7. ڈارک میٹر کی تلاش
ڈارک میٹر (تاریک مادہ)
عہدِ حاضر کی فزکس کو درپیش سب سے بڑا چیلنج
۔
اس کائنات میں ڈارک میٹر کی مقدار کتنی ہے؟ یہ سوال تمام سوالات سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اس کا جواب تمام جوابات سے زیادہ حیران کن ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کائنات جس قدر بھی مادے اور توانائی سے مل کر بنی ہے۔ اس میں تہتر 73 فیصد ڈارک انرجی، تئیس 23 فیصد ڈارک میٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ صرف چار 4 فیصد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر آنے والا مادہ اور سمجھ میں آنے والی توانائی ہے۔ اتنی بڑی مقداررررررررررررر اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہم ابھی تک اس کو نہ دیکھ پائے، نہ چھو پائے، نہ کسی مشین نے مدد کی نہ ہی کسی قسم کا کوئی آلہ کارآمد ہوپارہا ہے۔ تو پھر یہ کیسے پتہ چلا کہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کا وجود ہے؟ اور یہ کیسے پتہ چلا کہ اُن کی مقدار اتنی زیادہ ہے؟
ہم زمین کے انسانوں کو 1920 تک معلوم نہیں تھا کہ ہماری کہکیشاں ملکی وے کے علاوہ بھی کہکشائیں ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ کل کائنات بس یہی ملکی وے کہکشاں ہی پر مشتمل ہے۔ ہبل نے ہمیں جہاں یہ بتایا کہ کائنات تیزی کے ساتھ باہر کی طرف پھیل رہی ہے وہاں اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کائنات میں اور بے شمار کہکشائیں ہیں۔ بلینز آف دی بلینز۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شروع شروع میں سائنسدانوں نے ہبل کی مخالفت بھی کی لیکن جلدہی ہبل کے نتائج تسلیم کرلیے گئے اور دریافتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بِگ بینگ اور بلیک ہولز اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ فزکس کے لیے بیسویں صدی کی پہلی دودہائیاں اور پھر ساٹھ کی دہائی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان دہائیوں میں بڑے عجیب عجیب کام ہوئے۔
خیر! تو جب یہ معلوم ہوگیا کہ دور درزا کی کہکشائیں نہایت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگتی چلی جارہی ہیں تو اس بات پر غور شروع ہوگیا کہ ان کو ایک دوسرے سے دور دھکیلنے کے لیے جس قدر توانائی کی ضرورت ہوسکتی ہے کیا وہ محض کشش ِ ثقل یعنی گریوٹی سے پوری ہوجاتی ہے؟ جواب تھا کہ نہیں۔ اس رفتار سے پھیلتی ہوئی کائنات کے لیے کشش ِ ثقل کی بہت زیادہ مقدار درکار ہے۔ اتنی زیادہ کہ ہمارے سامنے موجود کائنات کا سارا مادہ مل کر بھی اس توانائی کو حاصل نہیں کرسکتا۔ تو پھر وہ کون سی طاقت ہے جو مادے کو ایک دوسرے سے پرے دھکیل رہی ہے؟ اس سوال کا جواب آئن سٹائن نے کسی حد تک ڈرتے ڈرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت پہلے دے دیا تھا۔ یعنی آئن سٹائن کا مشہور "کاسمولوجیکل کانسٹینٹ" جسے شروع شروع میں بے بنیاد آرگومنٹ سمجھ کر رد کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کائنات کے ہردم ایکسیلیریٹڈ پھیلاؤ سے دوبارہ ماہرین ِ فزکس اور ماہرین ِ ریاضی کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اور سب اسی نتیجے پر پہنچے کہ وہ "کاسمولوجیکل کانسٹینٹ" جو آئن سٹائن نے محض فرض کیا تھا دراصل ڈارک انرجی ہے۔
پھریہ سوال کہ ایسی توانائی کو ڈارک انرجی اور ایسے مادے کو ڈارک میٹر ہی کیوں کہا جائے؟ جبکہ ان کے ہونے کا کوئی واضح ثبوت آج تک نہیں مل سکا۔ اس کا جواب نہایت آسان ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع مادے کے قریب سے گزرے تو مُڑ جاتی ہے۔ اسے کائناتی کرویچر کہا جاتاہے۔ یعنی روشنی کی شعاع جب کسی سیارے کے قریب سے گزرتی ہے تو Curve بناتی ہے۔ سائنسدانوں نے کائنات میں روشنی کی شعاعوں سے بننے والی Curvesکا مطالعہ کیا تو انہیں پتہ چلا کہ دور خلاؤں میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں روشنی کی شعاع Curve بنا رہی ہے لیکن یہ Curve وہ کسی سیارے یا ستارے کے گرد نہیں بنا رہی۔ بلکہ جہاں وہ Curve بناتی ہوئی گزر رہی ہے وہاں کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ لگتاہے کہ وہاں کوئی ایسا جسم موجود ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی Curves بنیاد پر ڈارک میٹر کے نقشے تک بنالیے گئے ہیں۔
اس طرح پتہ چلا کہ ڈارک میٹر تو ضرور موجود ہے لیکن اُس کو دیکھنا یا تلاش کرنا فی الحال ہمارے بس سے باہر ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ ہمارے بس سے باہر نہیں رہیگا۔ اس پر بہت تیزی کے ساتھ کام ہورہا ہے۔ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کے پارٹیکلز کی دریافت کی کوشش کسی گمشدہ چیز کو ڈھونڈنے جیسی بے چینی کے ساتھ جاری ہے۔خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ہرجگہ موجودہے۔ ہمارے جسموں سے کروڑوں ذرات ہر ہر وقت آر پار ہورہے ہیں لیکن ہم محسوس نہیں کرسکتے۔ ڈارک میٹر اپنی ماہیت میں ہمارے عام مادے سے کافی مختلف ہے۔ اس کے ذرات ہمارے مادے سے زیادہ بھاری ہیں، ان پر بھی اپنی دنیا کا برقی مقناطیسی چارج موجود ہے۔ لیکن ان کی سب سے نرالی بات یہ ہے کہ ہماری روشنی کی شعاع کے ساتھ ان کا کوئی ویسا انٹرایکشن بالکل موجود نہیں جیسا کہ عام مادے کے ذرات کا ہوتاہے۔ ماسوائے اس کے کہ روشنی کی شعاع ڈارک میٹر کی گریوٹی میں Curved ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کسی طرح کا تعلق روشنی کی شعاع اور ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کے ذرات کے درمیان نہیں پایا جاتا۔
میرے جیسے اناڑیوں کے لیے یہ فرق جاننا بہت ضروری ہے کہ ڈارک میٹر اور چیز ہے جبکہ اینٹی میٹر کچھ اور چیز۔ اینٹی میٹر مفروضہ نہیں بلکہ تجربہ سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ میٹر اور اینٹی میٹر آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک آئیں تو دھماکہ ہوتا اور بہت ہی اونچی مقدار میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ سائنسدانوں نے حساب لگایا ہے کہ ایک گرام اینٹی میٹر سے حاصل ہونے والی توانائی کی مدد سے ایک پورے خلائی راکٹ کو مدار سے باہر بھیجا جاسکتاہے اور ایک کار کو کرۂ زمین کے دس ہزار چکر لگوائے جاسکتے ہیں۔چنانچہ اینٹی میٹر بھی دلچسپ ہے لیکن اس پر کسی اور سٹیٹس میں تفصیل سے لکھونگا۔
ادریس آزاد
ڈارک میٹر (تاریک مادہ)
عہدِ حاضر کی فزکس کو درپیش سب سے بڑا چیلنج
۔
اس کائنات میں ڈارک میٹر کی مقدار کتنی ہے؟ یہ سوال تمام سوالات سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اس کا جواب تمام جوابات سے زیادہ حیران کن ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کائنات جس قدر بھی مادے اور توانائی سے مل کر بنی ہے۔ اس میں تہتر 73 فیصد ڈارک انرجی، تئیس 23 فیصد ڈارک میٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ صرف چار 4 فیصد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر آنے والا مادہ اور سمجھ میں آنے والی توانائی ہے۔ اتنی بڑی مقداررررررررررررر اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہم ابھی تک اس کو نہ دیکھ پائے، نہ چھو پائے، نہ کسی مشین نے مدد کی نہ ہی کسی قسم کا کوئی آلہ کارآمد ہوپارہا ہے۔ تو پھر یہ کیسے پتہ چلا کہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کا وجود ہے؟ اور یہ کیسے پتہ چلا کہ اُن کی مقدار اتنی زیادہ ہے؟
ہم زمین کے انسانوں کو 1920 تک معلوم نہیں تھا کہ ہماری کہکیشاں ملکی وے کے علاوہ بھی کہکشائیں ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ کل کائنات بس یہی ملکی وے کہکشاں ہی پر مشتمل ہے۔ ہبل نے ہمیں جہاں یہ بتایا کہ کائنات تیزی کے ساتھ باہر کی طرف پھیل رہی ہے وہاں اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کائنات میں اور بے شمار کہکشائیں ہیں۔ بلینز آف دی بلینز۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شروع شروع میں سائنسدانوں نے ہبل کی مخالفت بھی کی لیکن جلدہی ہبل کے نتائج تسلیم کرلیے گئے اور دریافتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بِگ بینگ اور بلیک ہولز اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ فزکس کے لیے بیسویں صدی کی پہلی دودہائیاں اور پھر ساٹھ کی دہائی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان دہائیوں میں بڑے عجیب عجیب کام ہوئے۔
خیر! تو جب یہ معلوم ہوگیا کہ دور درزا کی کہکشائیں نہایت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگتی چلی جارہی ہیں تو اس بات پر غور شروع ہوگیا کہ ان کو ایک دوسرے سے دور دھکیلنے کے لیے جس قدر توانائی کی ضرورت ہوسکتی ہے کیا وہ محض کشش ِ ثقل یعنی گریوٹی سے پوری ہوجاتی ہے؟ جواب تھا کہ نہیں۔ اس رفتار سے پھیلتی ہوئی کائنات کے لیے کشش ِ ثقل کی بہت زیادہ مقدار درکار ہے۔ اتنی زیادہ کہ ہمارے سامنے موجود کائنات کا سارا مادہ مل کر بھی اس توانائی کو حاصل نہیں کرسکتا۔ تو پھر وہ کون سی طاقت ہے جو مادے کو ایک دوسرے سے پرے دھکیل رہی ہے؟ اس سوال کا جواب آئن سٹائن نے کسی حد تک ڈرتے ڈرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت پہلے دے دیا تھا۔ یعنی آئن سٹائن کا مشہور "کاسمولوجیکل کانسٹینٹ" جسے شروع شروع میں بے بنیاد آرگومنٹ سمجھ کر رد کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کائنات کے ہردم ایکسیلیریٹڈ پھیلاؤ سے دوبارہ ماہرین ِ فزکس اور ماہرین ِ ریاضی کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اور سب اسی نتیجے پر پہنچے کہ وہ "کاسمولوجیکل کانسٹینٹ" جو آئن سٹائن نے محض فرض کیا تھا دراصل ڈارک انرجی ہے۔
پھریہ سوال کہ ایسی توانائی کو ڈارک انرجی اور ایسے مادے کو ڈارک میٹر ہی کیوں کہا جائے؟ جبکہ ان کے ہونے کا کوئی واضح ثبوت آج تک نہیں مل سکا۔ اس کا جواب نہایت آسان ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع مادے کے قریب سے گزرے تو مُڑ جاتی ہے۔ اسے کائناتی کرویچر کہا جاتاہے۔ یعنی روشنی کی شعاع جب کسی سیارے کے قریب سے گزرتی ہے تو Curve بناتی ہے۔ سائنسدانوں نے کائنات میں روشنی کی شعاعوں سے بننے والی Curvesکا مطالعہ کیا تو انہیں پتہ چلا کہ دور خلاؤں میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں روشنی کی شعاع Curve بنا رہی ہے لیکن یہ Curve وہ کسی سیارے یا ستارے کے گرد نہیں بنا رہی۔ بلکہ جہاں وہ Curve بناتی ہوئی گزر رہی ہے وہاں کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ لگتاہے کہ وہاں کوئی ایسا جسم موجود ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی Curves بنیاد پر ڈارک میٹر کے نقشے تک بنالیے گئے ہیں۔
اس طرح پتہ چلا کہ ڈارک میٹر تو ضرور موجود ہے لیکن اُس کو دیکھنا یا تلاش کرنا فی الحال ہمارے بس سے باہر ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ ہمارے بس سے باہر نہیں رہیگا۔ اس پر بہت تیزی کے ساتھ کام ہورہا ہے۔ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کے پارٹیکلز کی دریافت کی کوشش کسی گمشدہ چیز کو ڈھونڈنے جیسی بے چینی کے ساتھ جاری ہے۔خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ہرجگہ موجودہے۔ ہمارے جسموں سے کروڑوں ذرات ہر ہر وقت آر پار ہورہے ہیں لیکن ہم محسوس نہیں کرسکتے۔ ڈارک میٹر اپنی ماہیت میں ہمارے عام مادے سے کافی مختلف ہے۔ اس کے ذرات ہمارے مادے سے زیادہ بھاری ہیں، ان پر بھی اپنی دنیا کا برقی مقناطیسی چارج موجود ہے۔ لیکن ان کی سب سے نرالی بات یہ ہے کہ ہماری روشنی کی شعاع کے ساتھ ان کا کوئی ویسا انٹرایکشن بالکل موجود نہیں جیسا کہ عام مادے کے ذرات کا ہوتاہے۔ ماسوائے اس کے کہ روشنی کی شعاع ڈارک میٹر کی گریوٹی میں Curved ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کسی طرح کا تعلق روشنی کی شعاع اور ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کے ذرات کے درمیان نہیں پایا جاتا۔
میرے جیسے اناڑیوں کے لیے یہ فرق جاننا بہت ضروری ہے کہ ڈارک میٹر اور چیز ہے جبکہ اینٹی میٹر کچھ اور چیز۔ اینٹی میٹر مفروضہ نہیں بلکہ تجربہ سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ میٹر اور اینٹی میٹر آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک آئیں تو دھماکہ ہوتا اور بہت ہی اونچی مقدار میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ سائنسدانوں نے حساب لگایا ہے کہ ایک گرام اینٹی میٹر سے حاصل ہونے والی توانائی کی مدد سے ایک پورے خلائی راکٹ کو مدار سے باہر بھیجا جاسکتاہے اور ایک کار کو کرۂ زمین کے دس ہزار چکر لگوائے جاسکتے ہیں۔چنانچہ اینٹی میٹر بھی دلچسپ ہے لیکن اس پر کسی اور سٹیٹس میں تفصیل سے لکھونگا۔
ادریس آزاد
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔