منگل، 10 اکتوبر، 2017


ٹائم ٹریول Time Travel
اس میں کچھ شَک نہیں کہ ٹائم ٹریول کی کہانیاں آج سے نہیں بلکہ دورِ قدیم سے ہی مشہور ہیں۔ البتہ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ دورِ حاضر کے بالخصوص چند عالی دماغ اور بالعموم زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ، ٹائم ٹریول کے حوالے سے''گومَگو'' کا شکار ہیں، یعنی وہ صاف یہ بھی نہیں کہہ پاتے کہ ٹائم ٹریول ممکن نہیں اور صاف یہ بھی نہیں کہہ پاتے کہ ٹائم ٹریول ممکن ہے۔سائنس نے گزشتہ چند صدیوں میں اپنے تحقیق کے میدان سے مذہب ، اور مذہبی عقائد یا کہانیوں کو بالکل نکال باہر کیاہے لیکن ''ٹائم ٹریول'' ایک ایسی فینٹسی ہے جس سے سائنس آج تک نہ صرف یہ کہ پیچھا نہیں چھڑا سکی بلکہ اب تو مذہب سے کہیں زیادہ خود سائنس اِس فینٹسی میں خود کو مبتلا پاتی ہے۔ 
آئن سٹائن کے نظریات کے بعد سے لے کر اب تک مغرب میں بے شمار ایسے سائنسدان پیدا ہوئے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک ''ٹائم ٹریول '' کے امکان میں یقین رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ''ٹائم ٹریول'' مذہب اور سائنس، یعنی دونوں چوٹی کے(مفروضہ) مخالفین کا واحد مشترکہ موضوع ہے۔یا دوسرے الفاظ میں ''ٹائم ٹریول''مابعدالطبیعات کا واحد ایسا موضوع ''زندہ'' رہ گیا ہے جسے سائنس نے نہ صرف قبول کرلیا بلکہ اپنی تحقیق کے موضوع کے طور پر تقریباً اپنا لیا۔ 
ٹائم ٹریول کا ذکر لگ بھگ ہر مذہب کی آسمانی کتابوں میں تھوڑا بہت مل جاتاہے۔ اگرچہ یہ ذکر ٹائم ٹریول کے علم سے کچھ خاص متعلق نہیں ہوتا اور صرف واقعات اور کہانیوں کی شکل میں ملتاہے لیکن ان واقعات اور کہانیوں کی تفصیل پر غور کرنے سے ایک احساس سا ہوتاہے کہ تاریخ ِ انسانی میں موجود ٹائم ٹریول کے تمام ترواقعات میں، ایک خاص قسم کی مشابہت پائی جاتی ہے۔مثلاً تقریباً ہرواقعہ میں یا تو کسی آلے یا مشین (سواری) کا ذکر ملتاہے اور یا کسی غار، کھوہ یا ٹَنَل (Tunnel) کا ذکر ملتاہے جس سے کم ازکم یہ ثابت ہوجاتاہے قدیم ٹائم ٹریولرز بھی یا تو رفتار بڑھا کر اور یا پھر کسی خاص قسم کے دروازے یا غار (گویا وارم ہول) میں سے گزر کرمستقبل یا ماضی میں چلے جایا کرتے تھے۔لیکن مذاہب اور قدیم دور کی اِن تمام کہانیوں میں یہ نقص ہے کہ ہم انہیں اکیڈمیا کے اُصولوں کے تحت ''سائنس'' کہنے سے قاصر ہیں۔ ایسے واقعات چونکہ انفرادی ہوتے ہیں اِس لیے کارل پوپر کے فالسفکیشن کے اصول پر پورے نہیں اُترتے۔ 
اور کوئی سائنس جب کارل پوپر کے فالسفکیشن کے اُصول پر پوری نہیں اُترتی تو وہ سُوڈو سائنس کہلاتی ہے، اصل سائنس نہیں۔ کیونکہ آج تک اصل اور نقل سائنس کا فرق جاننے کے لیے جتنے بھی طریقے مقرر کیے گئے اُن میں سب سے زیادہ اکیڈمک طریقہ کارل پوپر کے فالسفکیشن کے اُصول کو ہی مانا جاتاہے۔ فالسفکیشن کا اُصول یہ ہے کہ''سائنس کا کام کسی مفروضے کی تصدیق (کنفرمیشن) نہیں بلکہ اُس کی تردید(فالسفکیشن) ہے۔ ہر وہ سائنسی مفروضہ جسے جھٹلایا جاسکے، سائنس ہے اور وہ ہرسائنسی مفروضہ جسے جھٹلایا نہ جاسکے سُوڈو سائنس ہے''۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آئن سٹائن کی تھیوری آف جنرل ریلیٹوٹی کا دعویٰ کہ سپیس ٹائم کرویچر ہے، جھٹلایا جاسکتاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ ارتھر ایڈنگٹن نے افریقہ جاکر آئن سٹائن کی تھیوری پر تجربہ کیا کیونکہ وہ اِس تجربہ کے ذریعے اِس تھیوری کو مکمل طور پر جھٹلا سکنے کا اہل تھا۔ اس کے برعکس کارل مارکس نے کہا کہ ہسٹوریکل میٹریلزم بھی ایک سائنسی حقیقت ہے۔ زمین پر جو کچھ ہوا یہ طبقاتی جدوجہد کا نتیجہ ہے اور مزدوروں کا انقلاب ناگزیر ہے۔کارل پوپر کے مطابق کارل مارکس کے مفروضے کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ ہمارے پاس اس مفروضے کی تصدیق یا تردید دونوں کے لیے کوئی سائنسی طریقہ نہیں۔ ایسا ہر نظریہ جس کی تردید کا کوئی طریقہ ایجاد نہ کیا جاسکے وہ سُوڈو سائنس ہوتاہے۔ غرض ٹائم ٹریول کے وہ تمام واقعات جن کی تردید اور تصدیق دونوں ہی ناممکن ہیں، دراصل فی الحال سُوڈو سائنس کی ڈومین میں ہی رہیں گے۔ 
یہی نہیں کہ صرف ماضی میں ہی ایسی کہانیاں جنم لیتی رہی ہیں، بلکہ فی زمانہ ایسی کہانیاں زیادہ تیزی کے ساتھ سامنے آرہی ہیں اور آئے روز ٹائم ٹریول کے شوقین ایسی کہانیوں میں اپنے پہلے سے بنے ہوئے ذہن اور شوق کو سچ ثابت کرنے کے لیے نت نئے دلائل اخذ کرتے رہتے ہیں۔یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی مذہبی شخص اپنے عقائد کی تصدیق کے لیے مختلف دلائل کا متلاشی ہو اور جہاں جو کچھ اُسے اپنے حق میں نظر آئے اُسے اپنے استدلال کا حصہ بنالے۔مذہبی شخص جب ایسا کرتا ہے تو دوسری طرف ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں ہوتا جو اس کے عقائد کو بیک وقت سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کے لیے الگ سے کوشاں ہو۔ لیکن ٹائم ٹریول ایک ایسا دلچسپ موضوع ہے کہ ایک طرف تو فلمی طرز کی کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں اور دوسری طرف اکیڈمی ایسی کہانیوں اور ان میں کیے گئے دعووں کو پرکھنے کے لیے ہرووقت تیار رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ابھی 2000 میں ہی اکیڈمک سطح کا ایک پورا ریسرچ پیپر محض اس لیے شائع ہواکہ ''روڈلف فرینٹز'' ( Rudolph Frentz) کی کہانی کی تحقیق کی جاسکے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ''کرِس آبیک'' (Chris Aubeck) کی ریسرچ نے بڑی محنت سے یہ ثابت کیا کہ ''روڈلف فرینٹز'' کی کہانی دراصل 1952 میں بننے والی ایک فلم کی کہانی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک ''لیجنڈ'' کی شکل اختیار کرگئی، یہاں تک کہ 1972 میں ''جنرل آف بارڈر لینڈ ریسرچ'' نے اِسے حقیقی کہانی سمجھ کر شائع کردیا اور یوں یہ ''لیجنڈ'' ایک فیکٹ کی شکل اختیار کرگیا ۔ 
روڈلف فرینٹز کا واقعہ یہ ہے کہ 1950 کے سال ایک دن نیویارک کی کسی سڑک پر ایک شخص اچانک نمودار ہوگیا۔وہ بے پناہ گھبرایا ہوا تھا ۔ سڑک پر بے پناہ ٹریفک تھی۔ وہ کاروں کو عجیب و غریب نظروں سےدیکھ رہا تھا اور سخت گھبرایا ہوا تھاکہ اُسے ایک گاڑی نے ٹکر ماردی اور وہ مر گیا۔ وہ نمودار ہونے کے بعد کُل ایک منٹ زندہ رہا۔ پولیس نے اس کی تلاشی لی تو اس کے پاس پرانی کرنسی برآمد ہوئی اور سب چیزوں سے پتہ چلا کہ وہ 1876 سے آیا تھا۔ ایک پولیس آفیسر نے ذاتی دلچسپی کی بنا پر اس سے متعلق تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھا۔ تب اُسے کسی اور شہر سے ''فرینٹز'' خاندان کی کوئی بزرگ خاتون ملی۔ جس نے بتایا کہ اُس کے داد یا شاید پردادا 1876 میں اچانک ایک دن غائب ہوگئے اور پھر کبھی واپس نہ لوٹے، اور یہ کہ، یہ بات اُس نے اپنے بزرگوں سے سنی ہے۔ 
کرس کی ریسرچ نے یہ ثابت کیا کہ یہ واقعہ ''من گھڑت'' ہے اور اگر کسی اکیڈمک سطح کے جرنل نے اسے شائع بھی کیا ہے تب بھی اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔''کرِس آبیک'' کی ریسرچ کا ذکر کرنے سے میرا مدعا یہ ہے کہ ٹائم ٹریول ایک ایسا موضوع ہے جس میں اکیڈمیا کی دلچسپی ختم یا کم ہونے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی ہے اور جدید دور کی فزکس نے اسے کسی حد تک اپنے مدلولات میں ایک ''ممکنہ سچائی'' کے طور پر جگہ دے دی ہے۔اس کو چھوڑ کر مذہب کی طرف سے پیش کیے گئے لگ بھگ ہرخیال کو سائنس نے نہ صرف نظرانداز کردیاہے بلکہ اب تو کبھی درخورِاعتنأ بھی نہیں سمجھا۔ 
آج بھی ایسی کہانیاں روز جنم لیتی ہیں۔ جبکہ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ سائنس کو اِن کہانیوں پر اعتبار نہ ہوتے ہوئے بھی طوعاً کرھاً ، فی زمانہ اِنہیں اپنا موضوع تسلیم کرنا پڑتاہے۔بلاشبہ ایسی کہانیوں کی بہتات میں ''ہالی وُوڈ'' کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور جو لوگ اِن کہانیوں کے راوی ہیں، اُن میں سے اکثریت ایسے اذہان کی ہے جو کسی مذہبی شخص کی طرح پہلے سے یہ مان کر بیٹھے ہیں کہ ٹائم ٹریول ہرحال میں ثابت کرکے رہناہے۔ سائنس کو یہ رویّہ پسند نہیں لیکن اس کے باوجود سائنسدان ایسی کہانیوں کو ایک بار توجہ اور دلچسپی کے ساتھ ضرور سنتے ہیں، 
مثال کے طور پر 2008 میں چین میں ملنے والی'' گھڑی'' نے آج تک آرکیالوجسٹس کو تجسس میں ڈال رکھاہے۔ جنوبی چین میں شنگھسی کے مقام پر ایک چار سو سالہ پرانے مقبرے کی کھدائی کے دوران، دھات کی ایک انگوٹھی ملی، جسے بعد میں صاف کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ سوئٹزر لینڈ کی بنائی ہوئی ، ماڈرن دور کی ایک گھڑی ہے۔گھڑی کی ننھی سوئیاں اُس پر 10 بج کر 06 منٹ کا وقت بتارہی ہیں اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ گھڑی کی دوسری طرف، ایک لفظ''سوئس'' یا ''سوئٹزرلینڈ'' انگلش سپیلنگ کے ساتھ لکھاہواہے۔اِس وقت آرکیالوجسٹس کے سامنے سوال یہ ہے کہ آخر چارسوسالہ پرانے مقبرے سے جو ''منگ ڈائنسٹی'' کا زمانہ،یعنی 1368 تا 1644 کا درمیانی عرصہ ہے، دورِ حاضر کی جدید گھڑی کیسے برآمد ہوسکتی ہے؟ 
اس سوال کے دو ہی ممکنہ جواب دیے گئے ہیں۔ 
۱۔ یہ کہ ہمارے دور کا کوئی شخص ٹائم ٹریول کے ذریعے ماضی میں گیا ہوگا اور وہاں اس سے وہ گھڑی حادثاتی طور پر گِر گئی یا رہ گئی ہوگی، یا اس نے کسی کو تحفۃً دے دی ہوگی۔ 
۲۔ دوسرا جواب یہ ہوسکتاہے کہ گزشتہ ایک سوسال میں مقبرہ کبھی نہ کبھی کھولا گیا ہوگااور گھڑی کسی طرح وہاں گِر گئی۔ 
البتہ مقبرہ کھلنے کے ثبوت بھی ویسے ہی مفقود ہیں جیسے ٹائم ٹریولر والی وضاحت کے۔
خیر! اس طرح کے کسی بھی واقعہ پر بےپناہ اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ جن کا ذکر نہ کرنا بھی مضمون کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ مثلاً اگر یہ گھڑی ہے تو پھر اس کے اندر کی مشینری کہاں ہے؟ گھڑی جتنی بھی چھوٹی ہو اور مٹی میں جس قدر بھی دب گئی ہو ، اس کے اندر مشینری موجود ہونا چاہیے تھی، چاہے آخری حدتک ہی جام کیوں نہ ہوتی۔ لیکن اِس اعتراض پر یہ اعتراض وارد ہوتاہے کہ اگر مشینری نہیں ہے تو یہ گھڑی نہ ہوگی بلکہ کوئی کھلونا سا ہوگا لیکن ایسی شکل کا کھلونا چارسوسال پہلے کسی بھی آرٹسٹ کے لیے بنانا کیونکر ممکن ہوا ہوگا جب گھڑی، اس کے بارہ ہندسوں اور سوئیوں کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ اسی طرح ایک اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ گھڑی بہت چھوٹی ہے۔ اتنی چھوٹی کہ اس کو ہاتھ کی انگلی میں، بطور انگوٹھی کے ، پہننا بھی ممکن نہیں ۔ تو کیا یہ کوئی کان میں پہننے والا زیور تھا؟ 
تو اِسی طرح ''موبرلے جورڈین اِنسِڈنٹ '' (Moberly Jourdain Incident) بھی اپنی نوعیت کا ایک مشہور واقعہ ہے جس میں دو خواتین ٹائم ٹریول کے تجربے سے گزرتی ہیں۔ چونکہ وہ دو خواتین تھیں، اس لیے اِس واقعہ کو تھوڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ دراصل ایک شخص کا سنایا ہوا کوئی واقعہ تو اکیڈمیا کے نزدیک ''توھم'' یا ''ہَلوسی نیشن'' (Hallucination) ہوسکتاہے لیکن دو اشخاص کا مطلب ہے گویا واقعہ میں کچھ نہ کچھ ''معروضی حقیقت'' بھی موجود ہے، اگرچہ اجتماعی '' ہَلوسی نیشن'' بھی نفسیات کے نزدیک ایک مظہرِ شعور ہے۔ 
سکاٹش ٹائم سلِپ کی بھی ایسی ہی شہر ت ہے، جس میں ایک پائیلٹ جہاز اُڑتے ہوئے مستقبل میں چند سال آگے چلا جاتاہے۔اور وقت سے پہلے دیکھ لیتا ہے کہ چند سال بعد پائیلٹس کی یونیفارم نیلی اور جہازوں کا رنگ پیلا ہے۔ چند ہی سال بعد، اُس پائیلٹ کے دیکھتے ہی دیکھتے، پائلٹس کی یونیفارم نیلی اور جہازوں کا رنگ پیلا ہوجاتاہے۔
مصر کےاہراموں سے شاہی خاندان کی ایک خاتون اور اُس کی ایک خادمہ کا مجسمہ ملا ہے جس کے بارے میں ''ٹائم ٹریول'' کے شوقین تبصرہ نگاروں کی یہ رائے ہے کہ مجسمہ میں موجود خاتون ''لیپ ٹاپ'' استعمال کررہی ہے۔ حالانکہ پہلی نظر میں دیکھنے پر ہی یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ خاتون غالباً آئینہ دیکھ رہی ہے۔
فلاڈلفیا ایکسپری منٹ، مون ٹاؤک پراجیکٹ اور اِسی طرح کے بے شمار مفروضے اور من گھڑت واقعات اور بھی ہیں جو ماضی کی نسبت دورِ حاضر میں کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں ، جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آج کے دور میں یہ اسرار، کہ مستقبل یا ماضی میں سفر ممکن ہے ، لگ بھگ ہرشخص کے لیے بڑی کشش رکھتاہے۔ بعض پرانے دور کی تصویروں اور ویڈیوزکو لے کر بھی بہت سی نئی کہانیاں بنائی گئی ہیں۔ جن میں چارلی چیپلن کی فلم میں ایک گزرتی ہوئی عورت کا موبائل فون پر بات کرتے ہوئے جانا، یا بعض ایسے مشہور لوگ جو اَب زندہ ہیں لیکن اُن کی تصویریں (اصلی نہ کہ فوٹوشاپڈ) ماضی میں بھی دریافت ہوئیں، وغیرہ شامل ہیں۔
یہ سب کی سب مثالیں سُوڈو سائنس کی مثالیں ہیں کیونکہ اِن دعووں کو جھٹلانے (فالسفائی کرنے)کے لیے ہمارے پاس کوئی راستہ یا طریقہ نہیں ہے۔ اس لیے اِن کی مثال محض اُن مذہبی واقعات جیسی ہے جنہیں ہم اپنے عقائد کے طور پرسنتے آئے ہیں اور بلاجرح وتنقید قبول کرنے کے لیے ہروقت تیار رہتے ہیں۔ 
غرض صدیوں بلکہ ہزاروں سال پر محیط سینکڑوں ایسے قصے کہانیاں ہیں جن میں ٹائم ٹریول کو ہی موضوع بنایا گیاہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ''ٹائم ٹریول'' اگر ہُوا بھی تو یہ ایک ایسا مظہرِ فطرت (Phenomenon) ہوگا جس پر کبھی بھی کسی بھی انسان کو ، تب تک یقین نہ آسکے گا جب تک وہ خود ٹائم ٹریول کے تجربہ سے نہ گزرلے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے بھی کوئی شخص ، کسی مشین میں سے نکل کر آجائے اور ہمیں بتائے کہ وہ ماضی یا مستقبل سے آیا تو اُس کے دعوے کو ثابت کرنے یا جھٹلانے کے لیے ہمارے پاس کوئی صورت نہ ہوگی۔ 
ہم بازاروں، گلیوں اور مارکیٹوں میں سے گزرتے ہیں تو ہم ہزاروں لوگو ں کو چلتا پھرتا دیکھتے ہیں۔ ان میں سے کون مستقبل سے آیا ہوا ہے ؟ ہم کبھی نہیں بتاسکتے۔ اگر ایک شخص سڑک پر آپ کے سامنے سے گزر گیا ہو اور وہ فی الاصل مستقبل سے آیا ہوا ہو تو آپ کےلیے سردست یہ ناممکن ہے کہ آپ اُس کے ٹائم ٹریولر ہونے کی تصدیق کردیں یا تردید۔ 
معروف سائنس دان ''کارل ساگان'' نے ایک ناول لکھا جس پر بعد میں ''ہالی وُوڈ'' نے ''دی کانٹیکٹ'' کے نام سے ایک فلم بنائی۔اس فلم میں یہی دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون ٹائم مشین میں صرف اٹھارہ سیکنڈ کے لیے داخل ہوتی ہے اور اُن اٹھارہ سیکنڈز میں وہ کسی اور دنیا میں جاکر اپنے مَرے ہوئے رشتہ داروں سے ملتی ہے، ساحل سمندر پر گھومتی ہے، ان کے ساتھ کافی وقت گزارتی ہےاور جب واپس آتی ہے اور ناسا کے بڑے بڑے سائنسدانوں کو اپنی آنکھوں دیکھا حال سناتی ہے تو کوئی اس کا یقین نہیں کرتا۔ گویا کارل ساگان جیسا بڑا فزسسٹ خود یہی حقیقت پیش کرنا چاہتاہے کہ اگر ہمارے آس پاس کوئی ٹائم ٹریولر موجود بھی ہوا تو ہمارے لیے اُس کی بات پر یقین کرنا ناممکن ہے۔مجھے ''دی مین فرام ارتھ'' کا ایک ڈائیلاگ اکثر یاد آجاتاہے۔ جب ہیرو سے سوال کیا گیا کہ کیا اُسے کبھی اپنے جیسا کوئی شخص کہیں ملا؟ تو وہ جواب دیتاہے، ''ہاں سولہویں صدی میں ملا تھا لیکن ہم دونوں دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ہم دونوں کو ہی ایک دوسرے کے دعوے پرآخر تک یقین نہ آسکا''۔ الغرض ٹائم ٹریولر کے کسی دعوے کو نہ تو رد کیا جاسکتاہے اور نہ اُس کی تصدیق ممکن ہے۔ 
امریکہ میں ایسے کئی نمونے پیدا ہوچکے ہیں جو سرعام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ٹائم ٹریولرز ہیں۔ ان میں ''بَشر'' سب سے مشہور ہے۔ یوٹیوب پر اس کی سینکڑوں ویڈیوز موجود ہیں۔ جن میں سے بعض تو بڑے بڑے سیمینارز بھی شامل ہیں۔ بڑے بڑے سیمینارز میں نہایت پڑھے لکھے لوگ اس سے مختلف سوالات کرتے ہیں اور وہ ہرایک کو ایسے مناسب جواب دیتاہے کہ سننے والا ششدر رہ جاتاہے۔ اور نہ ہی اُسے کوئی جھٹلا سکتاہے اور نہ ہی کوئی اُس کی تصدیق کرسکتاہے۔
ایک کانفرنس میں بشر سے سوال کیا گیا کہ وہ تو عام سا آدمی ہے اور یہ کہ بطور امریکی شہری سب لوگ اُسے جاتے ہیں۔ اس کا سوشل سکیورٹی نمبر وغیرہ بھی ہے اور اُس کا ایک نام مثلاً مائیکل وغیرہ بھی ہے تو پھر وہ کیسے دعویٰ کرتاہے کہ وہ کسی اور سیارے سے آیا ہے اور اُس کا سیارہ زمین سے ہزاروں سال ایڈوانس ہے۔ اس کا جواب بشر نے یہ دیا کہ''میں تو دوسرے سیارے سے ہی آیا ہوں، یہاں جو مائیکل رہتا تھا ، میں اس کے دماغ میں داخل ہوگیاہوں۔ ہم ایسا کرسکتے ہیں۔ مائیکل اب مرچکاہے ۔ اب یہ میں ہوں۔ میرا نام بشر ہے۔ یہ عربی کا لفظ ہے اور میرے نام کا مطلب ہے، ''انسان''۔ جو دوسرے سیارے سے آیا ہوا ایک بہت زیادہ ارتقأ یافتہ انسان ہوں''۔ بشر سے سوال کیا گیا کہ کیا ''اُس کے سیّارے پر موت ہے؟''۔ تو اس نے جواب دیا کہ ''نہیں! ہمارے سیارے پر موت کا کوئی تصور نہیں۔ تم زمین کے لوگ ابھی بہت پیچھے ہو۔ اس لیے مرتے ہو۔ ایک دن آئیگا جب تم لوگ موت پر فتح پالوگے''۔ بشر سے سوال کیا گیا کہ ''ہم انسان جب مرتے ہیں تو ہم کہاں چلے جاتے ہیں؟'' تو بشر نے جواب دیا کہ''تم لوگ جب مروگے تو دراصل اُس وقت تمہاری آنکھ کھل جائیگی اور تم سارا راز جان جاؤگے کہ تم پہلے کیا تھے اورپھر تم لوگوں کو اِن چلتی پھرتی قبروں یعنی جسموں میں زندہ درگور کردیا گیا۔ تم نے زندگی کے جتنے سال گزارے ایک قبر میں گزارے اور ایک دن تمہاری آنکھ کھل جائیگی۔ یہ وہی دن ہوگا جب تم مروگے''۔ 
سچ تو یہ ہے کہ یہ کائنات رازوں کا گھر ہے۔ سائنس کا مانناہے کہ اس کائنات کا کُل مادہ اور کُل توانائی اگر سوفیصد ہو تو وہ مادہ جسے ہم جانتے ہیں اور وہ توانائی جس سے ہم واقف ہیں وہ اس کا پانچ فیصد ہے۔ باقی کا پچانوے فیصد ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی پر مشتمل ہے اور یہ دونوں یعنی ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی اِسی لیے ڈارک ہیں کہ ہمیں اِن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔ جبکہ ہم اُس پانچ فیصد کے بارے میں بھی ابھی کتنا سا جانتے ہیں، جس کے بارے میں ہمارا یہ خیال ہے کہ ہم کچھ جانتے ہیں؟ بقول نیلز بوھر، ''شئے کی تعریف ممکن نہیں''۔ برکلے جیسا عظیم فلسفی پورے یقین کے ساتھ یہ مانتاہے کہ ''یہ سب کچھ جو ہمیں دکھائی دیتاہے، یہ سب حقیقت میں خواب ہے۔ ہم خواب میں بھی لمس، خوشبوئیں، رنگ اور ذائقے ویسے ہی محسوس کرتے ہیں جیسے جاگتے ہوئے کرتے ہیں، اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ اصل خوشبوئیں ، رنگ اور ذائقے ہمارے اندر ہیں اور یہ دنیا جو ہمیں حقیقی دکھائی دیتی ہے یہ بھی خالصتاً ایک خواب ہی ہے''۔ برکلے کی فکر بھی وہی ہے ، جیسا کہ غالب کا خیال تھا کہ، 
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے 
نیوٹن سے پہلے کی دنیا (مسلم دنیا کو چھوڑ کر) خالصتاً آئیڈیالسٹ ہوا کرتی تھی۔پھر سائنس کا دور شروع ہوا۔ اس کے شروع ہونے کی وجہ بھی ، زمین پر مسلمانوں کی بڑے پیمانے پرسائنسی سرگرمیاں ہی ہیں، کیونکہ قران نے آکر پہلی بار یہ اعلان کردیا تھا کہ ''خدا نے یہ کائنات کھیل تماشے کے لیے نہیں بنائی'' اور یہ کہ ''یہ کائنات باطل نہیں، بلکہ حقیقی ہے''۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے، جس پر کسی اور وقت بات ہوسکتی ہے۔سو، حقیقت پیاز کی طرح کی ہے۔ہم ایک چھلکا اُتارتے ہیں تو اندر ایک اور چھلکا ہوتاہے۔ ہم چھلکوں پر چھلکے اتارتے چلے جاتے ہیں اور اندر سے حقیقت کے نئے نئے چھلکے نمودار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 
اس لیے کارل پوپر کا فالسفکیشن کا اُصول ہو یا لاجیکل پازیٹوزسٹوں کی یہ بات کہ ''فقط وہی بات بامعنی ہے جس کا منطقی جائزہ لیا جاسکے''، غرض کوئی سا بھی حقیقت پسند ہو ، حقیقت تک رسائی پھر بھی ناممکن ہی رہیگی۔ کوئی اصول اُس وقت ناکارہ ہوجائے گا جب حقیقت کی نئی نئی پرتوں کو سمجھنے کے لیے نئے نئے منطقی فہم کی ضرورت پیش آئے گی۔ 
آج ہم ایک اور طرح کے حقیقت پسند ہیں۔ گزشتہ کل میں ہم اور طرح کے حقیقت پسند تھے۔ آج ہم بقول اقبال، ''خوگر ِپیکرِ محسوس'' ہیں اس لیے اندیکھے خدا کو نہیں مان سکتے۔ ایسے منطقی فہم کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم علمیات کی دنیا میں خود کو حواس اور عقل تک محدود کرلیتے ہیں۔ اوراس تحدید سے دیگرتمام طرزہائے فکر کے دروازے خود بخودبند ہوجاتے ہیں۔چنانچہ تشکیک جو ٹائم ٹریول جیسے مفروضوں کی چھان بین کے لیے سب سے بڑی قوت ہے، دوچار محدود آلات کو چھوڑ کر دیگر ہر طرح کی آلات کو مردود قرار دے دیتی ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ فی زمانہ اس کے کسی دعوے یا بیان کی تصدیق کے لیے بھی مخصوص بے مروت قسم کے آلات ہیں۔ ہم اس کے جھوٹ بولنے کے عمل کو معیار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے کیونکہ ہم خود مکمل طور پر جھوٹ ترک کردینے کا تصور بھی نہیں رکھتے۔ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے پاس وہ کیفیت ہو جو کبھی جھوٹ نہ بولنے والے کے پاس ہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی اس کی کیفیت کا اعتبار نہ کرینگے۔ ہم اس کی بات پر اس لیے مشکوک رہینگے کیونکہ ہم اپنی ذاتی کمزریوں کی وجہ سے کسی کامل ''سچے'' انسان کو تصور میں لانے سے قاصر ہیں۔ یہ ہے مخصوص منطقی فہم کی طرزِ فکر جسے ہم سائنسی یا منطقی طرزِ فکر بھی کہتے ہیں۔ 
اسی سائنسی طرز فکر نے اپنے مقابل موجود دیگر طرز ہائے فکر کو ملعون قرار دیتے ہوئے ان کے مختلف نام بھی رکھے ہوئے ہیں، مثلاً ہَلوسینیشنز، شیزوفرینیا، پیرانویا، آئسومنیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ طرزہائے فکر ہیں جنہیں اقبال یا برگسان ''وجدان'' کہہ کر پکارتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم کسی فرد کی واردات ِ ذاتی کو جھوٹ نہ بھی کہیں تو ہم اُسے اُس شخص کا ہَلوسی نیشن یعنی'' وہم '' قرار دینے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ جس دنیا کو اس نے دیکھا وہ ہمیں دکھائی نہیں دے رہی۔کسی کی ذاتی واردات فی الواقعہ کسی نفسیاتی بیماری کا نتیجہ ہے، عہدِ حاضر کی سائنس کو آخر اِس بات کا یقین کس بنا پرہے؟ کارل پوپر نے فرائیڈ کے شعور، تحت الشعور اور لاشعور کو بھی سُوڈو سائنس قرار دیا، محض اس لیے کہ اُس کی تھیوریز کو فالسفائی نہیں کیا جاسکتا۔عہدِ حاضر کی سائنس کو سائنس اس لیے مانا جاتاہے کہ اسے فالسفائی کیا جاسکے۔ کیا نفسیات کے میدان میں ایسا ہونا کبھی ممکن ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ مادے کی بے جان حالتوں پر فالسفکیشن کا اصول ٹھیک ٹھیک کام کرتاہے لیکن جونہی بات حیات او رپھر نفسیات کی آتی ہے تو کارل پوپر کا اُصول فیل ہوجاتاہے۔ 
ٹائم ٹریول کا دعویٰ کرنے والے سارے کے سارے لوگ جھوٹ نہ بولتے ہونگے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص سچ مچ ایسے کسی تجربہ سے گزارا ہو۔ ہوسکتاہے کہ اس کی واردات فقط اُس کا وہم نہ ہو بلکہ حقیقت ہو۔ ہوسکتاہے کہ جدید تھیوریٹکل فزکس کی جدید ترین تھیوری یعنی سٹرنگ تھیوری سچ مچ درست تھیوری ہو۔ ہوسکتاہے کہ سچ مچ بہت سی کائناتیں ہوں اور ہم ایک کائنات سے دوسری کائنات تک سفر کرسکتے ہوں۔ ہوسکتاہے کہ ''بٹرفلائی ایفکٹ'' سے ہماری کائنات سچ مچ تبدیل ہوجاتی ہو۔ ہوسکتاہے پیرالل یونیورسز سچ مچ ہوں اور ہم بٹرفلائی ایفکٹ جیسے مظاہر کی وجہ سے خود بخود دوسری کائناتوں میں چلے جاتے ہوں۔ ہوسکتاہے کہ ہم ایک زندگی میں کئی کئی بار کائناتیں ہی بدل دیتے ہوں۔ ہو سکتاہے کہ ہم اپنے فیصلوں کے وقت کائنات بدل دیتے ہوں۔ ہوسکتاہے کہ ہمارا ہر فیصلہ ہمارے لیے نئے جہان کو پیدا کردیتاہوں۔کچھ بھی ہوسکتاہے۔ سب کچھ ہوسکتاہے۔ لیکن یہ سب کچھ جدید منطقی فہم کی رُو سے ''سُوڈوسائنس'' ہےیعنی اصلی نہیں نقلی سائنس ہے۔ 
میں نے اپنی کتاب ''تصوف، سائنس اور اقبال'' میں کسی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیز ؒ کی محفل میں ایک شخص آیا جو بہت پریشان تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں جارہا تھا اور راستے میں ایک قبرستان آیا۔ قبرستان میں ایک قبر اس طرح ٹوٹی ہوئی تھی کہ اندر جھانکا جاسکتا تھا۔ اس نے اندر جھانکا۔ اندر کچھ نہیں تھا۔ اندھیرا تھا۔ لیکن جب اُس نے سر ہٹایا تو اس کے دوست بھی آس پاس موجود نہیں تھے اور ماحول بھی بدلا بدلا سالگ رہا تھا۔ اب وہ واپس دلّی آیا ہے تو یہاں بھی سب کچھ بدل چکاہے۔گلیاں اور محلے تک بدل گئے ہیں۔تب شاہ عبدالعزیز ؒ نے تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ وہ شخص ایک صدی پہلے کے دلّی کا باشندہ تھااور کسی وجہ سے وقت نے اُٹھا کر اُسے مستقبل میں پھینک دیا تھا۔ 
ایسے کسی واقعہ کو محض سنا جاسکتاہے، اس پر یقین ناممکن کی حد تک مشکل ہوتاہے۔اور وہی بات جو میں نے اوپر لکھی کہ کسی بھی ٹائم ٹریولر کے دعوے کی سچائی کو پرکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ماسوائے اس کے کہ پرکھنے والا خود ٹریول کرے۔اگر ایسا ہے تو پھر ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ٹائم ٹریول بھی کسی رُوحانی تجربے کی طرح ہمیشہ فردِ واحد کا ذاتی تجربہ کہلائے گا جسے ہمارا جی چاہے تو ہَلوسی نیشن کہہ دیں اور جی چاہے تو صاحب تجربہ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگادیں۔ 
البتہ جدید فزکس آئن سٹائن کی سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کی تصدیقات کرچکی ہے جو ایک یقینی ثبوت ہے اِس بات کا کہ ٹائم میں ٹریول بہرحال ممکن ہے۔بقول ڈاکٹر میچو کاکُو، آج سے پچاس سال کے اندر اندر سائنسدانوں کے لیے ٹائم میں ٹریول کرنا ضرور ممکن ہوجائیگا۔ 
ادریس آزاد

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔