ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

سولر کشتی کیا ہے؟ کیا روشنی میں بھی وزن ہوتاہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فوٹان میں مومینٹم ہوتاہے۔ مومینٹم کا کام ہے کسی بھی مادی آبجیکٹ کو تھوڑا سا دھکا مارنا۔ جب شہروں پر دھوپ پڑتی ہے تو اربوں کھربوں فوٹان مل کر شہر کو نیچے کی طرف تھوڑا سا دھکا مارتے ہیں۔ اس دھکے سے دن کے وقت شہروں کا وزن، رات کے وقت شہروں کے وزن کی نسبت بڑھ جاتاہے۔یہ بات شہروں پر موقوف نہیں۔ زمین پر ہرجگہ ایسا ہی ہوتاہے۔ ہروہ جگہ جہاں سایہ ہے اُس کا وزن کم ہوتاہے بنسبت اُس جگہ کے جہاں روشنی پڑرہی ہے۔ وہ روشنی چاہے بلب کی بھی ہو تب بھی ایک مخصوص حد تک فوٹانز اپنے مومینٹم کی وجہ سے اُس جگہ کو تھوڑا سا دھکیل رہے ہوتے ہیں۔
فوٹان کی اِسی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ خلا میں سفر کے لیے ایک نئی قسم کا سیٹلائٹ بنایا گیا ہے۔ یہ بادبانی کشتیوں اور بحری جہازوں کی تقریباً نقل سمجھ لیں۔ بادبانی کشتیوں میں یہ ہوتا ہے کہ اُن میں بڑے بڑے کپڑے لگے ہوتے ہیں، جو سمندروں میں چلنے والی ہوا کے رُخ پر اس طرح گھما دیے جاتے ہیں کہ جہاز ہوا کے دباؤ کی وجہ سے رفتار بھی پکڑتا ہے اور ہم جب چاہیں اُس کا رُخ بھی بدل سکتے ہیں۔ جدید سیٹلائیٹ کو نام بھی بادبانی کشتیوں والا دیا گیاہے۔ یہ نام ہے، ’’سولر سیل‘‘ (Solar Sail)۔ اگر آپ سولر سیل کے الفاظ گوگل میں ڈالیں تو آپ اِس نُوری کشتی کی تصویریں بھی دیکھ سکتی ہیں۔ اس سیٹلائیٹ کا اُصول یہ ہے کہ اسے خلا میں بھیجنے کے بعد اس کے بڑے بڑے پر کھُل جاتے ہیں۔ ان پَروں کو ہوبہو بادبان سمجھ لیا جائے تو ہم جان جائینگے کہ بادبان جو ہوا کے دباؤ پر چلتے تھے اب روشنی کے فوٹانز کے دباؤ پر چلینگے۔ اس سیٹلائیٹ کے بڑے بڑے پَر جو کسی خاص قسم کے فیبرک سے بنائے گئے ہیں اور مشینی انداز میں نہ صرف خود بخود کھل اور بند ہوجاتے ہیں بلکہ بوقت ضرورت سیٹلائٹ کا رُخ بھی موڑ سکتے ہیں۔
سولر سیل سے انسان کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچا ہے کہ اب ہمیں اپنے خلائی سفر کے لیے کسی ایندھن کی ضرورت نہیں۔ سورج کی بے شمار حرکی توانائی یعنی کھربوں فوٹانز کی بوچھاڑ ہمارے سولر سیل کو دھکا دینے کے لیے کافی ہے۔ پہلی سولر سیل جاپان نے دوہزار دس میں خلا میں بھیج دی تھی۔ اس کے بعد ناسا نے دوہزار گیارہ میں بھیج دی۔ اب بڑی سول سیلز یعنی بڑے بادبانی بحری جہاز بنائے جارہے ہیں۔ کل کلاں خلائی بیڑے بھی اِسی ٹیکنیک پر بنائے جانے کے بہت بڑے بڑے منصوبے زیر ِ غور ہیں۔
ان بادبانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ روشنی کے فوٹانز ان پر وقت کے ساتھ ساتھ اپنا دباؤ بڑھاتے اور پھر اسے ضرب دیتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں ایک ٹینکل سائنسی بات ہے جس سے میں سردست صرف نظر کررہاہوں کہ ایسا کیسے ہوتاہے۔لیکن بہرحال ایسا ہوتاہے فلہذا سائنسدانوں کا کہناہے کہ آج اگر ہم ایک سولر سیل خلا میں بھیجتے ہیں تو چوبیس گھنٹے بعد اس کی رفتار ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ ایک سال بعد اس کی رفتار چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگا اور تین سال بعد اس کی رفتار ایک لاکھ ساٹھ ہزار سال کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگی۔
روشنی کبھی ختم نہ ہوگی اور سولر سیل کا سفر بھی کبھی ختم نہ ہوگا۔ ہم جب چاہینگے اُسے روک بھی سکینگے اور موڑ بھی سکینگے۔ سائنسدان بہت خوش ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دور دراز کی کہکشاؤں تک مِشن بھیجے جاسکیں گے۔ ایسی سول سیل جو بہت ہی بڑے بحری بیڑے کی طرز پر سوچی جارہی ہے اُس میں پودے اُگانے اور مصنوعی گریوٹی پیدا کرنے کے لیے بہت بڑے قُطر کا پہیہ مسلسل گھماتے رہنے کا بندوبست بھی کیا جائے گا تاکہ انسان عین زمینی ماحول کے مطابق دور دراز کی کہکشاؤں کے لیے نہایت حفاظت اور آرام کے ساتھ سفر کرسکے۔
ادریس آزاد

From <https://www.facebook.com/groups/philosophy.of.science.urdu/permalink/1060147354029090/>

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔