ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں
ہر جاندار کے جسم میں کئی نظام ہیں جو گھڑی کی طرح وقت کا حساب رکھتے ہیں – ان میں سے ایک نظام کو circadian rhythm کہا جاتا ہے جو دن اور رات میں تمیز کرتا ہے – جیسے جیسے سورج کی روشنی کم ہوتی ہے اور رات آنے لگتی ہے تو یہ نظام جسم کو نیند کے لیئے تیار کرتا ہے – آنکھیں بوجھل ہونے لگتی ہیں، جسم تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اور توجہ دینے کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے – جب انسان سونے لگتا ہے تو سب سے پہلے آنکھیں بند ہوتی ہیں – اسکی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہے کہ سوتے وقت جسم کے تمام پٹھے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں سوائے آنکھوں کے پٹھوں کے – اسی وجہ سے گہری نیند ( جسمیں انسان خواب دیکھتا ہے) کے دوران آنکھیں حرکت کرتی رہتی ہیں اور اسی لئے اس نیند کو Rapid Eye Movement (REM) Sleep کہا جاتا ہے – اس نیند کے دوران دماغ آنکھوں کے پٹھوں کے علاوہ جسم کے تمام پٹھوں کے ماوف کر دیتا ہے تاکہ خواب کے دوران ذہن پر جو کچھ گزرتی ہے جسم اس پر عمل نہ کرنے پائے – اسے سلیپ پیریلیسز sleep paralysis کہا جاتا ہے – یہ سلیپ پیریلیسز نہ صرف انسانوں میں بلکہ تمام جانوروں میں بھی اسی طرح سے ہوتا ہے اور جانور بھی ریم سلیپ سے گزرتے ہیں - جن لوگوں میں کسی وجہ سے سلیپ پیریلیسزصحیح طریقے سے کام نہ کرے انہیں نیند میں چلنے کا عارضہ ہوتا ہے
نیند کے دوران دماغ کے وہ حصے (مثلاً pre-frontal cortex) جن کے ذمہ منطقی سوچ اور تسلسل کا بیان ہوتی ہے کمزور پڑ جاتے ہیں تاہم دماغ کے باقی حصے اور خاص طور پر وہ حصے جن کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے یعنی لمبک سسٹم limbic system کام کرتے رہتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ اکثر خواب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں اور ان میں کوئی تسلسل نہیں ہوتا – اس حالت میں دماغ پر جو کیفیات گزرتی ہیں ان میں سے زیادہ تر صبح ہونے تک بھول جاتی ہیں اس لیے کہ نیند کے دوران یادداشت کا سیسٹم یعنی میموری سبسیسٹم کام کم کر دیتا ہے - تاہم شدید جذباتی خواب دیر تک یاد رہتے ھیں شاید اس لیے کہ ان کا لمبک سسٹم پر اثر دیر تک رہتا ہے – اسکے علاوہ صبح سویرے کے خواب بھی یاد رہ جاتے ہیں – جاگنے کی بعد بھی دماغ کو پوری طرح کام شروع کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے جس کے دوران خواب کچھ کچھ یاد رہتے ہیں لیکن کچھ منٹ بعد ہی بیشتر خواب بھول جاتے ہیں – اسی لئے ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ خواب یاد رکھنا چاھتے ہیں تو جاگنے کے فوراً بعد ہی خواب کو لکھ لینا چاہئے
خواب میں عام طور پر وہ چیزیں آتی ہیں جو یا تو آپ دن میں سوچ رہے ہوتے ہیں یا وہ جو کسی گہری جذباتی وابستگی کے سبب آپ کے تحت الشعور میں بسی ہوئی ہیں - لہٰذا خواب عام طور پر دونوں کا ملغوبہ ہوتے ہیں جن کا اکثر کوئی سرپیر نہیں ہوتا - اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ نیند کے دوران دماغ عارضی یادوں کو (جو دن بھر میں اکٹھا ہوئی تھیں) کھنگالتا ہے اور ان میں جن یادوں نے گہرا اثر چھوڑا ہو یا جن کی وجہ سے پرانی یادیں تازہ ہوئی ہوں انہیں مستقل یادوں میں تبدیل کرتا ہے - غالباً یہی وجہ ہے کہ خواب میں تازہ اور پرانی یادوں کی بےہنگم آمیزش ہوتی ہے -
رہا یہ سوال کہ کچھ خواب سچے کیوں ہوتے ہیں تو اس کا سیدھا سادہ جواب ہے confirmation bias - انسان اپنی زندگی کا تقریباً ایک تہائی حصہ سو کر گزارتا ہے اور اس سونے کے وقت میں سے قریباً بیس فیصد حصہ خواب دیکھنے میں گزرتا ہے - اگر ایک آدمی سو سال زندہ رہتا ہے تو اس کی عمر کے سات سال خواب دیکھتے گزرتے ہیں - کیا کوئی شخص دیانت داری سے کہ سکتا ہے کہ یہ تمام خواب سچ ہیں جبکہ 99 فیصد خواب انسان کو فوراً بھول جاتے ہیں - ہوتا صرف یہ ہے کہ اگر کوئی خواب اتفاقاً سچا ہوجائے تو یہ واقعہ جذبات پر اس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ بہت دیر تک یاد رہتا ہے جبکہ جو خواب سچے نہ ہوں وہ بھول جاتے ہیں کیونکہ ان پر ہم توجہ نہیں دیتے - کون ہے جس نے اپنے پیاروں کو خواب میں کسی مصیبت میں نہیں دیکھا؟ زیادہ تر ایسے خواب سچ نہیں ہوتے اور ہم جاگ کر شکر کرتے ہیں کہ یہ محض ایک خواب تھا - ان موقعوں پر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پیاروں پر بلا آئی تھی جو کسی نیکی کی وجہ سے ٹل گئی - یہ confirmation bias نہیں تو اور کیا ہے؟
ہر جاندار کے جسم میں کئی نظام ہیں جو گھڑی کی طرح وقت کا حساب رکھتے ہیں – ان میں سے ایک نظام کو circadian rhythm کہا جاتا ہے جو دن اور رات میں تمیز کرتا ہے – جیسے جیسے سورج کی روشنی کم ہوتی ہے اور رات آنے لگتی ہے تو یہ نظام جسم کو نیند کے لیئے تیار کرتا ہے – آنکھیں بوجھل ہونے لگتی ہیں، جسم تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اور توجہ دینے کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے – جب انسان سونے لگتا ہے تو سب سے پہلے آنکھیں بند ہوتی ہیں – اسکی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہے کہ سوتے وقت جسم کے تمام پٹھے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں سوائے آنکھوں کے پٹھوں کے – اسی وجہ سے گہری نیند ( جسمیں انسان خواب دیکھتا ہے) کے دوران آنکھیں حرکت کرتی رہتی ہیں اور اسی لئے اس نیند کو Rapid Eye Movement (REM) Sleep کہا جاتا ہے – اس نیند کے دوران دماغ آنکھوں کے پٹھوں کے علاوہ جسم کے تمام پٹھوں کے ماوف کر دیتا ہے تاکہ خواب کے دوران ذہن پر جو کچھ گزرتی ہے جسم اس پر عمل نہ کرنے پائے – اسے سلیپ پیریلیسز sleep paralysis کہا جاتا ہے – یہ سلیپ پیریلیسز نہ صرف انسانوں میں بلکہ تمام جانوروں میں بھی اسی طرح سے ہوتا ہے اور جانور بھی ریم سلیپ سے گزرتے ہیں - جن لوگوں میں کسی وجہ سے سلیپ پیریلیسزصحیح طریقے سے کام نہ کرے انہیں نیند میں چلنے کا عارضہ ہوتا ہے
نیند کے دوران دماغ کے وہ حصے (مثلاً pre-frontal cortex) جن کے ذمہ منطقی سوچ اور تسلسل کا بیان ہوتی ہے کمزور پڑ جاتے ہیں تاہم دماغ کے باقی حصے اور خاص طور پر وہ حصے جن کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے یعنی لمبک سسٹم limbic system کام کرتے رہتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ اکثر خواب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں اور ان میں کوئی تسلسل نہیں ہوتا – اس حالت میں دماغ پر جو کیفیات گزرتی ہیں ان میں سے زیادہ تر صبح ہونے تک بھول جاتی ہیں اس لیے کہ نیند کے دوران یادداشت کا سیسٹم یعنی میموری سبسیسٹم کام کم کر دیتا ہے - تاہم شدید جذباتی خواب دیر تک یاد رہتے ھیں شاید اس لیے کہ ان کا لمبک سسٹم پر اثر دیر تک رہتا ہے – اسکے علاوہ صبح سویرے کے خواب بھی یاد رہ جاتے ہیں – جاگنے کی بعد بھی دماغ کو پوری طرح کام شروع کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے جس کے دوران خواب کچھ کچھ یاد رہتے ہیں لیکن کچھ منٹ بعد ہی بیشتر خواب بھول جاتے ہیں – اسی لئے ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ خواب یاد رکھنا چاھتے ہیں تو جاگنے کے فوراً بعد ہی خواب کو لکھ لینا چاہئے
خواب میں عام طور پر وہ چیزیں آتی ہیں جو یا تو آپ دن میں سوچ رہے ہوتے ہیں یا وہ جو کسی گہری جذباتی وابستگی کے سبب آپ کے تحت الشعور میں بسی ہوئی ہیں - لہٰذا خواب عام طور پر دونوں کا ملغوبہ ہوتے ہیں جن کا اکثر کوئی سرپیر نہیں ہوتا - اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ نیند کے دوران دماغ عارضی یادوں کو (جو دن بھر میں اکٹھا ہوئی تھیں) کھنگالتا ہے اور ان میں جن یادوں نے گہرا اثر چھوڑا ہو یا جن کی وجہ سے پرانی یادیں تازہ ہوئی ہوں انہیں مستقل یادوں میں تبدیل کرتا ہے - غالباً یہی وجہ ہے کہ خواب میں تازہ اور پرانی یادوں کی بےہنگم آمیزش ہوتی ہے -
رہا یہ سوال کہ کچھ خواب سچے کیوں ہوتے ہیں تو اس کا سیدھا سادہ جواب ہے confirmation bias - انسان اپنی زندگی کا تقریباً ایک تہائی حصہ سو کر گزارتا ہے اور اس سونے کے وقت میں سے قریباً بیس فیصد حصہ خواب دیکھنے میں گزرتا ہے - اگر ایک آدمی سو سال زندہ رہتا ہے تو اس کی عمر کے سات سال خواب دیکھتے گزرتے ہیں - کیا کوئی شخص دیانت داری سے کہ سکتا ہے کہ یہ تمام خواب سچ ہیں جبکہ 99 فیصد خواب انسان کو فوراً بھول جاتے ہیں - ہوتا صرف یہ ہے کہ اگر کوئی خواب اتفاقاً سچا ہوجائے تو یہ واقعہ جذبات پر اس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ بہت دیر تک یاد رہتا ہے جبکہ جو خواب سچے نہ ہوں وہ بھول جاتے ہیں کیونکہ ان پر ہم توجہ نہیں دیتے - کون ہے جس نے اپنے پیاروں کو خواب میں کسی مصیبت میں نہیں دیکھا؟ زیادہ تر ایسے خواب سچ نہیں ہوتے اور ہم جاگ کر شکر کرتے ہیں کہ یہ محض ایک خواب تھا - ان موقعوں پر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پیاروں پر بلا آئی تھی جو کسی نیکی کی وجہ سے ٹل گئی - یہ confirmation bias نہیں تو اور کیا ہے؟
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔