ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

ارتقأ کا اگلا قدم انسان کا اخلاقی طور پر بہتر ہونا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظریۂ ارتقأ کے ماننے والوں کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ ارتقائے حیات کا اگلاقدم انسان کا اخلاقی طورپر بہترہوجاناہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ انسان کے اخلاقی طورپر بہتر ہوئے بغیر زمین کا اپنے مدار پر قائم رہنا ہی بہت مشکل نظرآتاہے۔ اور ویسے بھی ارتقائے حیات کا ہمیشہ یہ اصول رہا ہےکہ جب زندگی کے راستے میں کوئی رکاوٹ آتی ہے تو زندگی اُس کے ساتھ نبردآزما ہوجاتی ہے اور بالآخر اس سے نمٹنے کا کوئی راستہ نکال لیتی ہے۔ اسی بنا پر انواع جنم لیتی اور ایک دوسرے سے مختلف ہوتی چلی جاتی ہیں۔ سروائیول آف دہ فٹسٹ، سے بھی یہی مراد ہے کہ
ؔ جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
ارتقأ کے اُصول کو عام فہم انداز میں سمجھنے کے لیے اس مثال سے مدد لیں۔ مثلاً ایک ٹھنڈا علاقہ ہے اور وہاں بکریوں کی جو نوع شروع سے آباد ہے اس کے جسم پر گھنے بال یعنی فر ہے جو اسے سردی سے محفوظ رکھتی ہے۔ فرض کریں کچھ ہزار سال بعد وہ علاقہ کسی وجہ سے گرم ہونا شروع ہوجاتاہے۔ جوں جوں وہ علاقہ گرم ہوتاجاتاہے توں توں بکریوں کی آئندہ نسلیں اُس ماحول کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے اپنے جسم سے بال کم کرتی چلی جاتی ہیں۔ فرض کریں تین ہزار سال بعد اس علاقہ میں پائی جانے والی بکریوں کے جسم پر فر نہیں ہے لیکن یہ ہیں اُسی نسل کی اولاد، جن کے جسم پر کبھی فر تھی۔ فر والی نسل باقی نہ رہ سکی۔ لیکن اُس کی جگہ جس نسل نے لی وہ بھی زندگی کی ہی ایک نوع ہے۔
زندگی اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے سو سو ڈھنگ جانتی ہے۔ اگر جُوئے حیات کے رستے میں پہاڑ بھی آجائے تو وہ اُسے توڑنے کی بجائے سجانا شروع کردیتی ہے تاکہ وہ زندگی کو اپنی آغوش میں لے کر اُس کی پھر سے پرورش شروع کرسکے۔ ارتقائے حیات کا یہ سفر تاحال جاری ہے۔ موجودہ دور کے انسان نازک اور نفیس ہیں بنسبت ماضی کی انسانی نسلوں کے۔ ہمارے دور کا غریب شہری بھی ابراہم لنکن سے زیادہ سہولیات میں جیتاہے۔ ان سہولیات نے انسانی جسم پر سب سے زیادہ اثرات ڈالے ہیں۔ ارتقأ کا عمل وقوع پذیر ہوا ہے اور جسم میں نزاکت، نفاست کا اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ برداشت اور مصائب کو سہہ سکنے کی استعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انسان کسی گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہوجائے گا لیکن اِس سے بہت پہلے زندگی اپنے لیے زیادہ مناسب راستہ چُن لے گی۔
دور ِ حاضر میں انسان ہی نہیں، پورے کاروان ِ حیات کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے بڑی رکاوٹ، انسان کی جہالت اور غیرذمہ دارانہ رویّہ ہے۔ انسان نے اپنی نوع کی بہتات کے علاوہ اس خوبصورت سیّارے کے ساتھ جو بلات کار کیا ہے اُس کی مثال کائنات کی تاریخ میں کہیں ملنا ممکن نہیں۔ اس پر مستزاد عہد ِ حاضر کی ہوشربا ٹیکنالوجی کی بدولت انسان نے ارتقائے حیات کی تمام تر ذمہ داری بھی اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ یہ جانوروں کی نئی سے نئی انواع پیدا کرنے پر قادر ہوگیا ہے۔ ایک صدی پہلے تک مرغیوں کی جس قدر انواع زمین پر پائی جاتی تھی اب ان سے کئی گنا زیادہ نسلوں کی مرغیاں انسان کے حضور ذبح ہونے کے لیے موجود ہیں۔ انڈسٹری کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پھل پھول، فصلیں، جانور، پودے، پرندے پیدا کیے جارہے ہیں۔ ان کے وزن، پیداوار، ذائقے میں بہتری، قیمت میں کمی پر شبانہ روز بڑے بڑے سائنسدان مصروف ِ عمل ہیں۔
سو جب پودوں پرندوں کی آنے والی انواع کا خالق بھی انسان بن چکا ہے اور زمین کے بقأ یا فنا کا ضامن بھی اب فقط انسان ہی رہ گیا ہے تو پھر؟
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنی نادان فطرت کو ترک کیے بغیر وہ مقاصد حاصل کرسکے جو زندگی کے پیش ِ نظر ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں؟انسان اخلاقی طور پر ماضی سے بدرجہا بہتر ہونے کے باجود ابھی تک بے پناہ کمزور ہے۔ یہ واحد نوع ہے جو اپنی ہی نوع میں قتل کرتی ہے اور ابھی تک اپنی اس خوفناک فطرت کی تباہ کاریوں سے آگاہ نہیں ہوپائی۔ آپس کی لڑائی جتنی دیر مزید باقی ہے زندگی اور زمین کو درپیش مستقل خطرات بڑھتے چلے جائینگے۔ زمین کے انسان جس قدر جلد آپس کا فتنہ ختم کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں اسی قدر جلد زندگی کو درپیش خوفناک خطرات ٹل سکتے اور ارتقائے حیات کے لیے نئی راہیں کھل سکنے کی اُمیدیں کی جاسکتی ہیں۔
چنانچہ فی زمانہ زندگی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود انسانیت کا اخلاقی مسئلہ ہے۔ اینالوجی بتاتی ہے کہ زندگی نے ہمیشہ اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کا سامنا کیا اور کامیاب ہوئی۔ سو اِس دلیل کی بنا پر کہا جاسکتاہے کہ زندگی اس بار بھی کامیاب ہوجائے گی۔ انسان جلد یا بدیر لیکن زندگی کے مکمل خاتمہ سے پہلے آپس میں صلح کرلینگے۔ ایک ایسی سچی اور پکی صلح کہ جس کے بعد ارتقائے حیات کے کاروان کو پر لگ جائینگے اور محض ایک دو صدیوں میں ہی انسان کسی بہت ہی بلند و برتر مخلوق میں تبدیل ہوجائیگا۔

From <https://www.facebook.com/groups/philosophy.of.science.urdu/permalink/919258701451290/>

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔