ہفتہ، 21 اکتوبر، 2017

10:10 PM


کائنات تو دور کی بات۔ صرف نظام شمسی میں زمین کی حیثیت کیا ہے؟
وائجر 1 اسپیس کرافٹ جس کو نظام شمسی کے تمام سیاروں کی معلومات کے لئے ڈزائن کیا گیا تھا جس کو زمین سے 5 ستمبر 1977 خلا میں چھوڑیا گیا 13 سال کے طویل سفر کرنے کے بعد 14 فروری 1990 میں جب یہ خلائی جہاز نیپچون سیارے کے قریب سے گذرا تو کارل سیگان نے یہ مشورہ دیا کے اس کے کیمرے زمین کی طرف موڑے جائیں اور چھ بلین کلومیٹر کے فاصلے سے زمین کی ایک آخری تصویر نکالی جائے۔ جب اس کے کیمروں سے زمین کی تصویر نکالی گئی تو بہت حیرت ناک منظر تھا مدرجہ ذیل وہ تصویر ہے جسے دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے اتنے وسیع نظام شمسی میں زمین کی کیا حیثیت ہے۔ اب ذرہ سوچیں اس کہکشان میں زمین کی حیثیت کیا ہوگی اور پوری کائنات میں کیا ہوسکتی ہے۔
اور کارل سیگان نے اس تصویر پہ ایک کتاب پیل بلیو ڈاٹ ( the pale blue dot) لکھی تھی
اس کتاب سے کچھ لائنز آپ کی نظر
اس فاصلاتی زاویہ نگاہ سے دیکھنے پر زمین شاید کوئی خاص دلچسپ نہ لگے ،لیکن ہمارے لئے معاملہ کچھ اور ہے۔ ذرا اِس نکتے پر دوبارہ توجہ دیں۔ یہ یہاں ہے، یہ ہمارا گھر ہے، یہ ہم ہیں۔ اس کے اوپر، تمہارےتمام محبوب ، تمہارےتمام شناسا ،اور وہ تمام لوگ جن کا تم نےکبھی نے سنا ،تاریخِ انسانی کے ہر اک شخص نے یہیں اپنی زندگی گزاری۔ ہماری خوشیوں اور غموں کا مجموعہ، ہزاروں پراعتماد مذاہب، نظریات اور اصولِ اقتصادیات، تاریخ ِ بنی نوع انسانی کا ہر شکاری اور کسان، ہربہادر اور بزدل، ہر تہذیب کا خالق اور اسے فناء کرنے والا، ہر بادشاہ اور فقیر، محبت میں گرفتارہر جواں جوڑا، ہر ماں اور باپ، ہر پُرامید بچہ، ہر موجد اور محقق، اخلاقیات کا ہر مبلغ، ہر بددیانت سیاست دان، ہر سپر اسٹار، ہر رہبر ِاعلیٰ، ہر صوفی اور گناہ گار یہیں رہاکرتاتھا، تیغِ آفتاب میں معلق دھول کے ایک ذرے پر۔
یہ زمین اس وسیع کائنات میں ایک بہت چھوٹا سا اسٹیج ہے، ذرا خون کے ان دریاؤں کے بارے سوچئے میں جو جرنیلوں اور شہنشاہوں نے بہائے، صرف اس لئےکہ وہ پرشکوہ فتح حاصل کرکے اس نکتے کی ایک کسر کے لمحاتی آقا بن سکیں۔ذرا ان لامتناہی مظالم کاتصورکیجئے جو اس پکسل کے ایک کونے کے باشندوں نے ایک الگ شناخت رکھنے والےکسی دوسرے کونے کے باشندوں پرڈھائے۔انکی غلط فہمیاں کس قدر مستقل ہیں، ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے یہ کس قدربے چین ہیں، انکی اس باہمی نفرت میں کس قدر حرارت ہے۔
پھیکی روشنی کا یہ دھبہ ہماری خودنمائی ، ہماری تصوراتی خود اہمیتی اور اس خوش فہمی کہ ہمیں کائنات میں ایک مراعات یافتہ مقام حاصل ہے،کو ایک چیلنج ہے۔ ہمارا سیارہ کائنات کو گھیرے ہوئے عظیم اندھیرے میں ایک اکیلا ذرہ ہے ۔ ہماری اس گمنامی میں، اس تمام تر وسعت میں ، کوئی اشارہ ایسا نہیں کہ ہمارے لئے کہیں اور سے کوئی مدد آئے گی جو ہمیں ہم ہی سے بچالے۔اب تک زمین ہی ایک ایسا معلوم سیارہ ہے کہ جس پر زندگی موجود ہے، اور ایسی کوئی اور جگہ کم از کم مستقبل قریب میں نہیں جہاں بنی نوع انسان ہجرت کرسکے۔ دورہ ؟ہاں ضرور، رہائش؟ ابھی نہیں۔ پسند کریں یا نہ کریں لیکن فی الوقت ہم زمین ہی کے محتاج ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ علمِ فلکیات ایک منسکر اور کردار ساز تجربہ ہوتاہے، شاید ہماری چھوٹی سی دنیا کی اس فاصلاتی تصویر کے سواکوئی اور منظر ایسا نہ ہو جو انسانی گھمنڈ کو احمقانہ ثابت کرے۔ میری رائے میں {یہ تصویر} ہماری اس ذمہ داری پر زور دیتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں اور محبت اور حفاظت کریں اس پھیکے نیلگوں نکتے کی، ساری کائنات میں وہ واحد جگہ جسے ہم گھر کہتے ہیں۔
کارل سیگن { ۱۹۳۴ تا ۱۹۹۶ }
امریکی ماہرِعلم فلکیات ،فلکیاتی طبعیات اور مصنف۔
{تصویر: زمین کی یہ تصویر ۱۹۹۰ میں خلائی جہاز وائیجر ۔ون سےچھ بلین کلومیڑ کے ریکارڈ فاصلے سے لی گئی }

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔