اس سال سیلیکون ویلی کے چند ریسرچرز نے ایک دماغ پڑھنے والی ایسی ڈیوائس بنانے کی ٹھانی ہے جس کی مدد سے لوگ صرف سوچ کر ہی ٹیکسٹ پیغامات بھیج سکیں گے۔
اپریل میں ایلون مسک نے دماغی انٹرفیس کی ایک نئی کمپنی کا اعلان کیا، جس کا نام نیورالنک (Neuralink) رکھا گیا۔ اس کے چند روز بعد فیس بک کے سی ای او مارک زوکر برگ نے کہا "ایک وقت ایسا آئے گا جب آپ دماغ کے براہ راست انٹرفیسز استعمال کرتے ہوئے صرف اپنی سوچ سے دوسروں سے رابطہ کرسکيں گے۔" ایلون مسک کی کمپنی میں 60 انجنیئر اسی خواب کو پورا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
انسانوں کے لیے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے، لیکن ایک چھوٹی سی چڑیا کے لیے یہ خواب ضرور حقیقت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اس کا سہرا ٹمتھی گینٹنر (Timothy Gentner) اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیگو کے چند طلباء کے سر جاتا ہے جنھوں نے دماغ کے لیے ایک ایسا انٹرفیس تیار کیا ہے جو زیبرا فنچ نامی چڑیا کے چہکنے سے پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ وہ کیا چہکنے والی ہے۔
bioRxiv نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ سائنسدان، جن میں ارجنٹینی چڑیاؤں کی آوازوں کے ماہر ایزیکول آرنیوڈو (Ezequiel Arneodo) شامل ہیں، بتاتے ہیں کہ وہ نیورل سرگرمی کی مدد سے چڑياؤں کی مصنوعی آوازیں ڈی کوڈ کرتے ہیں۔ یہ سسٹم نیورل سرگرمی سے پیچیدہ قدرتی مواصلتی سگنلز کے ڈی کوڈر کا پہلا پروٹوٹائپ ہے، جو انسانی خیالات کو ٹیکسٹ کی شکل میں تبدیل کرنے کی جانب پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
چڑیاؤں کا دماغ زیادہ بڑا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن وہ جو آوازیں پیدا کرتی ہیں، وہ انسانی سپیچ سے کافی ملتی جلتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ حافظے اور دماغی صلاحیتوں کی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا پسندیدہ موضوع ہیں۔ زیبرا فنچ جیسی چڑیاؤں کی چہچہاہٹ نہ صرف پیچیدہ ہوتی ہے بلکہ انسانوں کی طرح چڑیائيں بھی دوسری چڑیاؤں کو دیکھ کر ہی چہکنا سیکھتی ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ (National Institutes of Health) کے فیلو ماکوٹو فوکوشیما (Makoto Fukushima) کے مطابق، جو ماضی میں دماغی انٹرفیسز کے ذریعے بندروں کی کم پیچیدہ آوازوں کی تحقیق کرچکے ہیں، بندروں کی آواز کے مقابلے میں چڑیاؤں کی آواز کی رینج زیادہ ہے، جس کی وجہ سے یہ نتائج انسانی سپیچ میں بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔
انسانوں میں جن دماغی انٹرفیسز کی ٹیسٹنگ کی جاچکی ہے، وہ زیادہ تر کسی شخص کے تصور کردہ بازو کی حرکت کی وجہ بننے والے نیورل سگنلز کو ٹریک کرتے ہیں، جس کے بعد ان سگنلز کا فائدہ اٹھا کر کسی روبوٹ کو حرکت دی جاسکتی ہے۔ اس یا مطلب یہ ہے کہ ایسا ہیلمیٹ یا برین امپلانٹ جو آپ کی خیال بھانپ لے، جلدی سامنے نہیں آنے والے ہے۔
تاہم اس نئی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ کام مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ یو سی ایس ڈی کی ٹیم نے چڑیاؤں میں سیلیکون الیکٹروڈز نصب کرکے دماغ کے ان حصوں میں برقی چیٹر (chatter) کی پیمائش کرنے کی کوشش کی ہے، جہاں سے "سیکھے گئے گانے پیدا کرنے والے کمانڈز" شروع ہوتے ہیں۔
اس تحقیق میں نیورل نیٹورک سافٹ ویئر کا استعمال کیا گيا تھا، جو مشین لرننگ کی ایک قسم ہے۔ ریسرچرز نے پروگرام میں نیورل فائرنگ اور بدلتی ہوئی فریکوینسی سمیت چڑیاؤں کی چہچہاہٹ کو پروگرام میں ڈال کر "نیورل ٹیکنالوجی کے ذریعے گانا حاصل کرنے کی سپیکٹرم میپنگز" کے ذریعے سافٹ ویئر کو گانے کی پیشگوئی کرنے کی تربیت دی تھی۔
ان سائنسدانوں نے خیالات سے چڑیاؤں کے چہکنے کی آواز حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا ماڈل تیار کیا جو فنچز کی آواز پیدا کرے۔ انسانوں کے برعکس چڑیاؤں کے ووکل کارڈز نہیں ہوتے ہیں، بلکہ وہ اپنے حلق میں وائبریٹ کرنے والی جھلی سے ہوا گزار کر، جس کا نام سرنکس (syrinx) ہے، آواز پیدا کرتے ہیں۔
یہ سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ نیورل سرگرمی سے چڑیا کے چہکنے کی مصنوعی آوازیں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ آواز نکلنے سے 30 ملی سیکنڈ پہلے اس کی پیش گوئی کرسکتے ہیں۔
زیبرا فنچ نے جو آوازیں پیدا کی تھیں، آپ انھیں اس آڈیو کلپ میں خود سن سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ زیبرا فنچ کی آواز کوئل کی طرح نہیں، بلکہ ایک بطخ سے ملتی جلتی ہے۔
فنچ کے دماغ سے حاصل کردہ نیورل ریکارڈنگز کی پیش گوئی کے ذریعے تخلیق کردہ گانا۔
چڑیاؤں کی آوازوں پر بہت عرصے سے تحقیق کی جارہی ہے۔ نیورالنک میں چڑیاؤں پر تحقیق کرنے والے سائنسدان بہت اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ اس کے علاوہ یو سی ایس ڈی سپیچ کی وجہ بننے والے پٹھوں کی حرکت کی نشاندہی بھی آگے چل کر بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔
فیس بک امید کرتے ہیں کہ لوگ جلد ہی صرف اپنے دماغ سے سوچ کر 100 الفاظ فی منٹ کی رفتار سے ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے لگیں گے۔ "خیالات" پڑھنے کے بجائے اگر کوئی ڈیوائس پٹھوں کو بھیجے جانے والے پیغامات پڑھنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ حقیقت سے زیادہ قریب ہوگی۔
گینٹنر اور ان کی ٹیم امید کرتے ہیں کہ ان کے فنچس کے ساتھ یہ جلد ہی ممکن ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں "ہم نےایک پیچیدہ کمیونیکشن کے سگنل کے لیے دماغ اور مشین کے انٹرفیس کا مظاہرہ کیا ہے، جو انسانی سپیچ کے لیے جانوروں کا ماڈل استعمال کرتا ہے۔ ہم نے جو طریقہ کار استعمال کیا ہے، وہ بائیومیڈیکل سپیچ پراستھٹیک ڈیوائسز کی بھی بنیاد رکھ سکتا ہے۔"
ان کے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم بہت جلد اپنے دماغ سے ٹیکسٹنگ کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
تحریر: اینٹونیو ریگالاڈو
اپریل میں ایلون مسک نے دماغی انٹرفیس کی ایک نئی کمپنی کا اعلان کیا، جس کا نام نیورالنک (Neuralink) رکھا گیا۔ اس کے چند روز بعد فیس بک کے سی ای او مارک زوکر برگ نے کہا "ایک وقت ایسا آئے گا جب آپ دماغ کے براہ راست انٹرفیسز استعمال کرتے ہوئے صرف اپنی سوچ سے دوسروں سے رابطہ کرسکيں گے۔" ایلون مسک کی کمپنی میں 60 انجنیئر اسی خواب کو پورا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
انسانوں کے لیے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے، لیکن ایک چھوٹی سی چڑیا کے لیے یہ خواب ضرور حقیقت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اس کا سہرا ٹمتھی گینٹنر (Timothy Gentner) اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیگو کے چند طلباء کے سر جاتا ہے جنھوں نے دماغ کے لیے ایک ایسا انٹرفیس تیار کیا ہے جو زیبرا فنچ نامی چڑیا کے چہکنے سے پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ وہ کیا چہکنے والی ہے۔
bioRxiv نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ سائنسدان، جن میں ارجنٹینی چڑیاؤں کی آوازوں کے ماہر ایزیکول آرنیوڈو (Ezequiel Arneodo) شامل ہیں، بتاتے ہیں کہ وہ نیورل سرگرمی کی مدد سے چڑياؤں کی مصنوعی آوازیں ڈی کوڈ کرتے ہیں۔ یہ سسٹم نیورل سرگرمی سے پیچیدہ قدرتی مواصلتی سگنلز کے ڈی کوڈر کا پہلا پروٹوٹائپ ہے، جو انسانی خیالات کو ٹیکسٹ کی شکل میں تبدیل کرنے کی جانب پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
چڑیاؤں کا دماغ زیادہ بڑا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن وہ جو آوازیں پیدا کرتی ہیں، وہ انسانی سپیچ سے کافی ملتی جلتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ حافظے اور دماغی صلاحیتوں کی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا پسندیدہ موضوع ہیں۔ زیبرا فنچ جیسی چڑیاؤں کی چہچہاہٹ نہ صرف پیچیدہ ہوتی ہے بلکہ انسانوں کی طرح چڑیائيں بھی دوسری چڑیاؤں کو دیکھ کر ہی چہکنا سیکھتی ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ (National Institutes of Health) کے فیلو ماکوٹو فوکوشیما (Makoto Fukushima) کے مطابق، جو ماضی میں دماغی انٹرفیسز کے ذریعے بندروں کی کم پیچیدہ آوازوں کی تحقیق کرچکے ہیں، بندروں کی آواز کے مقابلے میں چڑیاؤں کی آواز کی رینج زیادہ ہے، جس کی وجہ سے یہ نتائج انسانی سپیچ میں بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔
انسانوں میں جن دماغی انٹرفیسز کی ٹیسٹنگ کی جاچکی ہے، وہ زیادہ تر کسی شخص کے تصور کردہ بازو کی حرکت کی وجہ بننے والے نیورل سگنلز کو ٹریک کرتے ہیں، جس کے بعد ان سگنلز کا فائدہ اٹھا کر کسی روبوٹ کو حرکت دی جاسکتی ہے۔ اس یا مطلب یہ ہے کہ ایسا ہیلمیٹ یا برین امپلانٹ جو آپ کی خیال بھانپ لے، جلدی سامنے نہیں آنے والے ہے۔
تاہم اس نئی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ کام مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ یو سی ایس ڈی کی ٹیم نے چڑیاؤں میں سیلیکون الیکٹروڈز نصب کرکے دماغ کے ان حصوں میں برقی چیٹر (chatter) کی پیمائش کرنے کی کوشش کی ہے، جہاں سے "سیکھے گئے گانے پیدا کرنے والے کمانڈز" شروع ہوتے ہیں۔
اس تحقیق میں نیورل نیٹورک سافٹ ویئر کا استعمال کیا گيا تھا، جو مشین لرننگ کی ایک قسم ہے۔ ریسرچرز نے پروگرام میں نیورل فائرنگ اور بدلتی ہوئی فریکوینسی سمیت چڑیاؤں کی چہچہاہٹ کو پروگرام میں ڈال کر "نیورل ٹیکنالوجی کے ذریعے گانا حاصل کرنے کی سپیکٹرم میپنگز" کے ذریعے سافٹ ویئر کو گانے کی پیشگوئی کرنے کی تربیت دی تھی۔
ان سائنسدانوں نے خیالات سے چڑیاؤں کے چہکنے کی آواز حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا ماڈل تیار کیا جو فنچز کی آواز پیدا کرے۔ انسانوں کے برعکس چڑیاؤں کے ووکل کارڈز نہیں ہوتے ہیں، بلکہ وہ اپنے حلق میں وائبریٹ کرنے والی جھلی سے ہوا گزار کر، جس کا نام سرنکس (syrinx) ہے، آواز پیدا کرتے ہیں۔
یہ سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ نیورل سرگرمی سے چڑیا کے چہکنے کی مصنوعی آوازیں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ آواز نکلنے سے 30 ملی سیکنڈ پہلے اس کی پیش گوئی کرسکتے ہیں۔
زیبرا فنچ نے جو آوازیں پیدا کی تھیں، آپ انھیں اس آڈیو کلپ میں خود سن سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ زیبرا فنچ کی آواز کوئل کی طرح نہیں، بلکہ ایک بطخ سے ملتی جلتی ہے۔
فنچ کے دماغ سے حاصل کردہ نیورل ریکارڈنگز کی پیش گوئی کے ذریعے تخلیق کردہ گانا۔
چڑیاؤں کی آوازوں پر بہت عرصے سے تحقیق کی جارہی ہے۔ نیورالنک میں چڑیاؤں پر تحقیق کرنے والے سائنسدان بہت اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ اس کے علاوہ یو سی ایس ڈی سپیچ کی وجہ بننے والے پٹھوں کی حرکت کی نشاندہی بھی آگے چل کر بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔
فیس بک امید کرتے ہیں کہ لوگ جلد ہی صرف اپنے دماغ سے سوچ کر 100 الفاظ فی منٹ کی رفتار سے ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے لگیں گے۔ "خیالات" پڑھنے کے بجائے اگر کوئی ڈیوائس پٹھوں کو بھیجے جانے والے پیغامات پڑھنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ حقیقت سے زیادہ قریب ہوگی۔
گینٹنر اور ان کی ٹیم امید کرتے ہیں کہ ان کے فنچس کے ساتھ یہ جلد ہی ممکن ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں "ہم نےایک پیچیدہ کمیونیکشن کے سگنل کے لیے دماغ اور مشین کے انٹرفیس کا مظاہرہ کیا ہے، جو انسانی سپیچ کے لیے جانوروں کا ماڈل استعمال کرتا ہے۔ ہم نے جو طریقہ کار استعمال کیا ہے، وہ بائیومیڈیکل سپیچ پراستھٹیک ڈیوائسز کی بھی بنیاد رکھ سکتا ہے۔"
ان کے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم بہت جلد اپنے دماغ سے ٹیکسٹنگ کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
تحریر: اینٹونیو ریگالاڈو
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔