منگل، 24 اکتوبر، 2017


سٹرنگز کیا ہیں؟
ہم جب کسی کاغذپر ایک نقطہ لگاتے ہیں تو وہ ہمیں کھلی آنکھوں سے نظر آتاہے۔ اگر ہم ایک بہت ہی باریک نقطہ لگائیں جو ہمیں کھلی آنکھوں سے نظر نہ آئے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ عینک میں لینز لگے ہوتے ہیں جو باریک اشیأ کو بڑا کرکے دکھاتے ہیں۔ اگر ہم کاغذ پر اُس سے بھی باریک نقطہ لگائیں تو ہمیں اور زیادہ موٹے شیشوں والی عینک درکار ہوگی یعنی اور زیادہ طاقتور لینز درکار ہوگا۔ فرض کریں کہ ہم باریک سے باریک نقطہ لگانے کا مقابلہ کررہے ہیں تو ہم کس قدر باریک نقطہ لگا پائینگے؟ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ آپ ایک خاص حد تک باریک نقطہ لگاسکتے ہیں۔ کیونکہ بہت زیادہ باریک حد تک پہنچ کر نقطہ پھر سے لکیر بن جاتاہے۔ ہے نا عجیب بات؟
اب لکیر چونکہ نقاط کا مجموعہ ہوتی ہے فلہذا بآسانی کہا جاسکتاہے کہ پھر تو مزید نقاط لگائے جاسکتے ہیں۔ ہاں بے شک لگائے جاسکتے ہونگے لیکن اس سطح کے باریک نقطہ لگانے کے لیے لازمی ہے کہ آپ خود اُس سطح کی چھوٹی مخلوق بن جائیں ورنہ ناممکن ہے۔ البتہ ایک صورت میں ممکن ہے۔
ریاضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاضی کی زبان دنیا کی واحد زبان ہے جس میں ہم سب کچھ لکھ سکتے ہیں۔ پلانکیَن لینتھ جس کا ذکر آگے آئے گا ایسی ہی ایک لمبائی ہے۔ جو فقط ریاضی کی زبان میں ہی لکھ جاسکتی ہے اور کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ اس قدر چھوٹی لمبائی کو حقیقی معنوں میں دیکھ سکے۔ پلانکیَن لینتھ کو حقیقی معنوں میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے ایک بہت ہی چھوٹی ، بہت ہی باریک مخلوق بن جائیں۔
آپ کے ذہن میں ابھی تک پہلا سوال گردش کررہا ہوگا کہ باریک سے باریک اور پھر اس سے بھی باریک کرنے کے بعد آخر نقطہ لکیر کیسے بن گیا؟ یہی سمجھنے اور سمجھانے کے لیے میں یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں۔ اسے ماڈرن فزکس کی زبان میں کہتے ہیں سٹرنگ تھیوری۔ سٹرنگ تھیوری
لیکن سٹرنگ تھیوری کو سمجھنے کے لیے پہلے ایک سٹرنگ کو سمجھنا ہوگا۔ سٹرنگ کیا ہے؟ میرے جیسے عام منطقی فہم کے انسان کے لیے سٹرنگ تھیوری والی "سٹرنگ" کو تصور میں لانا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے۔ کیونکہ تھیوری کے مطابق سب سے پہلے تو سٹرنگ ایک "ون ڈائمینشنل" آبجیکٹ ہے۔ کسی ون ڈائمینشنل آبجیکٹ کو تصور میں کیسے لایا جاسکتاہے؟ ہم نے ہمیشہ صرف تھری ڈائمینشنل آبجیکٹ دیکھے ہوئے ہیں۔ جن کی لمبائی،اُونچائی اور موٹائی (یا گہرائی) ہوتی ہے۔
کسی ون ڈائمینشنل آبجیکٹ کو ہم ہمیشہ کسی کاغذ یا وائیٹ بورڈ پر ایک لائن (لکیر) کی صورت ظاہر کرتےہیں۔ ہم کسی کاغذ یا وائٹ بورڈ کے بغیر کوئی خط، کوئی لکیر، کوئی لائن نہیں بناسکتے یعنی ہم ہوا میں پین کی سیاہی سے لکیر نہیں کھینچ سکتے۔ کاغذ یا وائیٹ بورڈ ۔۔۔۔۔۔خود تو تھری ڈائمینشنل آبجیکٹس ہوتے ہیں لیکن اُن کی اُوپری سطح، جہاں ڈرائینگ کی جاتی ہے ، اُسے ہم "ٹوڈائمینشنل" تسلیم کرتےہیں۔ جس میں صرف دو ڈائمینشنز یعنی لمبائی اور اُونچائی پائی جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی ون ڈائمینشنل آبجیکٹ کو دیکھنے کے لیے ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس آبجیکٹ کو پہلے ٹو ڈائمینشنل سطح پر بنانا ہوگا۔ لکیر ون ڈائمینشنل تو ہوتی ہے لیکن بنانا جو ٹو ڈائمنشنل سطح پر پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ سو اس لیے ہم اُس سٹرنگ کو جو فقط ون ڈائمینشنل ہی ہے کیسے تصور میں لائیں؟ کیا ہم یوں تصور کریں کہ وہ بھی کسی کاغذ کی سطح جیسی سطح پر بنی ہوئی لکیر ہے؟
بعض لوگ سٹرنگ کو یوں تصور میں لاتے ہیں جیسے ۔۔۔۔۔۔۔ ہوا میں اُڑتاہوا ایک کوئی دھاگہ، یا بال۔ کیونکہ دھاگہ یا بال لکیر کی طرح کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تھیوری کے مطابق بالکل غلط تصور ہے۔ وہ اس لیے کہ ہوا تھری ڈائمینشنل سپیس میں ہوتی ہے۔ کسی کمرے، کسی باغ، کسی بازار، کسی کھلی جگہ پر اُڑتا ہوا دھاگہ یا بال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تھری ڈی کا آبجیکٹ ہوتاہے۔ وہ جس خلا میں موجود ہے وہ بھی شش جہاتی یا تھری ڈائمینشنل ہے۔ اس خلا میں ہم دائیں، بائیں، اُوپر، نیچے اور آگے، پیچھے سفر کرتے ہیں۔ چنانچہ اس فضا میں اگر دھاگہ اُڑ رہا ہے تو وہ دھاگہ بھی تھری ڈی کا آبجیکٹ ہے اِس لیے اُڑ رہاہے۔ اُس دھاگے کی بھی لمبائی، اُونچائی اور تھوڑی سی موٹائی ہے۔ اس لیے ایسا دھاگہ یا بال تصور میں لانا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سٹرنگ تھیوری والی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سٹرنگ۔۔۔۔۔۔۔ کے لیے بالکل غلط ہے۔
کیونکہ سٹرنگ ون ڈائمینشنل ہے۔ ایک لکیر ون ڈائمینشنل ہوتی ہے۔ لیکن ایک لکیر تو کاغذ کی سطح پر بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر سٹرنگ ون ڈائمینشنل ہے تو وہ کس طرح کی سطح پر بنی ہوئی ہے؟
ماہرین ِ فزکس کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ون ڈائمینشنل
سٹرنگ بھی فلیٹ سطح پر حرکت کرتی ہے۔ فلیٹ سطح یعنی وہی کاغذ یا وائیٹ بورڈ کی اُوپری سطح جیسی جو صرف ٹو ڈائمینشنل ہوتی ہے۔ جس کی صرف اونچائی اور لمبائی ہوتی ہے یعنی ایکس اور وائی ایکسز۔ ماہرین ِ فزکس کہتے ہیں کہ یہ سٹرنگ بھی ایسی ہی فلیٹ سطح پر حرکت کرتی ہے۔ وہ فلیٹ سطح کس چیز کی بنی ہوئی ہے؟ کاغذ، بورڈ، چمڑا، کپڑا پلاسٹک وغیرہ کی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ماہرین ِ فزکس کہتے ہیں کہ وہ فلیٹ سطح سپیس کی فقط ایک ڈائمینشن اور ٹائم کی ایک ڈائمینشن سے مل کر بنی ہوئی ہے۔
گئے کام سے۔
میرے جیسے عام منطقی فہم انسان کے لیے یہ سٹرنگ سمجھنا خاصا دشوار کام ہے۔ یہ سٹرنگ فلیٹ سطح پر حرکت کرتی ہے اور فلیٹ سطح جن دو ڈائمینشز کی بنی ہوئی ہے ان میں ایک سپیس کی ڈائمینشن اور دوسری ٹائم کی ہے۔ جب اُن سے پوچھا جائے کہ اس کا کیا مطلب ہوا؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ سٹرنگ ایک ہی ڈائمینشن میں حرکت کرتی ہے جبکہ اُس وقت ٹائم "ٹِک ٹِک" کررہاہوتاہے۔ سوال ابھی تک وہیں موجود ہے کہ اگر سٹرنگ ایک ہی ڈائمینشن میں حرکت کرتی ہے تو اس کو Draw کون سی ٹُو ڈائمینشنل سطح پر کیا گیا ہے؟
جدید فزکس کے کچھ آئیڈیاز کو امیجن کرنا ناممکن کے قریب مشکل ہے۔ لیکن میری دانست میں سٹرنگ کو سمجھنے میں جو دشواری پیش آتی ہے وہ اِس وجہ سے ہے کہ ہم نے سٹرنگز کی صرف تصویریں دیکھ رکھی ہیں۔ ہم سٹرنگز کو کاغذ یا سکرین پرظاہر کرنے کے لیے ایک چھوٹی سے چھوٹی لائن بھی ڈرا کریں تو وہ کئی سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہے۔
سٹرنگ نہایت چھوٹی،نہایت ہی چھوٹی سی لکیر ہے۔ جو احباب پلانک کی لمبائی یعنی پلانکَین لینتھ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ میتھ میں چھوٹی سے چھوٹی لکیر لگانا بھی ممکن ہے، لیکن اُسے ہم دیکھ نہیں سکتے، اُسے ہم صرف لکھ سکتے ہیں۔ میتھ کی کسی رقم کی شکل میں۔ مثلاً پلانکین لینتھ کو عام فہم انداز میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "ایک اعشاریہ دو دو ضرب دس کی طاقت اُنیس" ۔۔۔۔۔۔۔ کی شکل میں لکھتے ہیں۔ لیکن اسے ہم آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ یہ بہت ہی چھوٹی لائن ہے۔ ابھی ایسا لینز ایجاد نہیں ہوا جو اس لائن کو دیکھ سکے اور ہوبھی نہیں سکتا۔ ہم جب کاغذ پر اِس لائن کی تصویر بناتے ہیں تو ہم ایک بڑی لائن کو دیکھ رہے ہوتے ہیں نہ کہ سٹرنگ جتنی چھوٹی لائن کو۔ ہمیں اصلی والی سٹرنگ دیکھنے کے لیے اس کی تصویر کو بڑا کرنے اور خود کو دھوکا دینے کی بجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں خود کو چھوٹا کرنا چاہیے، تاکہ اصلی والی لائن دیکھ سکیں۔ ہم بہت بڑے ہیں۔ ہمیں خود کو اتنا چھوٹا کرنا چاہیے کہ کسی چیونٹی سے بھی کروڑھا گنا چھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے؟
ایسا چشم ِ تصور میں ممکن ہے۔ ہم تصور کے ذریعے ایٹم کے اندر موجود چھوٹے ذرات کے اندر موجود اُن سٹرنگز تک جاسکتے ہیں اور انہیں دیکھ سکتے ہیں جبکہ دوسری صورت محض ریاضی کی مساواتوں والی ہے۔ تصویر والی صورت ہمارا منطقی فہم بگاڑ دیتی ہے۔
"برائن" (فزیسسٹ) کی ایک مثال پیش کرتا ہوں ۔ ہم جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں دُور بجلی کے ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک جاتی ہوئی واپڈا کی تاروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ تاریں تھوڑی سی موٹائی بھی رکھتی ہیں۔ لگ بھگ آدھ انچ۔ یہ ہم اس لیے جانتے ہیں کہ ہم پہلے سے جانتے ہیں ۔ کیونکہ ہم نے ان تاروں کو نزدیک سے بھی دیکھا ہوا ہے۔ لیکن اگر ہم خود سے سوال کریں کہ وہ ۔۔۔۔۔ دُور سے نظر آنے والی بجلی کی تاریں کیا سچ مچ موٹائی رکھتی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے تو وہ ایک تصویر میں بنی لکیروں جیسی ہیں۔ ایسی لکیریں جیسی کاغذ پر ڈالی جاتی ہیں۔ اگر ہمارے پاس دُور بین ہو اور ہم نے ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک جاتی ہوئی واپڈا کی ایک تار کو فوکس کیا ہوا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہم آہستہ آہستہ ناب گھماتے چلے جائیں تو کیا ہوگا؟
وہ تار ہمارے نزدیک آنے لگ جائیگی۔ ہم طاقت ور دور بین کی ناب بدستور گھماتے رہیں تو وہ تار ہماری آنکھوں کے اس قدر نزدیک آجائیگی کہ ہم اس کی موٹائی دیکھ سکیں گے۔ فرض کریں ہم دیکھتے ہیں کہ بجلی کی تار پر بہت سی چیونٹیاں چل رہی ہیں۔ یا کوئی اور طرح کے چھوٹے جاندار چل رہے ہیں تو ہمیں کیسا لگے گا؟ ہمیں اُن جانداروں کی دنیا بالکل پاس سے اور بالکل اصلی حالت میں نظر آرہی ہوگی۔
اسی طرح اگر ہم بہت زیادہ طاقت ور دوربین ایجاد کرلیں یا پھر خود کو بے پناہ چھوٹا کرلیں تو ہم جان سکتے ہیں کہ سٹرنگز کے جہان میں کس طرح کی ڈائمینشنز ہوتی ہیں۔ غرض چھوٹے یعنی بہت ہی چھوٹے آبجیکٹس کی سطح تک باریکی میں دیکھنے کا طریقہ ہرگز یہ نہیں کہ ہم ان کی بڑی بڑی تصویریں بنا کر اپنے منطقی فہم کو اور زیادہ گمراہ کریں بلکہ یہ ہے کہ یا تو ہم خود چھوٹے ہوجائیں یا ان کو دیکھنے کے لیے کوئی ایسا لینز ایجاد کرلیں جو پلانکَیَن سطح کی باریکیوں کو دیکھ سکے۔ ایسے لینز کی ایجاد بعض وجوھات کی بنا پر ممکن نہیں۔
چنانچہ ایک ہی صورت ہے کہ ہم خود کو نہایت باریک تصور کرتے ہوئے سٹرنگز کو محض چشم تصور سے دیکھیں۔ سٹرنگز کو دیکھنے کے لیے ہمیں خود کو کتنا چھوٹا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پہلے کسی بہت چھوٹے ذرے مثلاً فوٹان کو سادہ انداز میں تھوڑاسا سمجھ لیتے ہیں۔
دیکھیں! ہم دیوار پر پڑنے والے درخت کے سائے کو انگلی سے چھو کر دیکھیں تو وہ فی الحقیقت کوئی شئے نہیں ہوتا۔ لیکن وہ دیوار پر ایک تصویر بناتاہے۔درخت کی تصویر۔ یہ تصویر کسی پینٹ سے نہیں بنائی گئی۔ ماہرین جانتے ہیں کہ سایہ اپنے ہالوگراف کی وجہ سے تھری ڈی کا آبجیکٹ ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ہم کسی ٹارچ سے دیوار پر روشنی ڈالیں تو روشنی کا ایک ہالہ سا دیوار پر نمودار ہوگا۔ ٹارچ کے دہانے سے دیوار تک ایک ہالوگراف بنے گا۔پروجیکٹر سے نکلنے والی تیز روشنی دُور پردۂ سکرین پر پڑتی ہے تو روشنی اور سایوں کی آمیزش سے ٹو ڈائمینشنل تصاویر بناتی ہے۔پروجیکٹر سے نکلنے والی تیز روشنی دُور سکرین تک ایک ہالوگراف بناتی ہے۔ ایک دھند نما یا فوگ نما روشنی کا راستہ سا نظر آتاہے۔ اسے ہالوگراف کہتے ہیں۔یہ ہالوگراف تھری ڈی کی سپیس میں بنا ہے۔
لیکن دیوار پر روشنی سے جوتصویر وجود میں آئی ہے وہ دیکھنے میں ٹو ڈائمینشنل ہے۔ اگر ہم ٹارچ سے دیوار پر بننے والی روشنی کی تصویر کو چھو کر دیکھیں تو وہ بظاہر کوئی شئے نہیں۔ دیوار پر روشنی سے ببنے والی تصویر ہو یا سائے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کی بظاہر کوئی موٹائی نہیں ہوتی۔ اگر سایوں پر سائے یا روشنیوں پر روشنیاں ڈال دی جائیں تب بھی موٹائی پیدا نہیں ہوتی، جیسے کاغذوں پر کاغذ رکھنے سے ہوجاتی ہے۔ فرض کریں کہ ہم کسی دیوار پر فِکس سایہ ڈالتے ہیں جس کا سائز ایک فُٹ ضرب ایک فُٹ ہے۔ اب ٹھیک اسی سائز کے دس ہزار سائے ہم اُسی ایک سائے پر ڈالتے ہیں، تب بھی وہ فٹ ضرب فُٹ کا ایریا موٹا نہیں ہوجائیگا۔ ہم تب بھی جب انگلی سے چھو کر دیکھیں گے تو وہاں چھُو کر دیکھنے کے لیے کوئی آبجیکٹ نہیں ہوگا۔
ایسا اس لیے ہے کہ روشنی کی توانائی کو لے کر چلنے والے ذرات (یا امواج) جنہیں فوٹان کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری طرح تھری ڈی کے آبجیکٹس نہیں ہیں۔ جیسے یہ میز کرسی،گلاس،کتاب وغیرہ۔ یہ ایک طرح سے زیرو ڈائمینشنل نقاط ِ محض ہیں، جن کا کوئی حجم (والیم) نہیں ہوتا۔ موٹائیاں والیمز کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔جب والیم ہی نہیں تو پھر یہ ذرات یا امواج کس طرح کے ہیں؟
ایک بار تھوڑی دیر کے لیے دور باہر خلا میں چلتے ہیں۔ آپ کو کچھ دکھانا ہے تاکہ آگے جاکر سٹرنگزکو سمجھنے میں ہمیں ذرا اور آسانی پیدا ہوسکے۔ فرض کریں کہ ہم ایسٹروناٹس والے لباس میں ہیں اور دور خلا میں اُڑ رہے ہیں۔ ہمارے آس پاس ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ اگر کچھ روشن دکھائی دیتاہے تو صرف وہ پتھر اور چٹانیں ہیں جو ہمارے ارد گرد اُڑتے پھررہے ہیں۔ ساری خلا نہایت تاریک ہے۔ روشن ہیں تو صرف مادے سے بنی ہوئی چیزیں۔ ساری خلا تاریک کیوں ہے اور مادی اجسام روشن کیوں ہیں؟
ہم جانتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ روشنی خلا میں ہرجگہ سے گزر رہی ہے لیکن روشنی خود روشن چیز نہیں ہے۔ روشنی کے ہونے کا پتہ صرف اسی وقت چل سکتاہے جب اس کے راستے میں کوئی مادی آبجیکٹ آتاہے۔ فرض کریں یہ روشنی ، روشنی نہیں ہے بلکہ لکھی ہوئی تحریر ہے۔ کچھ لکھا ہوا ہے۔لیکن یہ لکھا ہوا ہم صرف اس وقت پڑھ سکتے ہیں جب ہم اس کے سامنے کاغذ لائینگے۔ تحریر خلا میں موجود ہے لیکن وہ ظاہر صرف کسی کاغذ یا سطح پر ہوگی سو جب ہم اس کے راستے میں ایک کاغذ لائینگے تو وہ روشن ہوجائیگا۔ اس پر روشنی اپنی تصویر یا تحریر ثبت کردےگی۔
ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ کسی کاغذ کی سطح پر تو صرف، ون ڈائمینشنل اور ٹو ڈائمینشنل آبجیکٹس پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ کسی کاغذ پر ایک مثلث، دائرے، مربع یا مستطیل کا بنانا۔ تو روشنی کی جو تصویر کاغذ پر بنی ہے وہ ون ڈائمینشنل لائنوں یا ٹوڈائمینشنل آبجیکٹس کی شکل میں ہی بنی ہے نا۔ یہ کیسے ہوگیا؟ روشنی تو تھری ڈی کی سپیس میں سے گزر رہی تھی اور ہرجگہ موجود تھی لیکن کہیں بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔دکھائی دی تو فقط کسی سطح کو روشن کرتے وقت۔ آپ ایک سفید فلیٹ شیٹ لے کر خلا میں چل پڑیں۔۔۔۔۔ آپ جہاں جہاں شیٹ پر نظر کرینگے روشنی اپنی ڈرائنگ اس پر چھوڑ چکی ہوگی۔ لیکن اگر آپ شیٹ ہٹائینگے تو وہاں روشنی موجود نہیں ہوگی یعنی وہاں روشنی کا وجود آپ کو نظر نہیں آئےگا۔ اس لیے کہ فوٹان تھری ڈی کا آبجیکٹ نہیں ہے۔ فوٹانز بذاتِ خود ون ڈائمینشنل لکیر یا ٹوڈائمینشنل اشکال کی صورت سفید شیٹ پر خود کو ظاہر کرینگے۔
اگر سٹرنگ تھیوری۔۔۔۔۔۔۔ کشش ِ ثقل یعنی گریویٹی کی تھیوری ہے تو پھر ہم اِسے آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹوٹی کے ساتھ جوڑ کر کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ کیونکہ جنرل تھیوری آف ریلیٹوٹی بھی گریویٹی کی تھیوری ہے۔ دونوں گریویٹی (کششِ ثقل) کی تھیوریز ہیں تو دونوں کا ایک ساتھ کیسے سمجھا جاسکتاہے؟ اوردونوں میں فرق کیا ہے؟
بات یہ ہے کہ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی میں "سپیس ٹائم جیومیٹری" کا وجود لازم ہے۔ سپیس ٹائم جیومیٹری بالکل مختلف طرز کی اور نہایت دلچسپ جیومیٹری ہے۔
کبھی غزالیؒ نے کہا تھا،
من لم یعرف الھییۃ التشریح فھو عنین فی معرفۃ اللہ تعالیٰ
جن نے علم الھییت اور تشریح کو نہیں جانا وہ معرفتِ الٰہی میں خصّی ہے۔
سپیس ٹائم کی آئن سٹائنِیَن جیومیٹری کو عام طور پر "سپیس ٹائم فیبرک" کے نام سے جانا جاتاہے۔ سپیس ٹائم فیبرک کو سمجھنے کے لیے ہم بڑے بڑے اجسام اور بہت ہی زیادہ بڑی خلا کو تصور میں لاتے ہیں۔ ہم بڑے بڑے فاصلوں، تیز رفتاروں اور وقت کی یک جہتی حرکت پر غورکرتے ہیں۔ لیکن کیا آئن سٹائن کی سپیس ٹائم جیومیٹری چھوٹے اجسام بلکہ نہایت چھوٹے اجسام کے معاملے میں بھی ویسی ہی پوری اترتی ہے جیسی کہ بڑے اجسام اور اُن کی خلا پر پوری اترتی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب ہمیں سٹرنگ تھیوری میں دیکھنا ہے۔
ادریس آزاد

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔