ٹرانس جینک ریسرچ
یہ سُوڈو سائنس نہیں یہ رئیل سائنس ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے پچاس سال بعد ٹرانس جینک ریسرچ اِس مقام پر پہنچ چکی ہوگی کہ چمگادڑ کے ڈی این اے سے پَر ، گرگٹ کے ڈی این اے سے رنگ بدلنے کی صلاحیت، جھینگا مچھلی کے ڈی این اے سے ٹرانسپیرنٹ (شفاف) ہوجانے کی صلاحیت، جگنو کے ڈی این اے سے جگمگانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب ٹیسٹ ٹیوب بے بی میں ڈالے جاسکینگے۔
تصور کریں، کل کو آپ کی چھت پر ایک سفید پری اُترتی ہے۔ اُتر کر شیشے کی طرح شفاف ہوجاتی ہے۔پھر وہ پر سمیٹ کر خراماں خراماں چلتی ہوئی آپ کے پاس آتی ہے۔ آپ کو اپنے پروں میں چھپا کر کان میں کچھ کہتی ہے۔ پھر اچانک اس کے پر پھیلتے ہیں اور ان میں سے ہزار رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔
ہرہررنگ میں روشنی کا ہالہ (Glow) سا ہے۔ وہ پری جب اپنے پر پھڑپھڑاتی ہے تو جگنوؤں کی طرح ہزار رنگ فضا میں بکھر جاتے ہیں۔ اور وہ دور شفق کی طرف پرواز کرجاتی ہے۔
تصور کریں کہ ایسا سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی آپ فقط مسکراتے ہوئے اُسے کہتے ہیں،
''اچھا ٹھیک ہے! لیکن جلدی آنا۔ تم روز اتنی رات کو لوٹتی ہو۔ سارا کھانا ٹھنڈا ہوجاتاہے''
میں نے قطعاً مذاق نہیں کیا۔ یہ ٹرانس جینک ریسرچ کا سفر ہے۔ اور عمر؟؟؟؟
اس وقت ایک سو ساٹھ سال کی عمر میں آپ کی طاقت اور جوانی اتنی ہوگی کہ آپ اولمپک گیمز میں حصہ لے کر کم ازکم کانسی کا تمغہ ضرور جیت سکینگے۔ اسی پر موقوف نہیں، جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے آرٹیکل میں لکھا تھا اُن انسانوں کی آنکھوں میں چیتے اور عقاب کے جینز، حساسیت میں ہاتھی کے جینز، لچک میں بلی کے جینز، سونگھنے اور سننے کی صلاحیت میں کُتے کے جینز وغیرہ شامل کرکے انسان کو اشرف المخلوقات کے مقام سے نہ جانے کون سے مقام تک پہنچادیا جائے گا۔
الامان! الحذر!
ادریس آزاد
یہ سُوڈو سائنس نہیں یہ رئیل سائنس ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے پچاس سال بعد ٹرانس جینک ریسرچ اِس مقام پر پہنچ چکی ہوگی کہ چمگادڑ کے ڈی این اے سے پَر ، گرگٹ کے ڈی این اے سے رنگ بدلنے کی صلاحیت، جھینگا مچھلی کے ڈی این اے سے ٹرانسپیرنٹ (شفاف) ہوجانے کی صلاحیت، جگنو کے ڈی این اے سے جگمگانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب ٹیسٹ ٹیوب بے بی میں ڈالے جاسکینگے۔
تصور کریں، کل کو آپ کی چھت پر ایک سفید پری اُترتی ہے۔ اُتر کر شیشے کی طرح شفاف ہوجاتی ہے۔پھر وہ پر سمیٹ کر خراماں خراماں چلتی ہوئی آپ کے پاس آتی ہے۔ آپ کو اپنے پروں میں چھپا کر کان میں کچھ کہتی ہے۔ پھر اچانک اس کے پر پھیلتے ہیں اور ان میں سے ہزار رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔
ہرہررنگ میں روشنی کا ہالہ (Glow) سا ہے۔ وہ پری جب اپنے پر پھڑپھڑاتی ہے تو جگنوؤں کی طرح ہزار رنگ فضا میں بکھر جاتے ہیں۔ اور وہ دور شفق کی طرف پرواز کرجاتی ہے۔
تصور کریں کہ ایسا سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی آپ فقط مسکراتے ہوئے اُسے کہتے ہیں،
''اچھا ٹھیک ہے! لیکن جلدی آنا۔ تم روز اتنی رات کو لوٹتی ہو۔ سارا کھانا ٹھنڈا ہوجاتاہے''
میں نے قطعاً مذاق نہیں کیا۔ یہ ٹرانس جینک ریسرچ کا سفر ہے۔ اور عمر؟؟؟؟
اس وقت ایک سو ساٹھ سال کی عمر میں آپ کی طاقت اور جوانی اتنی ہوگی کہ آپ اولمپک گیمز میں حصہ لے کر کم ازکم کانسی کا تمغہ ضرور جیت سکینگے۔ اسی پر موقوف نہیں، جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے آرٹیکل میں لکھا تھا اُن انسانوں کی آنکھوں میں چیتے اور عقاب کے جینز، حساسیت میں ہاتھی کے جینز، لچک میں بلی کے جینز، سونگھنے اور سننے کی صلاحیت میں کُتے کے جینز وغیرہ شامل کرکے انسان کو اشرف المخلوقات کے مقام سے نہ جانے کون سے مقام تک پہنچادیا جائے گا۔
الامان! الحذر!
ادریس آزاد
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔