کراچی (نیوز ڈیسک) مصنوعی زندگی کی تخلیق کے موضوع پر جاری تحقیق میں ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ امریکی ماہرین نے ایک ایسا خورد بینی جاندار تخلیق کیا ہے جس میں قدرتی اور مصنوعی ڈی این اے شامل ہے اور یہ جاندار مکمل طور پر نئے مصنوعی پروٹین تیار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈی این اے کی تحقیق کے شعبے میں ہونے والے اس بریک تھرو کے متعلق ریسرچ پیپر ''نیچر'' میگزین میں شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ریاست کیلیفورنیا کے دی اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے پروٹین ڈیزائن کرنے کے شعبے میں تاریخی پیش قدمی کی ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق محفوظ ہے اور یہ نیم مصنوعی جاندار / جرثومے لیبارٹری کے ماحول سے باہر زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ماہرین نے ڈی این اے کے ابجد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان فلوئیڈ رومز برگ نے اپنی گزشتہ تحقیق میں بتایا تھا کہ قدرتی ڈی این اے کے الفابیٹ میں اضافہ ممکن ہے، اس کے موجودہ الفابیٹ میں چار حروف ہیں: ایڈینین (اے)، سیسٹوسین (سی)، گوانین (جی) اور تھائمین (ٹی)۔ 2014ء میں رومزبرگ کی ٹیم ای کولائی (E. Coli) بیکٹیریا کے دو حصے بنا چکے ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے ڈی این اے کے دو غیر معمولی حروف ایکس اور وائی استعمال کیے تھے۔ تاہم، نئی ریسرچ میں ان کی ٹیم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ قدرتی ای کولائی بیکٹیریا نئے پروٹین بنانے کیلئے ہائبرڈ جینیاتی الفابیٹ سے ہدایات وصول کرنے صلاحیت رکھتا ہے۔ فلوئیڈ رومزبرگ کا کہنا ہے کہ اگرچہ ماہرین اسے نئی زندگی کی تخلیق قرار دے رہے ہیں لیکن میں اسے ایسا نہیں کہوں گا بلکہ یہ نئی زندگی بنانے کی جانب اتنی زیادہ پیشقدمی ہے جتنی آج تک کسی نے نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ خلیوں نے از خود ایک پروٹین میں قید ہدایت کو سمجھا ہے اور یہ ہدایات ڈی این اے کے عمومی حروف اے، سی، جی اور ٹی کے علاوہ ہیں۔
سرورق
»
»Unlabelled
» سائنسدان ڈی این اے سے مصنوعی زندگی کی تخلیق میں کامیاب
منگل، 5 دسمبر، 2017
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔