر مادی ذرّات ہیں۔گلو آنز کی طاقت مادے کے چھوٹے ذرّات ، نیوٹران اور پروٹان کو نیوکلیس میں باندھ کر رکھتی ہے اور انہیں باہر نکل بھاگنے نہیں دیتی۔ اس کام کے لیے چونکہ بہت زیادہ طاقت کی ضرورت ہے، اس لیے ہم اِسی توانائی کو ’’سٹرانگ نیوکلئر فورس‘‘ کہتے ہیں۔ ایٹم بم پھاڑتے وقت اِسی توانائی کو استعمال میں لایا جاتاہے۔ اگرچہ سٹرانگ نیوکلئر فورس بہت زیادہ طاقتور ہے لیکن اس کی رینج بہت کم ہوتی ہے۔ رینج سے مراد ہے وہ علاقہ جہاں اس فورس کا اظہار ہوتاہے۔ اس کی رینج ایک عام سائز کے نیوکلیس کے ڈایا میٹر کے برابر ہوتی ہے ۔ گلوآن کے علاوہ ان کا ایک نام نیوکلیوآن بھی ہے۔
یہ تو تھی سٹرانگ نیوکلئر فورس کی بات ۔ اس کے بعد ترتیب کے ساتھ نمبر آتاہے، الیکٹرومیگانیٹک فورس کا۔ اگر آپ واپس اوپر مضمون میں جائیں اور نمبروار ترتیب دیکھیں تو میں نے دوسرے نمبر پر الیکٹرومیگانیٹک فورس کا ذکر کیاہے۔
الیکٹرومیگانیٹک فورس کے بارے میں ہم نے اوپر لکھا کہ یہ نہ تو بہت زیادہ طاقتور فورس ہے اور نہ ہی بہت زیادہ کمزور۔ الیکٹرمیگانیٹک فورس کو ہم میں سے اکثر لوگ جانتے بھی ہیں اور ہرروز اس کے مظاہرے دیکھتے بھی رہتے ہیں۔مثلاً روشنی کی شعاع، الٹراوائلٹ یا انفراریڈ شعاعیں اسی توانائی کا حصہ ہیں۔ یہ فورس ، سٹرانگ نیوکلئر فورس سے ایک سو سینتیس (137) گُنا کمزور ہے، یعنی ہم اسے سٹرانگ فورس کا ایک سو سینتیسواں حصہ شمار کرینگے۔ الیکٹرومیگانٹک فورس وہی فورس ہے جو ہم ایک مقناطیس میں دیکھتے ہیں۔ ایک مقناطیس کس طرح لوہے کی میخ (کیل) کو اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔ یہ وہی طاقت ہے، جسے بچہ بچہ جانتاہے۔ اس فورس کا نام الیکٹرومیگانیٹک اِس لیے ہے کہ اس میں بجلی اور مقناطیس دونوں کی طاقت کی بات ایک ساتھ کی جاتی ہے۔ الیکٹرومیگانٹک فورس بھی توانائی کے ذرّات کی حرکت کی وجہ سے فورس بنتی ہے۔فوٹان توانائی کے انہی ذرّات کو کہا جاتاہے جو الیکٹرومیگانٹک فورس کے ذرّات ہیں۔ یاد رہے کہ یہ مادے کے ذرّات نہیں ہیں۔ یہ صرف توانائی کے ذرّات ہیں۔
مادے کے ذرّات اور توانائی کے ذرّات کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرنے کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام ذرّات جو روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں توانائی کے ذرّات ہوتے ہیں۔ ان کا ماس (مقدار مادہ) زیرو ہوتاہے۔وہ روشنی کی رفتار سے کم رفتار پر سفر نہیں کرسکتے۔ جبکہ مادے کے دیگر ذرات جن کی مثال میں ، الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران کے نام لیے، یہ ذرّات ہمیشہ روشنی کی رفتار سے کم رفتار پر سفر کرسکتے ہیں۔ یعنی وہ ذرّات جو روشنی کی رفتار پر ہمیشہ رہیں توانائی کے ذرّات ہیں اور وہ ذرّات جو روشنی کی رفتار سے کم رفتار پر سفر کریں مادی ذرّات کہلاتے ہیں۔
خیر! تو الیکٹرومیگانٹک فورس کے ذرّات بھی توانائی کے ذرات ہیں۔ یہ چونکہ توانائی ہے اس لیے یہ ایک موج کی صورت سفر کرتی ہے۔ ہم الیکٹرومیگانٹک فورس کے مختلف موجوں کے بارے میں آل ریڈی جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر روشنی کی شعاع بھی دراصل الیکٹرومیگانٹک فورس ہی ہے۔ الیکٹرومیگانیٹک فورس کی شعاع کی سات قسمیں ہیں۔ یہ قسمیں ان کے فوٹانز کے ارتعاشات میں فرق کی وجہ سے بن جاتی ہیں۔ کاسمک ویوز، ریڈیو ویوز، الٹراوائلیٹ، وزیبل لائٹ، انفراریڈ ۔۔۔۔۔۔ یہ سب الیکٹرومیگانٹک ویو کی ہی قسمیں ہیں اور ان سب کے بنیادی ذرے کو فوٹان کہا جاتاہے۔ فوٹان چونکہ توانائی کا ذرہ ہے اس لیے ہمیشہ روشنی کی رفتار پر سفر کرتاہے اور اِس رفتار پر سفر کرنے کے لیے مجبور ہے۔ وہ اپنی رفتار کو روشنی کی رفتار سے کم نہیں کرسکتا۔ الیکٹرومیگانٹک فورس کی رینج سٹرانگ فورس کی رینج کی طرح مختصر نہیں ہے۔ الیکٹرومیگانٹک فورس کی رینج لامتناہی یعنی بہت ہی زیادہ ہے۔
تیسرے نمبر پر آتی ہے، ویک نیوکلئر فورس۔ ویک نیوکلئر فورس کی طاقت سٹرانگ نیوکلئر فورس سے دس کی طاقت مائنس چھ درجے کم ہے۔ویک نیوکلئر فورس کیا ہے؟ عام فہم بات کی جائے تو کائنات میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو خود بخود شعاعیں خارج کرتے رہتے ہیں۔ خودبخود سے مراد، یونہی پہاڑوں یا لیبارٹری میں پڑے پڑے، آپ ہی آپ ان میں سے کچھ ذرات نکلتے رہتے ہیں۔ایسے عناصر سے خود بخود چھوٹے چھوٹے مادی ذرّات نکل کرباہر آتے رہتے ہیں۔ یہ تو تھی عام فہم بات ۔ لیکن اگر ذرا سی فزکس کی زبان میں بات کی جائے تو ویک نیوکلئر فورس وہ فورس ہے جس کی مدد سے کسی ایٹم کے نیوکلیس کے اندر کوئی پروٹان خود بخود نیوٹران میں بدل جائے یا کوئی نیوٹران خود بخود پروٹان میں بدل جائے۔کسی ایٹم کو ایسا کرنے کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے جب وہ اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لیے اپنے نیوکلیس میں موجود پروٹانوں اور نیوٹرانوں کی تعدادوں کو متوازن کرنا چاہتاہے۔یہ عمل بہت آہستگی سے ہوتاہے اور کئی کئی صدیاں یا ہزاروں سال تک جاری رہتاہے۔ کاربن ڈیٹنگ اسی نیوکلئر فورس کی بدولت مقرر کی جاتی ہے۔کاربن ڈیٹنگ کی مدد سے ہم لاکھوں سال پرانے پتھروں ، ہزاروں سال پرانے فاسلز اور سینکڑوں سال پرانے مخطوطوں کی ایگزیکٹ تاریخ اوروقت حاصل کرسکتے ہیں۔یہ قوت بہت کمزور ہے۔ سٹرانگ فورس کے مقابلے میں بالکل نہ ہونے کے برابر۔ اس فورس کے ذرات بوزانز کہتے ہیں۔ یہ ایک انڈین سائنسدان کے نام پر رکھا گیا نام ہے۔
خیر! فورسز کی اقسام میں چوتھی اور آخری فورس، گریوٹیشنل فورس ہے۔
حال ہی میں گریوٹیشنل ویو کی دریافت ہوئی تو اس فورس اور اس کی کمزوری کا بہت ذکر ہوا۔ بظاہر یہ واقعی سب سے کمزور فورس ہے اور لیبارٹری میں اس کی طاقت، سٹرانگ فورس کے مقابلے میں دس کی طاقت مائنس اٹھارہ ہے، جو کہ بہت ہی کم ہے۔ ہم خود بھی تجربہ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ گریوٹی کی طاقت کتنی کم ہے۔ آپ ایک مقناطیس لیں اور زمین پر گرے ہوئے ایک کِیل (میخ) کے قریب لے جائیں۔ زمین میں گریوٹی کی طاقت ہے ۔ جبکہ آپ کے مقناطیس میں الیکٹرومیگانیٹک فورس کی طاقت ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مقناطیس اُس کِیل کو آسانی سے اُٹھالیتاہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ گریوٹی کی طاقت ، جو کہ اتنی بڑی زمین میں تھی، ایک چھوٹے سے مقناطیس سے بھی ہزاروں گناکم ہے۔ اس طرح ثابت ہوجاتاہے کہ گریوٹی بہت کمزور فورس ہے۔ گریوٹی کی فورس کے ذرّات کو سٹینڈرڈ ماڈل میں گریوٹانز کہا گیاہے، جن کا دریافت ہونا ابھی باقی ہے۔
یہ ساری باتیں سٹرنگ تھیوری سے پہلے پہلے ہمیں زیب دیتی تھیں۔ اکیسویں صدی ہمارے لیے بعض ایسی نئی جہات اپنے ہاتھوں میں لیے کھڑی ہے جیسے کوئی کسی کے استقبال میں پھولوں کے ہار نہیں بلکہ زمرّد کی مالائیں لیے کھڑا ہو۔بیسویں صدی کے اختتامی عشرہ میں ایک بہت بڑی انقلابی تھیوری نے اکیڈمکس کی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی۔ اس تھیوری کو آج ہم سٹرنگ تھیوری، ایم تھیوری اور برین تھیوری کے نام سے جانتے ہیں۔
اوپر بیان کی گئی تمام فورسز میں سے پہلی تین فورسز کا آپس میں اس طرح تعلق ہے کہ کسی ایک فورس کو کسی دوسری فورس میں تبدیل کیا جاسکتاہے۔بالفاظ ِ دگر ان فورسز کو یونفائی کرلیا گیاہے۔ یہی وہ کام تھا جس پر پاکستانی سائنسدان عبدالسلام کو نوبل پرائز ملا جو بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔ ان فورسز کے یونفائی ہوجانے کے بعد اب ہم ان فورسز کو استعمال میں لاسکتے ہیں۔ لیکن چوتھی فورس یعنی گریوٹی کی فورس ابھی تک ان پہلی تین فورسز کے ساتھ یونفائی نہیں کی جاسکی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹرنگ تھیوری
سٹرنگ تھیوری پھر ایک نیا جہان ہے۔ یہ دنیا آئن سٹائن کی دنیا سے بھی خوبصورت ہے۔ اگرچہ سٹرنگ تھیوری ابھی تک صرف کاغذوں کی حد تک ثابت کی گئی ہے اور لیبارٹری میں اسے ثابت کرنا ابھی تک ناممکن نظر آرہاہے لیکن دور حاضر کے ماہرینِ فزکس کی اکثریت کو تقریباً یقین ہے کہ ایک دن سٹرنگ تھیوری بھی ثابت ہوجائے گی۔ سٹرنگ تھیوری اِس معمے کو حل کردیتی ہے کہ گریوٹی کی فورس اس قدر زیادہ ہونے کے باوجود تجربات میں اس قدر کمزور کیوں نظر آتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ آئن سٹائن کی مساوات ہمیں، ہماری کائنات کے آخری کناروں، یعنی بگ بینگ اور بلیک ہولز تک لے جاتی ہے اور اس سے پہلے کیا تھا یا اس کے بعد کیا ہے، کی ہمیں کوئی خبر نہیں دیتی۔ سٹرنگ تھیوری ہمیں بگ بینگ سے پہلے کے جہان کی سیر کراتی ہے اور بلیک ہول سے بعد کے جہان کی بھی۔
۔
جاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
شکریہ
ادریس آزاد

From <https://www.facebook.com/groups/philosophy.of.science.urdu/permalink/1530927026951118/>

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔